خبرو نظر

پرواز رحمانی

اس صدارتی الیکشن میں
اس بار صدر جمہوریہ کا الیکشن کئی پہلووں سے غیر معمولی رہا حکمراں پارٹی نے اپنی اکثریت کے زعم میں اڑیسہ کی ایک قبائلی خاتون کو میدان میں اتارا۔ مقصد یہ کریڈٹ لینا تھا کہ (۱)پارٹی خواتین پر بہت مہربان ہے (۲) نچلے طبقے کو اونچا اٹھانا چاہتی ہے (۳) پست علاقوں کی ترقی چاہتی ہے (۴) آدی باسی آبادی کو ترقی یافتہ آبادی بنانا چاہتی ہے وغیرہ اور لوگ اس داو سے متاثر بھی ہوئے۔ بہوجن سماج پارٹی کی لیڈر مایاوتی نے خاتون امید وار کی تائید کا اعلان کردیا۔ پارٹی ویسے بھی حکمراں پارٹی کی تائید کرتی خواہ امیدوار کوئی بھی ہوتا۔ بنگال کی ممتا بنرجی نے ابتدا میں اپوزیشن کے امیدوار یشونت سنہا کی پر زور تائید کی لیکن حکمراں پارٹی کی طرف سے دورپدی مرمو کا نام سن کر وہ ڈھیلی پڑگئیں اور کہا کہ اگر بی جے پی پہلے ہی ہم سے مشورہ کرلیتی تو ہم اسی امیدوار کی تائید کرتے۔ کئی بڑی چھوٹی اپوزیشن پارٹیوں کے لوک سبھا، راجیہ سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے ممبروں نے علانیہ پینترے بدل دیے۔ حکمراں امیدوار کی جیت یقینی ہوگئی۔ یشونت سنہا کے معقول دلائل اور بھاری بھرکم باتیں کسی کام نہ آئیں۔ کچھ اپوزیشن لیڈروں نے دو رخی کا مظاہرہ بھی کیا۔ کچھ نے صدارتی الیکشن میں دلچسپی ہی نہیں لی۔

مقابلہ کس لیے
اپوزیشن پارٹیوں نے پہلے یہ معقول فیصلہ کیا کہ ہر چند کہ اپوزیشن کی عددی پارلیمانی قوت کمزور ہے لیکن حکمراں پارٹی کے مقابلے میں صدارتی امیدوار ضرور کھڑا کرنا چاہیے عوام کو اپوزیشن کے ارادوں اور منصوبوں کا علم ہوسکے۔ دوسرا فیصلہ دو تین لیڈروں سے بات چیت کے بعد یشونت سنہا کو مقابلے پر لانے کا کیا جو اس منصب کے لیے موزوں ترین امیدوار تھے۔ اپنی انتخابی مہم میں مسٹر سنہا کا سارا زور اس امر پر رہا کہ ایک بار اپوزیشن کے صدر کو بھی دیکھ لینا چاہیے۔ ہمارے ملک میں پارلیمانی نظام حکومت میں صدر برائے نام ہوتا ہے۔ ۷۵سال سے یہی نظام چلا آرہا ہے۔ صدر عملاً وزیراعظم کے تابع ہوتا ہے۔ تمام فیصلے وزیراعظم کرتا ہے۔ کئی معقول اور با حمیت صدر بھی ہوئے لیکن وہ کچھ نہ کرسکے۔ ہاں کبھی اگر پارلیمنٹ میں وزیراعظم کی پوزیشن کمزورہو یا کمزور ہوجائے تو صدر اپنے اختیار سے وزیراعظم کو بدل سکتا ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ یشونت سنہا چاہتے تھے کہ روز مرہ کے امور میںبھی صدر کو اپنے ذہن اور اختیار کا استعمال کرنا چاہیے اور وہ یہی کرنا چاہتے تھے ۔

ملک میں یہ ممکن نہیں
لیکن اس ملک میں ایسا موقع آنے کی امید مستقبل قریب میں بہت کم ہے بلکہ ہر مضبوط حکمراں پارٹی کی کوشش ہوتی ہے کہ صدارتی طرز حکومت اسی کے دور میں رائج ہوجائے اور اس کا وزیراعظم صدر جمہوریہ بن جائے۔ اندرا گاندھی کے دور میں بھی ایک بار یہ تحریک ہوئی تھی۔ وسنت ساٹھے اس کے محرک تھے۔ لیکن موجودہ حکمراں پارٹی نے یہ کوشش آگے بڑھنے نہیں دی جہاں تک نچلی ذاتوں،دلتوں اور آدی باسیوں کو اونچا اٹھانے کی بات ہے، یہ بھی ایک فریب ہے۔ تمام مستحکم ادارے اور سیاسی اختیارات نام نہاد اعلیٰ ذات والوں نے اپنے ہاتھوں میں جکڑ رکھے ہیں۔ کسی کو مصلحتاً کوئی بڑا عہدہ دے بھی دیا جاتا ہے تو عملاً وہ کچھ نہیں کرسکتا۔ یہ عمل عوام بارہا دیکھ چکے ہیں۔ دلت لیڈر کانشی رام اس حقیقت کو سمجھتے تھے لیکن ان کی جانشین مایاوتی یہ چاہتی ہی نہیں۔ وہ صرف یو پی کی وزیر اعلیٰ بننا چاہتی ہیں اور اس کے لیے بی جے پی کے ساتھ ساٹھ گانٹھ رکھتی ہیں۔ گویا دلت لیڈروں کے اندر بھی وہ مطلوبہ کردار نہیں ہے۔ اگر یشونت سنہا کو موقع مل جاتا تو ان سے کچھ امیدکی جاسکتی تھی۔ دروپدی مرمو سے کوئی امید نہیں کہ وہ آدی باسیوں یا قبائل کے حق میں کوئی آواز اٹھانے کی جرات آر ایس ایس کے سامنے کرسکیں گی۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  31 جولائی تا 07 اگست 2022