خبر ونظر
پرواز رحمانی
حجاب دلی تک
شمال مشرقی دلی کے ایک سرکاری اسکول میں چھٹی کلاس کی ایک طالبہ سے اس کی کالج ٹیچر نے ہیڈ اسکارف (حجاب) اتار کر کلاس میں بیٹھنے کو کہا طالبہ کے والد نے اس کی شکایت علاقے کے ایم ایل اے سے کی۔ اس کا کیا نتیجہ نکلا یہ تو نہیں معلوم ہوسکا البتہ اسی دوران جنوبی دلی کی میونسپل کارپوریشن کی ایک خاتون کونسلر نے محکمہ تعلیم کے تمام افسروں کے نام ایک خط لکھ کر ’’آرڈر ‘‘ جاری کیا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی بھی طالب علم یا طالبہ اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ اسکول میں داخل نہ ہو۔ خط میں خاتون نے دلائل بڑے دلچسپ دیے ہیں۔ مثلاً اس سے طلبہ میں مذہبی تفرقہ اور دوریاں پیدا ہوں گی ۔ سکھ طلبہ کی ٹربن یا پگڑی کے بارے میں کہا کہ اس کا معاملہ مختلف ہے ۔ پگڑی صرف بال جمانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ ادھر دلی کے نائب وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ’’ہمارے اسکولوں میں کوئی امتیاز نہیں ہے ۔ طلبا اور طالبات اپنی پسند کی پوشاک پہننے کے لیے آزاد ہیں۔ دلی انتظامیہ کےبیشتر شعبوں میں دو حکومتیں ہیں۔ اب تینوں میونسپل کارپوریشنوں پر بی جے پی کے قبضے کے بعد اسکولوں تک یہ دائرہ پھیل گیا ہے۔ مرکزی حکومت کا اقتدار دو گجراتی لیڈروں کے ہاتھوں میں ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ اپنے نچلی سطح کے لیڈروں اور کارکنوں کے بیانات اور ان کی سرگرمیوں کا کوئی نوٹس نہیں لیتے جس پر کہا جاتا ہے کہ یہ بیانات اور سرگرمیاں ان ہی کے اشاروں پر ہوتی ہیں یا انہیں ان کی تائید حاصل ہوتی ہے۔
اور یہ دھمکیاں
کرناٹک میں حجاب کے مسئلے پر بی جے پی کے ریاستی لیڈروں اور سرکاری حکام نے ایک سے ایک بیہودہ بیانات دیے۔ اڈپی میں ایک مسلم کی ہوٹل کو شرپسندوں نے لوٹ لیا ور مالکوں کے ساتھ مارپیٹ کی۔ یہ اس لیے کہ ریسٹورنٹ کے مالک کی بیٹی ان چھ طالبات میں شامل ہے جنہوں نے اڈپی میں حجاب مخالف سرگرمیوں کے خلاف شکایت کی ہے۔ مگرمرکزی لیڈروں نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ اترپردیش میں آج کل ریاستی اسمبلی انتخابات کا بہت شور ہے۔ ریاستی وزیر اعلیٰ اور بی جے پی دوسرے لیڈر مخالفین کو کھلے عام دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ایک لیڈر نے بیان دیا کہ ہم نے انتخابات کے بعد مخالفین کو سبق سکھانے کے لیے ہزاروں بلڈوزر منگوالیے ہیں۔ ایک خاتون ایم ایل اے ان گاوں والوں پر شدید برہم ہیں جنہوں نے سرکار کا دیا ہوا اناج کھالیا ، شکر کھالی، نمک کھالیا مگر مجھے ووٹ دینے کو تیار نہیں نمسکار تک قبول نہیں کرتے‘‘ ووٹروں اور مخالف لیڈروں کو دھمکیاں تو اور بھی بہت ساری د ی جارہی ہیں لیکن پارٹی کی حکومت اور لیڈر شپ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ خود یوپی جا جاکر ووٹروں کو لبھارہے ہیں۔ ان کے پیڈ میڈیا نے یو پی پر یلغار بول رکھی ہے ان کا مقابلہ صرف سوشل میڈیا کا ایک حصہ کررہا ہے لیکن اس نے بھی عوام میں ایسی ہوا بنائی ہے کہ بی جے پی کی حکومت اور لیڈروں کے ہوش گم ہوگئے ۔ا نہیں 2024کی فکر دامن گیر ہے۔
کیا اپوزیشن کا بھی کوئی منصوبہ ہے
سنجیدہ مبصرین کا خیال ہے کہ یو پی میں اگر بی جے پی جیت گئی تو جشن فتح کے نام پر اشتعال انگیزی کرے گی اور فسادات کرائے گی لیکن اگر ہار گئی تو بھی بڑے پیمانے پر فتنہ و فساد پیدا کرے گی۔ برسوں کی لگاتار محنت و مشقت سے ہاتھ آئے ہوئے اقتدار کو آسانی سے نہیں چھوڑے گی۔ اسی اقتدار کوبچانے کے لیے وہ گائے، شمشان، قبرستان، ایک مذہبی فرقے کی مبینہ اکثریت حجاب، لباس، بلڈوزر، جیسے مسائل کو زندہ رکھنا چاہتی ہے۔ اسی لیے اس کے مرکزی لیڈر اپنے چھوٹوں کی زبان درازیوں اور سرگرمیوں پرخاموش رہتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ملک کی اکثریت ان باتوں سے بیزار ہے۔ انہیں پسند نہیں کرتی لیکن کمی اس کے اندر یہ ہے کہ وہ خاموش رہتی ہے۔ یہی حال جوش و خروش کا بھی ہے۔ یو پی میں اکھلیش یادو کے عام جلسوں میںبھیڑ تو بڑے جوش و جذبے کے ساتھ جمع ہوجاتی ہے لیکن بی جے پی زمین پر کیا کیا انتخابی تیاریاںکررہی ہے ان سے وہ بے خبر ہے۔ اپوزیشن لیڈر بھی لا تعلق ہیں۔ یو پی میں دوسال بعد لوک سبھا کے الیکشن ہونے والے ہیں۔ بی جے پی لیڈر توا بھی سے تیاری کررہے ہیں لیکن اپوزیشن لیڈروں کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ آزادی کے بعد یہ سب سے بڑا اور سنگین بحران ہے۔ یہ بحرانی کیفیت ابھی رہے گی اگر دور اندیش لیڈروں اور دانشوروں نے اس پر خاطر خواہ توجہ نہ دی۔ مسلم رہنماوں کو بھی سر جوڑ کو بیٹھنا چاہیے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 6 تا 12 مارچ 2022