خبر و نظر

شرارتی میڈیا اور عدالت عظمیٰ

پرواز رحمانی

 

’’میڈیا کسی مذہبی اقلیت کو اپنے حملوں کا ہدف نہیں بنا سکتا۔ کسی بھی مذہبی کمیونٹی کی عزت و عافیت اتنی ہی اہم ہے جتنی میڈیا کی آزادی۔ ہم ایک بردبار ملک چاہتے ہیں۔ ہم لوگ بطور شہری اور جج قومی سلامتی کے سلسلے میں بہت فکر مند ہیں، لیکن اسی کے ساتھ ہم انسانی عزت و حرمت کے لیے بھی فکر مند ہیں۔ ایمرجنسی میں جو کچھ ہوا ہم جانتے ہیں لہٰذا ہم شہریوں کے اظہار خیال کی آزادی چاہتے ہیں، ہم فرقوں کی مذہبی آزادی کے بھی پاسدار ہیں۔ سدرشن ٹی وی کو اپنے پروگرام چلانے اور اس کے لیے پبلک سے فنڈ جمع کرنے کا پورا حق ہے لیکن چینل کو پوری مسلم برادری کے خلاف خطرناک تبصرے کرنے کا کوئی حق نہیں ہے‘‘ یہ خیالات ظاہر کیے ہیں سپریم کورٹ کے جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے۔ وہ اتوار کو ایک تین نفری بینچ کی صدارت کر رہے تھے جو سدرشن ٹی وی کے ایک شر انگیز پروگرام ’’یو پی ایس سی جہاد‘‘ کے پری ٹیلی کاسٹ کے دکھائے جانے پر پابندی سے متعلق ایک درخواست کی سماعت کر رہی تھی۔ سدرشن ٹی وی کے بارے میں بہت سے لوگ جانتے ہوں گے کہ یہ ایک کینہ پرور اور مسلم دشمن چینل ہے اور اس کا مقصد مختلف عنوانات سے مسلمانوں کو مطعون کرنا، انہیں دہشت گرد قرار دینا اور انہیں ہر طرف سے بدنام کرنا ہے۔
اعلیٰ تعلیم کا معاملہ
اس مقصد کے لیے وہ کئی پروگرام پیش کر چکا ہے۔ اس کا تازہ پروگرام ’’یو پی ایس سی جہاد‘‘ ہے جس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسلمان اب مقابلہ جاتی امتحانات میں بھی گھسنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے غلط ذرائع سے فنڈ حاصل کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کی بینچ نے اس کی ہر بات کا نوٹس لیا ہے۔ بینچ نے کہا کہ یو پی ایس سی کے لیے دہشت گردوں سے فنڈ حاصل کرنے کا الزام لگا کر سدرشن چینل نے جھوٹ کی ساری حدیں پار کرلی ہیں۔ بحث کے دوران پروگرام کا دفاع کرتے ہوئے ایک وکیل نے کہا یہ پروگرام حقائق پر مبنی ہے۔ وہیں جسٹس اندو ملہوترہ نے کہا کہ پروگرام کے مندرجات انتہائی مضر ہیں۔ سدرشن ٹی وی نے ایک پورے فرقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔جسٹس کے ایچ جوزف نے کہا کہ اپنے بچوں کو سول سرویسز میں لانے کے لیے سبھی فرقے فنڈ جمع کرتے ہیں یہ کوئی عجب بات نہیں ہے اگر مسلمان بھی یہ کام کر رہے ہیں تو اس میں کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ اگر دہشت گردی سے کوئی تعلق ثابت ہو جائے تو کورٹ میں پیش کیجیے۔ جسٹس چندرچوڑ نے کہا کہ سدرشن کے پروگراموں میں جب بھی کسی مسلمان کا حوالہ آتا ہے تو اس کے ساتھ ہرا رنگ، ٹوپی اور ڈاڑھی دکھا کر جہاد اور آئی ایس آئی ایس کا ذکر ضرور کیا جاتا ہے اور اسے گہری سازش بتایا جاتا ہے۔
ریموٹ کنٹرول کہیں اور ہے
ہمارے نزدیک یہ سدرشن ٹی وی اُن عناصر کا حصہ ہے جو مرکزی حکومت نے سماجی ڈھانچے میں دراڑیں ڈالنے کے لیے پورے ملک میں چھوڑ رکھی ہیں۔ یہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں حکومت کے ایماء پر کرتے ہیں۔ 2014 میں نئی حکومت کے آتے ہی لوگوں کو گئو کشی کے نام پر مار ڈالنے کا کام شروع کر دیا گیا، تحفظ گاؤ کا قانون بنا کر قاتلوں اور بدمعاشوں کو پوری اجازت دے دی گئی کہ وہ جو چاہیں کریں۔ حکمراں پارٹی کے لیڈروں کو اجازت ہے کہ عوام کو مشتعل کرنے کے لیے جس طرح کے بھاشن دینا چاہیں دیں۔ یہ حکومت کسی کو نہیں روکتی۔ آج رام مندر کے نام پر بہت سے لوگ شرارتیں کر رہے ہیں، ووٹ مانگ رہے، پیسہ جمع کر رہے ہیں لیکن حکومت میں یہ کہنے کا دم نہیں کہ ’’ہم نے اپنے داؤ پیچ سے تمہارے لیے مندر کا میدان تیار کر دیا ہے اب جاؤ وہاں آرام سے مندر بناؤ لیکن شرارتیں مت کرو۔ رام مندر، طلاق ثلاثہ پر قدغن اور کشمیر کی دفعہ 370 سب کچھ تو حاصل ہو گیا ہے اب اور کیا چاہیے؟ سدرشن ٹی وی کے بارے میں سپریم کورٹ نے جو ریمارکس دیے بہت خوب ہیں لیکن اب کورٹ یہ بھی دیکھے کہ حکومت اس کی روک تھام کے لیے کیا کرتی ہے۔ دراصل جب حکومت قانون اور اخلاقیات کی پابند نہیں ہے تو اس کے چیلے چپاٹوں کو سمجھانے سے کیا فائدہ؟ حکومت اپنے شرارتیوں کو کسی کام سے کبھی نہیں روکتی چنانچہ سدرشن اُسی کی تائید سے چل رہا ہے۔

ہمارے نزدیک یہ سدرشن ٹی وی اُن عناصر کا حصہ ہے جو مرکزی حکومت نے سماجی ڈھانچے میں دراڑیں ڈالنے کے لیے پورے ملک میں چھوڑ رکھی ہیں۔ یہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں حکومت کے ایماء پر کرتے ہیں۔ 2014 میں نئی حکومت کے آتے ہی لوگوں کو گئو کشی کے نام پر مار ڈالنے کا کام شروع کر دیا گیا، تحفظ گاؤ کا قانون بنا کر قاتلوں اور بدمعاشوں کو پوری اجازت دے دی گئی کہ وہ جو چاہیں کریں۔ حکمراں پارٹی کے لیڈروں کو اجازت ہے کہ عوام کو مشتعل کرنے کے لیے جس طرح کے بھاشن دینا چاہیں دیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4-10 اکتوبر، 2020