پرواز رحمانی
دہلی فسادات کی ذمہ داری
ماہِ مارچ میں کورونا وائرس کے آ جانے سے دہلی پولیس اور کچھ دوسرے شہروں کی پولیس کو یہ اطمینان تو ہوا کہ این آر سی اور سی اے اے کے خلاف جو احتجاج ہو رہا تھا وہ فی الحال بند ہوگیا ہے۔ احتجاجیوں نے وبائی آفت کو دیکھتے ہوئے اپنے پروگرام پر اصرار نہیں کیا ورنہ یہ احتجاج دن بدن بڑھتا اور پھیلتا ہی جا رہا تھا۔ لیکن اس کے بارے میں کم ازکم دہلی پولیس نے مستقبل کی حکمت عملی تیار کر رکھی تھی کہ یہ احتجاج آئندہ پھر کبھی نہ ہو اس لیے احتجاجیوں کو مجرم اور سازشی قرار دے دیا جائے۔ اس بات کا اندازہ اُس چارج شیٹ سے ہوتا ہے جو دہلی پولیس نے ۲؍ جون کو داخل کی ہے۔ اس میں شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے فسادات کی ساری ذمہ داری احتجاجیوں اور ان کے حامیوں پر ڈال دی گئی ہے اور جن لوگوں نے احتجاجیوں کو سر عام گالیاں دیں، فسادات بھڑکائے، گولیاں چلوائیں انہیں کچھ بھی نہیں کہا۔ اگر کہا تو صرف یہ کہ (دوسری کمیونٹی) کے جو لوگ دھرنوں اور بیٹھکوں کے خلاف آگے آئے وہ ان کا اپنا رد عمل تھا وہ دھرنوں اور راستے روکے جانے سے تنگ آ گئے تھے۔ چارج شیٹ میں یہاں تک کہا گہا ہے کہ نئے قوانین کے خلاف احتجاجیوں کا مقصد صرف احتجاج کرنا نہیں تھا بلکہ ’’دوسرے سمودائے‘‘ کو للکارنا اور دنگے کرانا تھا۔ چارج شیٹ میں یہ اعتراف تو کیا گیا ہے کہ ۲۳؍ فروری کو بی جے پی کے کپل مشرا نے سی اے اے کے حق میں ایک جلوس نکالا تھا اس کے بعد ہی دنگے بھڑکے تھے۔
روایتی طریقوں کے مطابق
گویا دہلی پولیس اپنے روایتی طریقوں سے بے خبر نہیں تھی۔ لاک ڈاؤن کی شدت کے دوران بھی اس نے ایک مخصوص کمیونٹی کے نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ جاری رکھی۔ انڈین ایکسپریس کے جس شمارے (۳؍جون) میں چارج شیٹ کی خبریں شائع ہوئی ہیں اس میں اس سلسلے کی کچھ اور خبریں بھی چھپی ہیں جن میں طرح طرح کے گھناؤنے انکشافات کیے گئے ہیں۔ دہلی پولیس کو آقا بھی اسی ذہن کے ملے ہیں جن کی جانب سے اس کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ دہلی اسٹیٹ میں گورنمنٹ کسی اور پارٹی کی ہے۔ اس کا بھی معاملہ یہ ہے کہ جب اس کے سامنے مرکز نظام الدین کا معاملہ آتا ہے تو وزیر اعلیٰ کہتا ہے کہ ان لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہونی چاہیے اور جب اسے نارتھ ایسٹ دہلی کے فسادیوں اور ان کی جانب سے بکے گئے مغلظات کے بارے میں بتایا جاتا ہے تو کہہ دیتا ہے دہلی پولیس اس کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ یعنی دہلی پولیس پوری طرح آزاد ہے کہ جس فرد یا کمیونٹی کے خلاف جو کیس چاہے بنائے اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ دہلی پولیس کی پوری چارج شیٹ بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ اس میں کچھ حقائق بھی ہو سکتے ہیں لیکن پولیس کو اس کا نمک مرچ علیحدہ کرکے واقعات کو من وعن پیش کرنا چاہیے اُسی صورت میں اس کا اعتبار قائم ہوگا۔
کوتوال کو ڈانٹنے والے چور
ملک میں نفرت اور فرقہ واریت کا سلسلہ تو تقسیم ہند کے فوراً بعد ہی شروع ہوگیا تھا جب ان لوگوں نے، جنہوں نے تقسیم کا پورا پلان بنا لیا تھا ان شہریوں کو ہی تقسیم کا ذمہ دار گرداننا شروع کر دیا جو پوری خوشی وآمادگی کے ساتھ اِس ملک میں رہنے کے لیے تیار ہو گئے تھے۔ فسادات پہلے بھی ہوتے تھے لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ان کے اثرات ختم ہو جاتے تھے۔ مگر اب جو فسادات کی تیکنیک اختیار کی گئی ہے اس کے اثرات کو دیر پا بنایا جا رہا ہے۔ یہ دنگے اور فسادات اس مخصوص ایجنڈے کا حصہ ہیں جو تقسیم ہند کا منصوبہ بنانے والوں نے ملک کی سب سے بڑی مذہبی کمیونٹی کے خلاف تیار کیا ہے۔ اس لیے ملک کے سبھی دور اندیش اور شریف شہریوں کو اس طویل المدت منصوبے کی کاٹ کے لیے تیار ہو کر آگے آنا ہوگا۔ این آر سی، سی اے اے اور اس مخصوص ایجنڈے کے دوسرے اقدامات کے خلاف ۲۰۱۹ء کے عام انتخابات سے قبل جو دانشور اور سیاسی لیڈر اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور کلکتے میں ممتا بنرجی کی دعوت پر ایک بہت بڑا اور غیر معمولی جلسہ کیا تھا انہیں خاص طور سے دوبارہ سرگرم ہونا ہوگا۔ مسلمان چوں کہ اس ایجنڈے کے خاص ہدف ہیں اس لیے قدرتاً وہ ان دانشوروں کے ساتھ ہوں گے۔ مسلم قیادت کو اب اپنی حکمت عملی اور طریق کار کو بدلنا ہوگا۔
یہ دنگے اور فسادات اس مخصوص ایجنڈے کا حصہ ہیں جو تقسیم ہند کا منصوبہ بنانے والوں نے ملک کی سب سے بڑی مذہبی کمیونٹی کے خلاف تیار کیا ہے۔ اس لیے ملک کے سبھی دور اندیش اور شریف شہریوں کو اس طویل المدت منصوبے کی کاٹ کے لیے تیار ہو کر آگے آنا ہوگا۔