خبر و نظر
پرواز رحمانی
دلی میں کیا ہورہا ہے
باخبر حلقوں نے محسوس کیا ہوگا کہ دلی کے وزیر اعلیٰ بہت تیزی سے سیاسی رنگ بدل رہے ہیں اور اسی ایجنڈے کی طرف جارہے ہیں جو سو سال قبل ہندوتوا کے علمبرداروں نے اس ملک کے لیے وضع کیا تھا۔ پہلے کیجریوال نے اعلان کیا کہ دلی کے سینیر شہریوں کو ریاستی سرکار اپنے خرچ پر ملک کے اہم دھارمک مقامات کی سیر کرائے گی۔ ان کے قیام و طعام وغیرہ کے تمام مصارف خود ادا کرے گی یہ کام فوراً شروع ہوگیا تھا اور ہنوز جاری ہے۔ مقامات کی فہرست میں ٹاپ ایودھیا ہے۔ دیگرمقامات بھی اسی نیچر کے ہیں جن پر صرف ایک فرقے کا رنگ غالب ہے۔ دیگر فرقوں کے مقامات محض برائے نام ہیں۔ ابھی ماہ اگست میں وزیر اعلیٰ نے گنیش چتورتھی کے پروگراموں کا اہتمام سرکاری طور پر کیا۔ گنپتی پوجا کے یہ پروگرام سرکار کی نگرانی میں سرکاری افسروں کی زیر نگرانی انجام پائے۔ اب دیوالی کے موقع پرکیجریوال نے شری رام نومی ، کا استقبال دلی کے انداز میں کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ پور دلی میں بھجن، اور گنیش وندنا کے بڑے بڑے سرکاری پروگرام ہوئے۔ ایودھیا میں رام مندر کے طرز پر ہونے والےان بڑے پروگراموں میں کیجریوال اور ان کے قریبی ساتھی شریک رہے۔ ان میں عام شہریوں کو شامل کرنے کا اہتمام بھی کیا گیا۔
سیاست کی کارستانی
یہ اروند کیجریوال جب پبلک لائف میں نمودار ہوئے تو سیاست کے تجربے کار کھلاڑی نہیں تھے۔ ان کا اصل کام سوشل ورک تھا۔ وہ سرکاری افسر ہونے کے باوجود سرکاری محکموں میں رشوت ستانی کے خلاف کام کرتے تھے۔ ان کے خیال میں رشوت نے پبلک لائف کو کھوکھلا کر رکھا تھا جس میں کم آمدنی والے لوگ پس رہے تھے۔ مہاراشٹر میں یہی آواز ایک تجربہ کار سماجی مصلح انا ہزارے نے بہت پہلے بلند کر رکھی تھی ۔ کیجریوال اور ان کے گروپ نے انہیں دلی بلایا۔ وہ آئے اور آندھی و طوفان کی طرح آئے۔ کانگریس کی مرکزی اور ریاستی حکومتیں بد حواس ہوگئیں۔ ادھر بی جے پی اپنا کھیل کھیل رہی تھی۔ ہزارے کو اس نے آتے ہی ہائی جیک کرلیا۔ کانگریس نے ان کا زور توڑنے کے لیے بابا رام دیو پر ہاتھ ڈالا۔ مگر وہ رہ نہ سکے۔ انا ہزارے اور کیجریوال میں بُعد اس وقت پڑگیا جب کیجریوال دونوں بڑی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی سے برابر کی دوری بنائے رکھنے کی بات کررہے تھے جب کہ انا ہزارے کو بی جے پی نے پہلے ہی رام کر رکھا تھا۔ اس لیے وہ صرف کانگریس او راس کی سرکاروں کے خلاف بولتے، بی جے پی کے بارے میں کچھ نہ کہتے۔ کیجریوال کی نظر دلی کی چیف منسٹر شپ پر جم گئی جبکہ انا یہ نہیں چاہتے تھے۔ بالآخر بُعد اتنا بڑھا کہ دونوں کی راہیں جدا ہوگئیں۔
دلی والے اب کیا کریں گے
اروند کیجریوال نظریاتی تجربات پہلے بھی کرتے رہےہیں۔ وہ کچھ دن آر ایس ایس میں بھی رہے۔ کمیونسٹوں کا ساتھ بھی دیا کچھ اور گروپوں کا تجربہ بھی کیا۔ آخر میں سرکاری محکموں کے کرپشن کے خلاف سرگرم اور عملی مہم شروع کی لیکن اس چیز نے جلد ہی ان کے اندر سیاسی اقتدار کا جذبہ پیدا کردیا۔ عام آدمی پارٹی بنائی۔ پارٹی دوبار دلی اسمبلی میں غیر معمولی طورپر کامیاب ہوئی۔ اب انہیں تیسری بار بھی الیکشن لڑنا ہے لیکن اس بار بی جے پی اپنے ہندوتوا کے ایجنڈے کے ساتھ پوری تیاری میں ہے۔ اس لیے شاید اسی کے جواب میں کیجریوال ہندوتوا کا تجربہ کررہے ہیں۔ دھارمک رتھ یاتریوں پر بھاری خرچ، گنیش پوجا، شری رام پرستی، یہ سب کیا ہے۔ لیکن وہ بی جے پی کی غیر معمولی تیاریوں کا مقابلہ کرسکیں گے جب کہ اس کے ساتھ پڑوسی ریاست یو پی بھی ہے جو ہندوتوا کی لیباریٹری بنی ہوئی ہے۔ اس کا وزیر اعلیٰ ہر بھاشن کے ہر جملے میں ہندووں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دور کرنے کی بات کرتا ہے ’’پہلے کی سرکاریں سرکاری خزانہ قبرستانوں پر لٹاتی تھیں۔ اب ہماری سرکار مندروں پرخرچ کرتی ہے‘‘۔ کیجریوال سرکاری کرپشن کی مخالفت اب پہلے کی طرح نہیں کرتے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دیگر پارٹیاں اور سماجی و مذہبی حلقے عام آدمی پارٹی کے تعلق سے کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 14 نومبر تا 20 نومبر 2021