پرواز رحمانی
وائرس اور حکومت کی چابک دستی
ملک میں وبائی امراض کے پھوٹ پڑنے کی تاریخ قدیم ہے لیکن جس ’’شان‘‘ اور دبدبے سے یہ کورونا وائرس آیا ہے اس نے بہت سوں کا بُرا کیا ہے تو بہت سوں کا بھلا بھی کیا۔ حکومت نے جس چابک دستی سے اس وائرس کا نوٹس لیا ہے اس نے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ بُرا ان طبقوں کا ہوا جو غریب ہیں وہ سب پابندیاں اور وہ احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرسکتے جو حکومت ایک ایک کرکے ان پر لاد رہی ہے اور بھلا حکومت، حکمراں پارٹی اور اس کے سرپرست لوگوں کا ہوا اس اعتبار سے کہ ملک کی پوری آبادی کو درپیش تمام بڑے مسائل کو بھول کر وہ اسی فکر میں لگ گئے۔ حکومت نے اس کورونا وائرس کا نوٹس ضرورت سے کچھ زیادہ ہی لیا ہے۔ وہ عوام کو جو کچھ ہدایات دیتی رہی عوام اس پر عمل کرتے رہے اور حکومت کے حوصلے بڑھتے رہے۔ 22 مارچ کے بھارت بند پر تو عوام نے غیر معمولی عمل کیا اور اس لیے کیا کہ اس سے قبل حکومت اور حکمراں پارٹی نے عوام کے اندر زبدست خوف وہراس پیدا کر دیا تھا، انہیں بری طرح ڈرا دیا تھا۔ لہٰذا 22 مارچ کی کامیابی کا سبب عوام کی مجبوری اور خوف تھا، اس سے حکومت کے حوصلے زیادہ بڑھ گئے اور وزیر اعظم نے بڑے زوردار انداز میں اعلان کر دیا کہ اب تم کو تین ہفتوں کا جنتا کرفیو اور جھیلنا ہوگا جو 22 مارچ سے بھی سخت ہوگا اس دوران لوگ گھروں میں ہی رہیں گے اور انتہائی ضروری کام سے ہی باہر نکل سکیں گے۔
یہ کرنا ضروری تھا
ویسے حکومت وائرس کی روک تھام کے لیے جو کچھ کر رہی ہے وہ ضروری بھی ہے ورنہ اگر وبا خطرناک شکل اختیار کر لیتی ہے تو سارا الزام اسی پر آ سکتا ہے۔ یہ تو ٹھیک ہے لیکن اس حکومت نے جس چابک دستی سے اسے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا وہ قابل غور ہے۔ کورونا وائرس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ چین سے نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں پھیل گیا اسی بنیاد پر ایک مضبوط تھیوری یہ بن گئی کہ یہ ایک سازش ہے جس کا مقصد دنیا میں نیا معاشی نظام قائم کرنا ہے۔ اس سازش میں امریکہ اور اسرائیل کے علاوہ کچھ اور ممالک بھی شامل ہیں جو کورونا وائرس کو بھیانک انداز سے پیش کر رہے ہیں اور کچھ ممالک ہیں جو شعوری یا غیرشعوری طور پر اس سازش میں معاون بنے ہوئے ہیں۔ یہ حقائق آج نہیں تو کل ضرور سامنے آئیں گے اور دنیا کو پتہ چل جائے گا کہ یہ بڑی طاقتیں کس طرح آفات وبلیات کو بھی اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ بہر حال عوام کو، جن میں مسلمان بھی شامل ہیں سرکاری تدابیر پر عمل درآمد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے طور پر بھی احتیاط ضرور کرنا چاہیے البتہ حکومت نے 25 کلو اناج اور دس ہزار روپے کی جو اسکیم بنائی ہے اس کے مقاصد کو سمجھنا ہوگا۔ ہر شہری کا پورا ڈاٹا گورنمنٹ کے پاس بتائیں پھر بھی اس موقع پر وہ دستاویزات مانگنا چاہتی ہے۔
یہ حقائق آج نہیں تو کل ضرور سامنے آئیں گے اور دنیا کو پتہ چل جائے گا کہ یہ بڑی طاقتیں کس طرح آفات وبلیات کو بھی اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ بہر حال عوام کو، جن میں مسلمان بھی شامل ہیں سرکاری تدابیر پر عمل درآمد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے طور پر بھی احتیاط ضرور کرنا چاہیے البتہ حکومت نے 25 کلو اناج اور دس ہزار روپے کی جو اسکیم بنائی ہے اس کے مقاصد کو سمجھنا ہوگا۔ ہر شہری کا پورا ڈاٹا گورنمنٹ کے پاس بتائیں پھر بھی اس موقع پر وہ دستاویزات مانگنا چاہتی ہے۔
کچھ پہلو وضاحت طلب ہیں
کچھ اور سہولتوں کا بھی اعلان کیا ہے لیکن وہ ناکافی ہیں ان کی تفصیل بھی ندارد ہے یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ چھوٹے گھروں اور فلیٹوں میں، جن میں آٹھ آٹھ اور دس دس افراد رہتے ہیں وہ ایک دوسرے سے ایک میٹر کی دوری کیسے بنائے رکھیں۔ مائیں بچوں سے کس طرح دور رہ سکتی ہے وغیرہ اور جو لوگ یومیہ مزدوری کرتے ہیں ان کی ضروریات کیسے پوری ہوں گی اس طرح کے بہت سے مسائل ہیں جو حل طلب ہیں۔ جہاں تک مسلم آبادیوں کا سوال ہے وہ حکومت کے تمام اعلانات پر پوری یکسوئی سے عمل کر رہے ہیں مساجد میں نماز باجماعت کا مسئلہ پیدا ہوگیا تھا لیکن علمائے کرام نے اسے بھی بڑی خوش اسلوبی سے حل کر لیا ہے مسجدوں میں اذانیں بھی ہوں گی اور نماز باجماعت بھی ہوگی لیکن مختصر مصلیوں کی تعداد کے ساتھ اور ابھی بھی مسجدوں میں اس کا اعلان لگاتار کیا جا رہا ہے۔ شاہین باغوں نے بھی اپنے مظاہروں پر اصرار نہیں کیا۔ مسلمانوں کی احتیاط اور دور اندیشی کا محرک یہ بھی رہا ہے کہ خدانخواستہ وبا کے پھیل جانے پر حکومت اور حکمراں پارٹی انہی کو معتوب نہ کر دے۔ بہر حال حکومت کا یہ وار بھی دوسرے واروں کی طرح بھاری پڑا وہ ملک کی معاشی حالت پر اٹھنے والے سوالات سے فی الحال بچ گئی ہے۔