خبرونظر
پرواز رحمانی
ارتداد
دین اسلام میں ارتداد بہت سنگین مسئلہ ہے۔ ایسا تو شاذ ونادر ہی ہوا ہے کہ کسی نے بہت غور وفکر کے بعد اس دین کو ترک کیا ہو ۔ ورنہ ہمیشہ ہی طمع ولالچ، دولت وشہرت اور نام ونمود وغیرہ ارتداد کا سبب بنتے ہیں۔ خاص طور سے برصغیر میں انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد کے ساتھ ہی یہ کام شروع کردیا تھا۔ نچلی سرکاری ملازمتوں میں بڑی تعداد میں انہیں بھرتی کیا۔ چھوٹے موٹے کاروباروں میں ان کی مدد کی۔ نچلی ذاتوں میں شادی بیاہ کے معاملات میں بھی دلچسپی لی جس کے نتیجہ میں مغربی بنگال اور نارتھ ایسٹ وغیرہ میں ان کی خاصی تعداد پائی جاتی ہے۔ اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ مسلمانوں میں یہ کام قادیانیوں کے وجود میں آنے کے بعد سے شروع ہوا۔ ان لوگوں نے اسلام کی بعض اصطلاحات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ تاہم اطمینان کی بات ہے کہ علمائے اسلام نے ان کی کامیاب مزاحمت کی۔ اب بعض کچھ اور دھارمک گروپوں نے بھی یہ کام شروع کیا ہے اور گزشتہ سال سے یہ کام مرکزی اور بعض ریاستی حکومتوں کی نگرانی میں ہورہا ہے۔ قادیانی گروپوں اور ان کے سرکردہ افراد کی اسی طرح سرپرستی کی جاتی ہے جس طرح برطانوی حکومت کرتی تھی۔ مختلف قسم کی سہولتیں اور آسانیاں قادیانی مبلغوں کو فراہم کی جاتی ہیں۔
یہ فتنہ زندہ ہے
یہی وجہ ہے کہ ہریانہ میں قادیانیت دوبارہ سر اٹھا رہی ہے۔ ہریانہ میں تقسیم ہند کے بعد سے سیکڑوں مسجدیں اور درگاہیں بے کار پڑی ہوئی ہیں۔ بہت سی مساجد پر قادیانیوں نے قبضہ کر رکھا ہے اور وہاں تعویذ ، گنڈوں اور اپنی دعاوں کے سہارے اپنا کاروبار چلارہے ہیں۔ بعض مساجد میں نماز بھی ہوتی ہے لیکن وہ نماز قادیانی عقائد اور طریقوں کے مطابق ہوتی ہے۔ملک کے دیگر حصوں میں بھی ارتداد اور بے دینی کو فروغ دینے کا کام کیا جارہا ہے۔ جن علاقوں میں مسلمان بے شعور وبے خبر ہیں وہاں ان کو کچھ نہ کچھ کامیابی مل جاتی ہے۔ قادیانیت کی مزاحمت کے لیے جماعت اسلامی ہند نے ہریانہ میں قابل قدر کام کیا ہے۔ مرتدین کے علاوہ وہ خاندان جنہیں جبراً ہندو بنالیا گیا تھا اور ان کے نام بدل دیے گئے تھے، ان میں سے زیادہ تر کی واپسی میں جماعت کے خادموں نے بہت محنت کی۔ لیکن وہاں اب بھی دین سے زبردستی پھیرے گئے خاندان کافی تعداد میں موجود ہیں۔ کچھ خاندان ایسے بھی ہیں جو خود کو مسلمان کہتے ہیں غیر مسلم بھی انہیں مسلمان ہی کہتے ہیں مثلاً فلاجاٹ وغیرہ لیکن وہ با عمل نہیں ہیں۔ باہر سے مسلمان جائیں تو ان سے احترام کے ساتھ ملتے ہیں۔
تعلیم پر زور دیں
ضلع سہارنپور کے مدرسہ خلیلہ کے عالم دین مولانا شاہ معین الدین نے اس صورتحال پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ارتداد کے پیچھے لادینیت اور غربت پائی جاتی ہے اور یہ چیزیں مرتد ہونے کے لیے کھاد پانی کا کام کرتی ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو اپنی معیشت بہتر بنانے اور غریب علاقوں سے غربت دور کرنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے‘۔ مولانا کی یہ بات بالکل درست ہے۔ عیسائی اور قادیانی مشنریاں بھی اپنے اہداف غریب علاقوں ہی میں مقرر کرتی ہیں۔ اس لیے غریب اور پسماندہ علاقوں میں روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں دین کا شعور پیدا کرنے اور دینی احکام پر عمل کی ترغیب دینی ضروری ہے۔ باخبر لوگ آج کی عالمی معیشت کی حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ کس طرح پوری انسانی آبادی کو صرف پیسہ کمانے کی مشینیں بنایا جارہا ہے۔ انسانوں کو صرف پیسہ کمانے کے لیے تیار کیا جارہا ہے خواہ وہ کسی بھی طریقے سے کمائیں۔ تعلیم کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ وہ امیروں اور مالداروں کے لیے مختص کی جارہی ہے۔ آن لائن تعلیم بھی اسی طرف لے جارہی ہے۔ اس صورت حال نے کمیونسٹ پارٹیوں کو بھی بے بس کرکے رکھ دیا ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دینی احکام سے سمجھوتہ کیے بغیر تعلیم پر زور دیں۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 اگست تا 14 اگست 2021