پرواز رحمانی
بھارت کرونا وائرس کی زد میں ایسے وقت آیا جب یہاں حکومت کئی مسائل میں گھری ہوئی تھی۔ سب سے بڑا مسئلہ معاشی سدھار کا تھا۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور اسی قسم کے دیگر اقدامات کر کے حکومت نے اپنے لیے خود ہی مشکلات پیدا کرلی تھیں۔ پونجی پتیوں کی لاکھوں کروڑوں کی سیاہ دولت جسے وہ لوٹ کر رفو چکر ہو گئے تھے حکومت نے بھارت واپس لا کر شہریوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس پر عمل تو دور، آج اس کا کوئی نام بھی نہیں لیتا۔ حکم راں پارٹی نے دو کروڑ نوجوانوں کو نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا مگر ان کو نوکریاں تو کیا ملتیں الٹا جو پہلے سے نوکریوں پر تھے ان میں سے بہت سوں کی چھین لی گئیں۔ حکومت کی حالتِ زار ہی ایسی تھی۔ ۲۰۱۴ء کے انتخابات کی مہم کے دوران بی جے پی نے انکم ٹیکس ختم کرنے، رسوئی گیسں دو سو روپے میں دینے، بجلی کم قیمت پر فراہم کرنے جیسے بڑے وعدے کیے تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی وعدہ وفا نہیں کیا۔ ادھر آر ایس ایس اور بی جے پی کے کچھ پرانے لوگوں کو اپنے دیرینہ ہندتوا پر عمل کی بھی جلدی تھی چنانچہ ان لوگوں نے اِن دگر گوں حالات کی پروا کیے بغیر گائے کے نام پر لوگوں کو مارنا شروع کر دیا اور حکومت دیکھتی رہی۔حکومت کی خاموش تائید سے حوصلہ پا کر کر اس کے کارندوں نے جگہ جگہ مآب لنچنگ بھی شروع کر دی۔
پیکیج کی حقیقت
عین اِن حالات میں چین سے کرونا وائرس آیا۔ عادت کے مطابق حکومت نے پہلے تو یہ دیکھا کہ اس سے سیاسی فائدہ کیسے اٹھایا جا سکتا ہے۔ کوئی بڑا اور ہنگامی فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ملا لیکن چھوٹے چھوٹے سیاسی فائدے کئی ایک اٹھائے۔ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف اٹھنے والے غیر معمولی ایجی ٹیشن کی گردن دبا دی، کرونا وائرس پر احتیاطی تدابیر کے سلسلے میں عوام کو اپنی مرضی کا پابند بنانے میں کامیابی حاصل کی لیکن وائرس کی تباہ کاری کم نہیں ہوئی۔ امیروں اور سرمایہ داروں کو چھوڑ کر شہریوں کے تمام طبقات بے حد پریشان ہیں۔ غریبوں، مزدوروں اور کسانوں کی حالت نہایت خستہ ہے۔ اب وزیر اعظم نے اپنے مخصوص لب ولہجے میں بیس لاکھ کروڑ روپیوں کے ایک ’’بڑے ‘‘ پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ لیکن ماہرین اسے بھی ایک فریب قرار دے رہے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے نزدیک یہ وہ رقم ہے جس میں سے آر بی آئی (ریزرو بینک آف انڈیا) ۹ کروڑ ستر ہزار لاکھ کروڑ روپے پہلے ہی حکومت کو دے چکا ہے اور حکومت خرچ بھی کر چکی ہے۔ کچھ لاکھ کروڑ روپے منریگا میں خرچ کیے گئے ہیں۔ اس لیے نئے پیکیج کی رقم مشکل سے چار پانچ لاکھ کروڑ روپے بنتی ہے۔ نئے پیکیج کی تفصیلات کا اعلان قانونی طور پر وزیر مالیات کریں گی جس پر سب کی نظر ہے۔
ایک معنی خیز اعلان
۱۲؍ مئی کی شام کے خطاب میں وزیر اعظم نے ایک اور معنی خیز اعلان کیا۔ کہا کہ کرونا وائرس اگر ختم بھی ہوجائے تو اس کی باقیات اور ان کے اثرات سے ہمیں ایک طویل عرصے تک لڑنا پڑے گا۔ گویا حکومت نے اس کے بعد کی اپنی سیاسی حکمتِ عملی پہلے ہی بنا رکھی ہے۔ عوام زبان نہیں کھول سکیں گے۔ واقعی بعض مبصرین بجا طور پر کہہ رہے ہیں کہ کرونا وائرس کے بعد ایک نئی دنیا وجود میں آئے یا نہ آئے لیکن نیا بھارت ضرور وجود میں آئے گا۔ قانون، دستور اور اخلاقی ضوابط کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہے گی۔ بات صرف بر سرِ اقتدار ٹولے کی چلے گی۔ دنیا میں بہت سے ممالک ہیں جو خود کو خوش حال اور ویلفیئر اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں لیکن ان کا ہدف پوری قوم ہے۔ وہ ملک کے تمام شہریوں کے لیے یکساں خوش حالی چاہتے ہیں لیکن یہاں کے حکم راں طبقے اور اس کے طرزِ عمل سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صرف ایک مخصوص طبقے کی خوش حالی چاہتے ہیں اور باقی آبادیوں کو اس طبقے کی خدمت پر مامور کرنا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ ارتھ شاستر، منوسمرتی اور دیگر قدیم کتب میں نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اب باقی طبقات اور مذہبی اکائیوں کو بھی اپنی اپنی آئندہ حکمتِ عملی بنا لینی چاہیے۔
حکومت نے اس کے بعد کی اپنی سیاسی حکمتِ عملی پہلے ہی بنا رکھی ہے۔ عوام زبان نہیں کھول سکیں گے۔ واقعی بعض مبصرین بجا طور پر کہہ رہے ہیں کہ کرونا وائرس کے بعد ایک نئی دنیا وجود میں آئے یا نہ آئے لیکن نیا بھارت ضرور وجود میں آئے گا۔