خبر و نظر: آزادی کے بعد

پرواز رحمانی

 

آزادی کے بعد جب ملک میں نیا دستور نافذ ہوا اور ڈاکٹر راجندر پرساد ملک کے پہلے صدر بنے تو ایک دفعہ وہ کسی سرکاری کام سے اندرونِ ملک موٹر گاڑیوں سے کہیں جارہے تھے۔ راہ میں کوئی مندر یا مذہبی مقام آیا۔ وہ چند منٹ کے لیے وہاں رکنا چاہتے تھے لیکن سیکورٹی افسر نے ایسا کرنے سے انہیں روک دیا ’’سر آپ اسٹیٹ کے ہیڈ ہیں اور سرکاری کام سے نکلے ہیں، اپنی مذہبی شناخت ظاہر نہیں کرسکتے۔‘‘ ایک دوسرے صدر سی وی رمن کے ساتھ بھی ایک مرتبہ یہی ہوا تھا، سیکورٹی افسر نے انہیں ہاتھ سے روک دیا۔ تیسرے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین دورانِ سفر کسی مسجد یا تاریخی مقام کا معائنہ کرنا چاہتے تھے لیکن سرکاری افسروں نے انہیں پروٹوکول کا حوالہ دے کر روک دیا۔ پہلے سرکاری عمارتوں کا بھومی پوجن نہیں ہوتا تھا۔ سرکاری پروگراموں میں پوجا پاٹ نہیں ہوتی تھی بلکہ ایسے نجی پروگراموں میں سرکاری ذمہ داران شریک بھی نہیں ہوتے تھے لیکن یہ اس وقت کی باتیں ہیں جب مملکت میں دستور نافذ تھا اور اس کی پابندی بھی کی جاتی تھی۔ اب کیا ہے؟ اب دستور موجود ہے مگر اس طرح کی باتوں میں کوئی اس کی پروا نہیں کرتا۔ ۵؍اگست کو اجودھیا میں جو کچھ ہوا اسے دیکھ کر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان لوگوں نے اُسی دستور کا حلف اٹھایا ہے؟
ّٓخلاف ورزی کا عمل
دراصل ملکی دستور کی اِس خلاف ورزی کا عمل شروع ہوا تھا ۱۹۸۰ء سے جب اندرا گاندھی دوبارہ برسر اقتدار آئیں۔ اس بار وہ آر ایس ایس سے باقاعدہ معاہدہ کرکے آئی تھیں۔ جنتا پارٹی کی حکومت گرنے کے بعد جو الیکشن ہوئے تھے ان میں آر ایس ایس اور شیو سینا نے اندرا گاندھی کی باضابطہ حمایت کی تھی۔ اب وہ کانگریس کے کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔ اس بار بھی کانگریس کے کئی بڑے لیڈروں اور چیف منسٹروں نے اجودھیا میں بھومی پوجن کی حمایت کی ہے۔ مدھیہ پردیش میں کانگریس کے لیڈر کمل ناتھ نے اپنے مکان پر ہنومان چالیسا کرایا۔ چھتیس گڑھ کے کانگریسی وزیر اعلیٰ شری رام کی ماتا جی جانکی کا مندر بنا رہے ہیں۔ پرینکا گاندھی نے ۵؍اگست کی بھومی پوجا کی زور دار حمایت کی ہے۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ کانگریس کے کئی بڑے لیڈروں نے بیان مسترد کر دیا۔ کیرالا کے کمیونسٹ وزیر اعلیٰ وجین نے سچ کہا ہے کہ اگر کانگریس سیکولرزم کو اس کے صحیح رخ پر لے جاتی تو آج ملک کی یہ حالت نہ ہوتی ….اس ملک میں سیکولرزم کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کا کوئی دھرم نہیں ہوگا۔ وہ کسی دھرم کی نہ تو حمایت کرے گی نہ مخالفت کرے گی۔ یہ دھرم پردھان دیش ہے۔ یہاں بہت سے دھرم اور مذاہب ہیں۔ ہر کسی کو اپنے اپنے مذہب پر چلنے کی پوری آزادی ہے۔
دستور ہے مگر نہیں ہے
لیکن آر ایس ایس نے ملک کی اِس حیثیت اور اس کے دستور کو عملی اعتبار سے بے کار بنا کر رکھ دیا ہے۔ کورونا وائرس کے دور میں بھی وہ اپنے ایجنڈے سے غافل نہیں ہے۔پہلے تو اس نے ایک دین اور اس کے پیروکاروں کو اس ملک اور یہاں کے باشندوں کا دشمن قرار دیا۔ پھر اس فرضی دشمن کے خلاف پاٹھ شالاؤں سے کالجوں تک کے ذریعے عوام کو اس قدر ورغلایا کہ ۵؍اگست کا میدان تیار ہوگیا۔ اس سنگٹھن کو شخصیات بنانا اور حسب ضرورت انہیں بگاڑنا خوب آتا ہے۔ گجرات میں ایک طبقے کا جینو سائڈ سنگھ کو اس قدر پسند آیا کہ اس نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ کو ملک کے سیاہ و سفید کا اختیار دے دیا۔ وزیر اعظم خود بھی خود پسند ہیں اور اپنے آگے کسی کو قابل نہیں گردانتے۔ نوٹ بندی کے اعلان کے لیے ریزرو بینک کے گورنر یا وزیر مالیات کی شخصیت موزوں ہوسکتی تھی لیکن وزیر اعظم نے شہرت کے لیے یہ کام خود کیا۔۵؍اگست کے سنگِ بنیاد کے لیے لال کرشن آڈوانی موزوں تھے کیونکہ یہ شور شرابہ اور ہنگامہ انہی کا کھڑا کیا ہوا تھا لیکن اسے بھی وزیر اعظم نے اپنی سیاست کے لیے استعمال کیا۔۔۔اب ہندتوا کا یہ ایجنڈا کس کے ذریعے کہاں تک پہنچے گا بس قیاس ہی کیا جاسکتا ہے۔ رام مندر سراسر ایک سیاسی کھیل ہے جس میں ہندو کہے جانے والے عوام کو بری طرح جکڑ لیا گیا ہے۔ ۵؍اگست کو لوگ نئے نئے نام دے رہے ہیں ،’’نئے بھارت کی بنیاد، نئے انڈین کلچر کی بنیاد، ہندو راشٹر کی بنیاد‘‘ وغیر وغیرہ۔

آر ایس ایس نے ملک کی اِس حیثیت اور اس کے دستور کو عملی اعتبار سے بے کار بنا کر رکھ دیا ہے۔ کورونا وائرس کے دور میں بھی وہ اپنے ایجنڈے سے غافل نہیں ہے۔پہلے تو اس نے ایک دین اور اس کے پیروکاروں کو اس ملک اور یہاں کے باشندوں کا دشمن قرار دیا۔ پھر اس فرضی دشمن کے خلاف پاٹھ شالاؤں سے کالجوں تک کے ذریعے عوام کو اس قدر ورغلایا کہ ۵؍اگست کا میدان تیار ہوگیا۔