خبر و نظر
پرواز رحمانی
دہلی کا سیاسی نقشہ
دہلی میں اروند کیجریوال نے تیسری بار ریاستی سرکار کا کام کاج سنبھال لیا۔ ان کی پہلی معیاد تو بہت مختصر تھی البتہ دوسری بار ۲۰۱۵؍ میں انہوں نے اور اُن کے ساتھیوں نے پوری قوت سے انتخاب میں حصہ لیا۔ مرکز میں ان کے مقابلے پر بی جے پی کی سرکار تھی۔ اس نے بہت جتن کیے تھے کہ یہ اقتدار میں نہ آنے پائیں۔ کانگریس کو دوچار گالیاں دے کر تین چار الزامات لگا کر دبا دیا جا سکتا تھا لیکن کیجریوال کو روکنا مشکل تھا، اس لیے کہ وہ عوام کے روز مرہ کے بہت اہم مسائل لے کر اٹھے تھے۔ جب کہ بی جے پی صرف نیشنل ایشوز پر بات کرتی ہے۔ ادھر مہاراشٹر میں انا ہزارے کا مقصد بھی وہی تھا جو دہلی میں کیجریوال کا تھا۔ طے پایا کہ انا ہزارے دہلی آکر اپنی تحریک چلائیں گے۔ ان کے آنے سے دہلی کی سیاست ایک دم گرم ہوگئی تھی۔ بی جے پی اور کانگریس ان سے خوف زدہ تھیں۔ لیکن بی جے پی نے انا ہزارے سے براہ راست لڑائی نہیں مول لی۔ وہ ان کی تحریک کا رخ مسلسل کانگریس کی طرف موڑتی رہی۔ ادھر کانگریس نے بھی انا ہزارے کے مقابلے پر بابا رام دیو کو کھڑا کرنا چاہا لیکن بی جے پی نے ناکام بنا دیا۔ انا ہزارے اور کیجریوال کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ ان کی مہم کسی سیاسی پارٹی سے کوئی سابقہ نہیں رکھے گی۔ خاص طور سے کانگریس اور بی جے پی دونوں سے مساوی دوری بنا کر رکھے گی۔
عام آدمی پارٹی قابل ذکر اکثریت سے جیتی۔
گزشتہ پانچ سالوں کا تجربہ
گزشتہ پانچ سالوں کے دوران کیجریوال اور ان کے ساتھیوں کو یہ تجربہ ہوا کہ مرکزی حکومت سے ٹکرانا مناسب نہیں۔ ویسے بھی مرکزی حکومت کا ایجنڈا ملک گیر مسائل پر ہے جب کہ عام آدمی پارٹی سرکاری محکموں میں کرپشن اور عام شہریوں کی مشکلات کے خلاف میدان میں اتری ہے۔ انا ہزارے مہاراشٹر کے سیدھے سادے آدمی تھے۔ چالاک بی جے پی ان پر برابر ڈورے ڈالتی رہی۔ اس نے کجریوال کے کچھ آدمیوں کو بھی توڑ لیا۔ ۲۰۱۵؍ کے الیکشن میں کرن بیدی کو وزیر اعلیٰ کے امیدوار کے طور پر اتارنے کی بات بنی۔اس کے بعد کیجریوال نے اپنے ایجنڈے کے مطابق تشہیر کا کام شروع کر دیا، بی جے پی کے الزامات اور گالم گلوج کا نوٹس نہیں لیا۔ حالانکہ بی جے پی انہیں برابر بُرا بھلا کہتی رہی انہیں غداروں اور ملک دشمن لوگوں کا ایجنٹ بتایا۔ دہشت گرد بھی کہا لیکن کیجراول نے کوئی اثر نہیں لیا۔ اور وجہ اس کی یہ تھی کہ کیجریوال نے اپنی نئی معیاد کے لیے بی جے پی کی مرکزی حکومت کے ساتھ تال میل بٹھانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ چنانچہ ۱۶؍ فروری کو دہلی کے رام لیلا میدان میں صاف کہہ دیا کہ وہ روز مرہ کے مسائل میں مرکزی حکومت سے نہیں ٹکرائیں گے بلکہ وزیر اعظم کا آشیرواد لے کر مرکزی حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ بی جے پی بھی یہی چاہتی تھی کہ وہ اپنے نیشنل ایجنڈے کے مطابق کام کریں جبکہ کیجریوال کو بھی اس کے نیشنل ایجنڈے سے کوئی پریشانی نہیں تھی۔
زیادہ احتیاط کی ضرورت
اگر چہ انا ہزارے اور کیجریوال کی دوری اسی بات پر ہوگئی تھی کہ انا ہزارے بی جے پی کی طرف جھکاؤ رکھتے تھے جب کہ کیجریوال دونوں پارٹیوں سے مساوی دوری چاہتے تھے۔ انا ہزارے عام آدمی پارٹی کے الیکشن میں حصہ لینے کے بھی خلاف تھے۔ لیکن کیجریوال نے حصہ لیا اور اپنے پروگرام کے مطابق لیا۔ انہوں نے بی جے پی کے ایجنڈے پر کچھ نہیں کہا۔ انہیں سی اے اے، این آر سی اور این پی آر اور بی جے پی کے ہندتوا سے بھی براہ راست دلچسپی نہیں تھی۔تاہم انہوں نے بی جے پی کو خوش رکھنے کے کام کیے۔ مندروں میں جا کر پوجا کرنا، بھارت ماتا کی جئے اور وندے ماترم کے نعرے لگانا یہ سب بی جے پی کے ہندتوا کے کام تھے جو انہوں نے کیے۔ سی اے اے اور این آر سی پر کبھی کچھ کھل کر نہیں بولے۔ مسلمانوں کو درپیش مسائل پر بھی کوئی خاص بات نہیں کی۔ الا یہ کہ عام آدمی پارٹی کے مسلم امیدواروں نے کبھی کچھ کہہ دیا ہو۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیاست میں حوصلے بڑھ جانے کے بعد اگر کیجریوال نیشنل پالیٹکس میں حصہ لینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو وہ بی جے پی کی طرف ہی دیکھیں گے۔ اس لیے دہلی کے حالات مذہبی اقلیتوں، دلتوں اور او بی سی طبقوں کے لیے کچھ بھی نہیں بدلے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ اگر بی جے پی دہلی میں براہ راست آجاتی تو بہت کچھ دھما چوکڑی مچاتی اور اس کے بد زبان لیڈروں کی زبان کہیں جا کر نہ رکتی۔
**