اسلام محض چند مخصوص عبادتوں روزہ، نماز، حج اور نفل نمازوں کی ادائیگی کے مجموعہ کا نام نہیں بلکہ یہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا ایک حسین امتزاج ہے۔ اسی لیے اسلام نے دنیائے انسانیت کو باہمی اخوت ومحبت، ہمدردی اور خدمت گزاری کا درس دیا ہے۔ طاقتوروں کو کمزوروں پر رحم کرنے، امیروں کو غریبوں کی مدد کرنے، مظلوموں وحاجت مندوں کی فریاد رسی کرنے اور یتیموں مسکینوں کے دکھ درد کو بانٹنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا لیس البرُ اَن تُوَلّوا وُجوھکم قِبَلَ المشرقِ والمَغْرِبِ۔۔۔ الخ (البقرہ: 177)
ترجمہ: ’’نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنا رخ مشرق کی طرف کر لیا یا مغرب کی طرف، بلکہ اصل نیکی یہ ہے کہ….. اپنا دل پسند مال اپنے رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، مانگنے والوں اور غلاموں کے آزاد کرانے کے لیے خرچ کرو،
افسوس کہ ہم اس صفت سے عاری ہو گئے ہیں، بے حسی اتنی کہ اپنے رشتہ داروں، ہمسایوں، ضرورت مندوں کے دکھ درد کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ خود کے پیٹ کی تو فکر ہے لیکن اس دکھی پڑوسی باپ کی فکر نہیں جس کے بچے بھوک کی وجہ سے پوری رات بلک بلک کر گزار دیتے ہیں۔ اپنے بچوں پر تو ضرورت سے زیادہ خرچ لیکن محلے کے محتاج بچوں کی نم ناک آنکھیں دیکھ کر بھی سخت دلی!
۲۔ کامل مومن کی علامت کا تذکرہ کرتے ہوے فرمایا وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ( سورہ الدھر8)
اور وہ کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو۔
ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "خیر الناس من ینفع الناس "بہترین آدمی وہ ہے جو لوگوں کو فائدہ پہونچائے”
حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے:
“رحم کرنے والوں پر رحمن (اللہ) تبارک وتعالیٰ مہربان ہوگا۔ اس لیے جو زمین پر ہیں ان پر رحم کرو تم پر وہ ذات رحم کرےگی جو آسمان میں ہے۔”
امام رازی ؒ "تفسیر کبیر”میں فرماتے ہے کہ ساری عبادتوں کا خلاصہ صرف دو چیزیں ہیں امرِ الہی کی تعظیم اور مخلوقِ خدا پر شفقت۔ شیخ سعدی کا قول ہے جو مخلوق کی خدمت کرتا ہے تو مخلوق اس کی خادم بن جاتی ہے۔ کیونکہ کسی دکھی انسان کے درد کو بانٹنا حصول جنت کا ذریعہ ہے۔ کسی زخمی دل پر محبت وشفقت کا مرہم رکھنا اللہ کی خوشنودی کا باعث ہے۔ کسی مقروض کا قرض اتارنا اور کسی محتاج کی کفالت کرنا اللہ کے رحمتوں اور برکتوں کے حصول کا ایک اہم سبب ہے۔ کسی بھوکے کو کھانا کھلانا، ننگے کو کپڑا پہنانا یہ ایمان کامل کی علامت ہے۔
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
لیکن افسوس کہ ہم اس صفت سے عاری ہو گئے ہیں، بے حسی اتنی کہ اپنے رشتہ داروں، ہمسایوں، ضرورت مندوں کے دکھ درد کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ خود کے پیٹ کی تو فکر ہے لیکن اس دکھی پڑوسی باپ کی فکر نہیں جس کے بچے بھوک کی وجہ سے پوری رات بلک بلک کر گزار دیتے ہیں۔ اپنے بچوں پر تو ضرورت سے زیادہ خرچ لیکن محلے کے محتاج بچوں کی نم ناک آنکھیں دیکھ کر بھی سخت دلی! اللہ کی پناہ!! جب کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن وہ نہیں جو پیٹ بھر کر کھائے اور اس کے پہلو میں اس کا پڑوسی بھوکا رہے۔
اس لیے اب ضروری ہے کہ ہم مخلوق کے درد کو اپنا درد سمجھیں ان کی ضرورت کو اپنی ضرورت سمجھ کر اسے پورا کرنے کی کوشش کریں۔ بالخصوص اس مشکل وقت میں جب کہ پوری دنیا کرونا وائرس کی وبا سے خوف زدہ اور پریشان ہے۔ ترقی یافتہ ممالک بھی بے بس ہیں اور موت کا خوف ان کے چہروں سے عیاں ہے۔ ہر ملک میں لاک ڈاون کا اعلان ہو چکا ہے۔ ہمارے ملک ہندوستان میں موجودہ حالات کے پیش نظر آئندہ ۲۱ دنوں تک لاک ڈاون کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ جس کے بعد ہر ایک کی یہی کوشش ہے کہ ان دنوں اتنی ضروریاتِ زندگی، اشیائے خورد ونوش جمع کرلے جو اس مشکل وقت میں کافی ہو مگر غریب مزدور اور وہ لوگ جن کا گزارہ ہی روزانہ کی کمائی پر ہوتا ہے ان کے پاس اتنے پیسے ہی نہیں ہوتے کہ اشیائے ضروریہ خرید کر اسٹاک کرلیں۔ وہ انتہائی پریشانی کے عالم میں ہیں، اب انہیں اس وبا سے زیادہ اپنے معصوم بچوں اور اپنے گھر کی فکر ہے۔ اس وقت ان کی پریشانی کون دور کرے گا اس مشکل وقت میں کون ان کا سہارا بنے گا کون ان کے درد کو سمجھے گا؟ یہ ہماری ہی ذمہ داری ہے، اس لیے اب ضروری ہے کہ
۱۔ اہل ثروت حضرات اس طرف توجہ دیں اور اپنے اموال کی زکوٰۃ رمضان کے بجائے ابھی نکال دیں یا پھر ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق صدقہ وخیرات کرتا رہے اس لیے کہ زکوٰۃ کا مقصد ہی ضرورت پوری کرنا ہے اسی لیے اللہ تعالی نے فتح مکہ سے پہلے (جب کہ ضرورت زیادہ تھی) خرچ کرنے والوں کی تعریف فرمائی لایَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَؕ- اُولٰٓئكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْاؕ(سورۃ الحدید) (تم میں فتح مکہ سے پہلے خرچ کرنے والے اور جہاد کرنے والے برابر نہیں ہیں وہ بعد میں خرچ کرنے والوں اور لڑنے والوں سے مرتبے میں بڑے ہیں)
۲۔ ہرشخص اپنے خاندان اور محلے کے غریب لوگوں کی بلا تفریقِ مذہب ومسلک فکر کرے کہ کہیں وہ بھوکے تو نہیں سو رہے ہیں؟
۳۔ رفاہی تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے shelters قائم کریں جہاں ہر کسی کو بلا کسی امتیاز کے دونوں وقت کی خوراک میسر ہو، لیکن خدا کے واسطے بات بات پر سیلفی لے کر ان غریبوں کی غیرتوں کا خون نہ کریں۔
۴۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ غریبوں کا ممکنہ تعاون کرے اور بیماروں کے لیے مفت علاج کا انتظام کرے۔
(مضمون نگار ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد میں مدرس ہیں)