خبر و نظر

پرواز رحمانی

انڈین مجاہدین
پچھلے دنوں ممبئی میں صنعت کار مکیش امبانی کی رہائش گاہ کے پاس ایک کار میں کچھ دھماکہ خیز مواد پایا گیا۔ بڑے پونجی پتی کا مسئلہ تھا، پولیس اور سیکوریٹی ایجنسیاں اعلیٰ سطح پر فی الفور انکوائری میں لگ گئیں۔ بالآخر اب نئی دلی کی خبر ہے کہ بم رکھنے کے ذمہ دار ’’انڈین مجاہدین‘‘ ہیں جن کا ایک آدمی تہاڑ جیل میں انتہائی سخت سیکوریٹی وارڈ میں قید ہے۔ جیل میں اس کے پاس سے ایک اسمارٹ فون برآمد ہوا جسے ٹیلی گرام چینل کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ انڈین مجاہدین کے قیدی کا نام تحسین اختر ہے جس کا نام نئی دلی میں اسرائیلی سفارت خانے کے باہر ہونے والے دھماکے میں آیا تھا نیز 2014 میں پٹنہ کے گاندھی میدان میں گجرات کے وزیر اعلیٰ مودی کی پبلک ریلی میں جو دھماکہ ہوا تھا اس کے لیے بھی انڈین مجاہدین کو قصور وار قرار دیا گیا تھا۔ اور اس طرح بہت عرصے بعد ’’انڈین مجاہدین‘‘ کا نام سامنے آیا ہے ورنہ کئی سال سے یہ نام دب سا گیا تھا۔ انڈین مجاہدین کا نام پہلی بار 2008 میں بٹلہ ہاوس کے ’’انکاونٹر‘‘ میں سنا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ نام سیاست اور صحافت میں کئی سال گرم رہا۔ اب ایک بار پھر یہ نام اٹھایا گیا گیا ہے۔
یہ کون لوگ ہیں
انڈین مجاہدین کا نام جب سے لائم لائٹ میں آیا ہے، اسی وقت سے خواہش ہے انہیں جاننے کی کہ یہ کون لوگ ہیں کہاں سے آئے ہیں کہاں رہتے ہیں ان کے ہیڈ کوارٹرس کہاں ہیں؟ لیکن ان کا کہیں سراغ نہیں مل سکا۔ ان کے بارے میں معلومات کا واحد ذریعہ پولیس ہے وہ اس طرح کہ پولیس کسی مسلم نوجوان کو یا کچھ نوجوانوں کو پکڑ کر میڈیا کو بتا دیتی ہے کہ گرفتار کیے گئے نوجوانوں کا تعلق انڈین مجاہدین سے ہے اور بس۔ اس سے زیادہ پولیس کچھ نہیں بتاتی۔ ہمیں ان کے بارے میں جاننے کا تجسس اس لیے بھی تھا کہ انہوں نے حالیہ برسوں میں سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہی پہنچایا ہے۔ جب کبھی انڈین مجاہدین کا نام میڈیا میں آ جاتا ہے اس سے دہشت گردی کی بڑی بڑی کہانیاں اور افسانے تراشے جاتے ہیں۔ اسلام کو بدنام کیا جاتا ہے اس لیے ہم خود ان سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ تم مسلمانوں کے دشمن کیوں ہو انہوں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے اسلام نے تمہیں کیا نقصان پہنچایا ہے۔ تمہاری مبینہ حرکتوں کی وجہ سے پوری مسلم ملت بد نام ہو رہی ہے۔
مسلمانوں کو بھی بتایا جائے
تمہیں ہم اس بنیاد پر مسلمان کہتے ہیں کہ تمہارے کاموں پر گرفتاریاں مسلمانوں کی ہی ہوتی ہیں۔ ان ہی کو پکڑا جاتا ہے۔ ان ہی کو سزائیں ہوتی ہیں۔ ابھی امبانی کے مکان کے سامنے دھماکہ خیز مواد ملنے کے بعد تہاڑ جیل میں قید عارض خاں کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔ انڈین مجاہدین کی حرکتوں پر کسی غیر مسلم کو پکڑا نہیں گیا۔ امبانی والی خبر میں ایک اور نیا نام آیا ہے ’’جیش الہند‘‘۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ گروپ ہی ٹیلی گرام چینل چلاتا تھا۔ پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے پاس ناموں کے کوئی کمی نہیں ہے۔ ایجنسیوں کو چاہیے کہ جب کبھی کسی ایسے گروپ کو پکڑیں تو اسے مسلمانوں کے سامنے بھی لائیں تاکہ ان کی شناخت ہو سکے۔ اگر وہ واقعی موجود ہیں اور مسلمان ہیں تو مسلمانوں کے لیے انہیں سمجھانے منانے کا موقع رہے گا اور اس طرح ان کی اصلاح ہو سکے گی۔ اگر پولیس انڈین مجاہدین کو مسلمانوں کے سامنے پیش کر دیتی تو ہ معاملہ کبھی کا سلجھ چکا ہوتا۔ لیکن پولیس نام کو تو زندہ رکھنا چاہتی ہے ان کی اصلیت کو ظاہر کرنا نہیں چاہتی۔ اس طرح تو یہ معاملہ کبھی ختم نہیں ہو گا اور پولیس انتظامیہ کا مقصد بھی شاید یہی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 مارچ تا  3 اپریل 2021