خبر ونظر

پرواز رحمانی

جارحانہ اکثریت پرستی کا جواب
جارحانہ مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سکریٹری سیتا رام یچوری نے کہا ہے کہ جارحانہ اقلیت پرستی جارحانہ اکثریت پرستی کا جواب نہیں ہوسکتی۔ اس کا صحیح جواب سیکولر ڈیمو کریٹک موومنٹ ہے۔ کیرالا کے شہر کوچی میں ۲ مارچ کو پارٹی کی ریاستی کانفرنس میں بولتے ہوئے انہوں نے کہا ’’اب اقلیتی لیڈر اس بات کو سمجھ رہے ہیں اور سی پی ایم کی طرف سے شروع کی گئی تحریک میں شامل ہورہے ہیں۔ سی پی ایم سیکولر ڈیمو کریٹک تحریک پر زور دے رہی ہے۔ مسلمانوں کے علاوہ وہ دلت طبقات، آدی واسیوں اور عورتوں کے گروپوں کو ساتھ لینے کے لیے بھی کوشاں ہے‘‘۔ یچوری کی یہ بات درست ہے کہ اقلیتوں کو اپنے طور پر اکثریتی فرقہ پرستوں کا مقابلہ نہیں کرنا چاہیے، یہ مسئلے کا حل نہیں ہے اس سے مسائل بڑھیں گے۔ ویسے مسٹر یچوری کو معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمانوں نے اکثریت کی جارحیت کا جواب جارحیت کے انداز میں دینے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ ہمیشہ پرامن رہے، الا یہ کہ کبھی کھلی اشتعال انگیزی ہوئی ہو یا مسلمانوں کو للکارا گیا ہو۔ آزادی کے بعد ایک دور تھا جب مسلمانوں کو عام سماج سے الگ تھلگ رہنے کا الزام دیا جاتا تھا۔ حالانکہ معاملہ اس کے برعکس تھا۔ مسلمانوں کے ساتھ اچھوتوں جیسا سلوک کیا جاتا تھا اور کرنے والے وہی لوگ تھے جو مسلمانوں کو علیحدگی پسندی کا الزام دیتے تھے۔

انتخابی مہم کے دوران
یو پی اور دیگر چار ریاستوں کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی یعنی آر ایس ایس نے مسلم شہریوں کو معطون کرنے کا باقاعدہ منصوبہ اول روز سے شروع کر رکھا تھا۔ ۲۰۱۴ میں نئی حکومت کے بنتے ہی گائے کے نام پر پرتشدد ہجومیوں کے ہاتھوں بے قصور افراد کے قتل کا سلسلہ پہلے ہی شروع ہوگیا تھا۔ اس کے ساتھ دوسرے فتنے پیدا کیے گئے۔ درست ہے کہ یہ کام اور اس سے متعلق بیان بازی وزیراعظم نے خود نہیں کی تاہم جو کچھ ہوتا رہا ، وزیراعظم کے علم میں بلکہ ان کی نظر کے سامنے تھا ۔کہا جا سکتا ہے کہ شر پسندوں کی ان سرگرمیوں کو وزیراعظم کی تائید حاصل تھی یہ کام نچلے درجے کے لیڈر اور کارکن کیا کرتے تھے۔ درمیان میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سنگھ کے لیڈر موہن بھاگوت نے نئی دلی وگیان بھون میں لگاتار تین دنوں تک بھاشن دیا ، بہت اچھی باتیں کیں۔ مسلم شہریوں کو ملکی سماج میں ساتھ رکھنے کی بات بھی کہی، جس سے محسوس کیا گیا کہ سنگھ یعنی حکومت اب اپنی پالیسیوں کو معقول بنانا چاہتی ہے۔ لیکن اس کے چند ہی روز بعد بھاگوت نے اپنے ایک بیان سے اس تاثر کو یہ کہہ کر یکسر ختم کر دیا کہ ’’حکومت کو اب اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے پارلیمنٹ میں بل پیش کردینا چاہیے‘‘۔ بس اسی کے ساتھ سنگھ ، بی جے پی اور ان سے وابستہ تنظیموں اور گروپوں نے رام مندر کی باتیں شروع کر دیں۔ عدالت عظمیٰ بھی حرکت میں آگئی۔

مسلمان کیا کریں
پانچ ریاستوں کے ان انتخابات میں بھی رام مندر کا بہت شور رہا ۔ مندر کے علاوہ کچھ نہایت سنگین اور شر انگیز نعرے ان انتخابات میں بلند کیے گئے۔ کچھ شر پسندوں نے دو تین ریاستوں میں دھرم سنسدوں کے نام پر بھیڑ جمع کر کے مسلمانوں کو مغلظات بکیں۔ کسی نے کہا مسلمانوں سے حق رائے دہی چھین لینا چاہیے۔ کسی نے کہا مسلمانوں کی ڈاڑھیاں کاٹ کر چوٹی کی جگہ لگا دینی چاہیے جنہیں یہ منظور نہ ہو، وہ پاکستان چلے جائیں، پاکستان اور جناح کی باتیں انتخابی مہم میں خوب ہوئیں۔ قبرستانوں اور شمشانوں کا ذکر بھی آیا۔ اشتعال انگیز اور شر پسندانہ ویڈیوز کی بھر مار رہی۔ سیتا رام یچوری نے بھی دیکھا ہوگا کہ مسلمانوں کے کسی حلقے نے کہیں بھی کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ کوئی جوابی اشتعال انگیزی نہیں کی سوائے اس کہ کہ مذمتی بیانات دیے اور ارباب اختیارات کو توجہ دلائی۔ اب مارکسی لیڈر بتائیں کہ اس صورت میں مسلم شہریوں کو کیا کرنا چاہیے۔ سیکولرازم اور ڈیمو کریسی کی جو بات انہوں نے کہی ہے وہ ایک لگاتار اور مستقل عمل ہے۔ اسے یچوری کی مطلوبہ شکل میں قائم ہونے میں طویل عرصہ درکار ہو گا۔ اس کے پیش خیمے کے طور پر یچوری کو سبھی حلقوں کے سرکردہ افراد اور ہوش مند شہریوں کو یکجا کر کے صورت حال پر مذاکرات کرنے ہوں گے مگر پہلے یچوری یہ بتائیں کہ موجودہ حالات میں مسلمان کیا کریں؟

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  13 تا 19 مارچ  2022