خبر و نظر
پرواز رحمانی
بھارت ماتا کون ہے ؟
سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے بڑے پتے کی بات کہی ہے جس پر غور کیا جائے تو سیاستِ حاضرہ کے بہت سے حقائق سامنے آ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کے نیشنلزم اور بھارت ماتا کی جئے کے نعرے سراسر جذباتی ہیں جو انڈیا کو تشدد اور سخت گیری کی راہ پر لے جا رہے ہیں۔ ۲۲؍ فروری کو نئی دہلی میں ایک کتاب ’’ہُو از بھارت ماتا‘‘ کا اجراء کرتے ہوئے ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ اِن نعروں کا مقصد ایک ایسا انڈیا بنانا ہے جس میں لاکھوں ملکی باشندوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی ۔بھارت ماتا کا نعرہ ایک غلط مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ کتاب کے مصنفین پرشوتم اگروال اور رادھا کرشنا ہیں۔ انہوں نے کتاب میں ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے بیانات، تقریروں اور تحریروں کے جابجا حوالے دیے ہیں اور لکھا ہے کہ اگر پنڈت نہرو نہ ہوتے تو بھارت ترقی کے اس مقام پر نہ دکھائی دیتا جہاں آج کھڑا ہے۔ ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ کتاب کا مقصد بھارت کو صحیح تناظر میں پیش کرنا ہے جبکہ آج کچھ لوگ بھارت ماتا کی جئے کا نعرہ لگا کر اس کی حقیقت بدلنا چاہتے ہیں۔ آج کے نیشنلزم کا نعرہ بھی کھوکھلا ہے۔
یہ نعرے قدیم ہیں
سبھی جانتے ہیں کہ تاریخِ انسانی میں سب سے بڑا بگاڑ قوم پرستی اور علاقہ پرستی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جس میں مذہبی نعروں کا استعمال ہوتا ہے۔ بھارت کے ماضی قریب کی تاریخ میں بھارت ماتا کی جئے، وندے ماترم اور ہر ہر مہادیو کے نعروں کا استعال بڑے پیمانے پر ہوا ہے۔ بنگلہ مصنف بنکم چٹرجی نے اپنے ناول ’آنند مٹھ‘ میں اپنے لڑاکو کرداروں سے یہی نعرے لگوائے ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ آج وہ لوگ بھی جو بھارت کو ایک جمہوری اور مذہبی طور سے غیر جانبدار اور انسانیت نواز عوامی ملک بنانا چاہتے ہیں انہی نعروں کا سہارا لے رہے ہیں۔اس کی واضح مثال مہاراشٹر کے انا ہزارے کا کرپشن مخالف آندولن ہے۔ چند سال قبل جب وہ دہلی آئے تو ’’بھارت ماتا کے جئے‘‘ کے نعرے اور تصویر کے ساتھ آئے تھے۔ اس وقت اروند کیجریوال اور ان کے ساتھی بھی ان کے ساتھ تھے۔ مگر جب یہ لوگ انا ہزارے سے الگ ہوئے تو ان کے مقاصد بھی وہی تھے اور نعرہ بھی وہی رہا یعنی بھارت ماتا کی جئے اور وندے ماترم۔بھاشنوں میں کیجریوال کا نعرہ آج بھی یہی ہے۔لیکن اب ایک اچھی بات کیجری وال کی عام آدمی پارٹی کے حوالے سے آئی ہے کہ پارٹی پورے ملک میں مثبت نیشنلزم کو فروغ دینا چاہتی ہے۔
نیا نعرہ کیا ہوگا؟
۲۲؍ فروری کو پارٹی کے ایک سنیئر لیڈر گوپال رائے نے اس کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ پارٹی نے پوزیٹیو نیشلزم کو فروغ دینے کے لیے فی الحال بیس ریاستوں میں ایک پروگرام تیار کیا ہے۔ یہ نیشنل آرگنائزیشن بلڈنگ پروگرام ہے جس میں ایک کروڑ افراد کو شامل کیا جائے گا۔ پوزیٹیو نیشنلزم پروگرام چلانے کا مطلب یہی ہے کہ آج مرکز کی حکمراں پارٹی جس نیشنلزم کی بات کرتی ہے وہ مثبت نہیں ہے۔ اس پارٹی نے دہلی کا حالیہ الیکشن بھی اپنے اسی نیشنلزم کی بنیاد پر لڑا تھا۔ عام آدمی پارٹی والے جانتے ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا بڑا اور واحد ایجنڈا یہی نیشنلزم ہے جس میں بھارت ماتا کی جئے کا نعرہ خاص طور سے بلند کیا جاتا ہے۔ تو کیا عام آدمی پارٹی بھی اپنے مثبت نیشنلزم کی مہم میں یہی نعرہ بلند کرے گی؟ وزیر اعلیٰ کیجریوال اپنے بھاشنوں کے اختتام پر ’’بھارت ماتا کی جئے‘‘ کا نعرہ پوری قوت کے ساتھ لگاتے ہیں۔ اب پتہ نہیں وہ یہ نعرہ سوچ سمجھ کر بلند کرتے ہیں یا اپنی حریف پارٹی کے جواب میں بلند کرتے ہیں۔ بہر حال گوپال رائے نے اپنے پروگرام کی جو تفصیل بتائی ہے وہ انڈیا کا وہی تصور ہے جو ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ’’بھارت ماتا کون ہے‘‘ کے حوالے سے پیش کیا ہے۔