خاندانی مسرتوں کے راز

فیملی کونسلنگ گائیڈ بک

محی الدین غازی،دلی

 

خاندان کے ماحول کو سکون اور لطف سے معمور بنانے کے لیے ذہن سازی کی بڑی اہمیت ہے۔ خاندان کے مسائل اور تنازعات کو حل کرنے کے لیے بروقت کوشش ضروری ہوتی ہے۔ شادی سے لے کر بچوں کی پیدائش اور تعلیم وتربیت تک قدم قدم پر رہنمائی مطلوب ہوتی ہے۔ خاندان کو درپیش مشکل حالات میں مشاورت کی اہمیت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ فیملی کونسلنگ ان سب ضرورتوں کی تکمیل کا نام ہے۔
فیملی کونسلنگ کی ایک صورت یہ ہوتی ہے اور کبھی وہ ناگزیر ہو جاتی ہے کہ پروفیشنل کونسلر کی خدمات حاصل کی جائیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ خدمات سب کو میسر نہیں ہوتی ہیں اور پروفیشنل کونسلر کی خدمات سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس کے پاس جانا ضروری ہوتا ہے جس کے لیے تمام متعلق لوگوں کو آمادہ کرنا آسان نہیں ہوتا۔
فیملی کونسلنگ کی بہترین صورت یہ ہے کہ ہر ہر خاندان میں اس فن سے واقفیت رکھنے والے لوگ پیدا ہوجائیں اور وہ رضا کارانہ طور پر خود آگے بڑھ کر اپنے گھر اور خاندان میں بہتر سوچ اور خوش گوار ماحول بنانے کی مسلسل کوشش کریں۔ قرآن مجید میں اس کے لیے واضح اشارے ملتے ہیں۔
ڈاکٹر نازنین سعادت کی کتاب "خاندانی مسرتوں کے راز۔ فیملی کونسلنگ گائیڈ بک” ایک انوکھی اور عمدہ کوشش ہے۔ ہر گھر میں خاندانی رہنمائی اور مشاورت کے فن اور طریقوں سے واقف کار مرد اور خواتین تیار کرنا اس کتاب کا خاص مقصد ہے اور یہی اس کتاب کا امتیاز ہے۔
مصنفہ کے اپنے الفاظ میں:
’’کونسلنگ کا کام خاندان کے ہر فرد کا کام ہے۔ ہماری تہذیبی روایات میں خاندان کی بڑی بوڑھیوں نے ہمیشہ مشیر، کونسلر، کوچ اور مہربان ٹربل شوٹر کا رول ادا کیا ہے۔ مائیں اپنی بیٹیوں کے لئے ہمیشہ قابل کوچ بنی رہیں۔ ہر خاندان میں ایسی معمر و تجربہ کار خواتین ہوا کرتی تھیں جو آنے والی بہوؤں اور جانے والی بیٹیوں کو خوشگوار زندگی کے راز بھی سکھاتی تھیں اور پیچیدہ خاندانی گتھیوں اور الجھنوں کو حل بھی کرتی تھیں۔ شہری زندگی کی ہما ہمی اور نیوکلیائی خاندانوں کے رواج نے اس روایتی رول کو کمزور کر دیا ہے۔ خاندانی زندگی کو اس وقت درپیش مشکلات کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ اگر ہماری خواتین کونسلنگ و کوچنگ کے آسان طریقوں کو سمجھ لیں اور اسلام کی بنیادی تعلیمات کا فہم حاصل کرلیں تو وہ اس روایتی رول کا زیادہ بہتر روپ میں احیاء کر سکتی ہیں۔ ان مضامین میں میری مخاطب ایسی ہی پڑھی لکھی خواتین ہیں جو بغیر کسی پروفیشنل ٹریننگ کے اپنے اپنے خاندانوں میں اور اپنے پاس پڑوس میں یہ رول ادا کرسکتی ہیں۔ اس لیے ان مضامین میں علمی اصطلاحات اور تکنیکی تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے آسان زبان میں موٹی موٹی باتیں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘
اس کتاب کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ اسے ایک ایسی تجربہ کار خاتون نے لکھا ہے جو کونسلنگ کے جدید طریقوں سے اچھی طرح واقف ہیں، قدیم روایتی طریقوں سے بھی آگاہ ہیں اور زندگی گزارنے کے لیے قرآن وسنت کی تعلیمات کو اصل ماخذ سمجھتی ہیں۔ وہ خود لکھتی ہیں: ‘‘مسائل کے حل کی کوشش کرتے ہوئے میں اصلاً قرآن و سنت کی تعلیمات کو پیش نظر رکھنے کی کوشش کرتی ہوں اور اسی کی روشنی میں علم نفسیات اور این ایل پی وغیرہ کے تصورات اور تکنیکوں سے بھی استفادہ کرتی ہوں۔‘‘
فیملی کونسلنگ کا نام آتے ہی ہمارے ذہنوں میں گھریلو جھگڑے یا بہت سنگین قسم کے مسائل آتے ہیں جن کے حل کے لیے کسی تجربہ کار ماہر نفسیات کی ضرورت پیش آتی ہے۔ زیر نظر کتاب کے پیش نظر صرف تنازعات اور مسائل کا حل ہی نہیں بلکہ لطف سے بھرپور خوش گوار خاندانی زندگی گزارنا ہے۔ کتاب کی درج ذیل عبارت آپ کو پوری کتاب کا مطالعہ کرنے پر اکسانے کے لیے کافی ہے:
’’اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سارے جوڑے شادی کے بعد ایک یا دو سال ہی پر جوش اور نہایت پر مسرت زندگی گزار پاتے ہیں۔ اس کے بعد ان کا ازدواجی رشتہ کسی تناو یا تنازعہ کا شکار تو نہیں ہوتا لیکن اس میں گرمجوشی اور حرارت بھی باقی نہیں رہتی۔ زندگی کے جھمیلوں میں وہ ایسا اُلجھ جاتے ہیں کہ انہیں ایک دوسرے میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی۔ بس وہ ساتھ رہتے ہیں اور زندگی کا بوجھ اتارتے اور ذمہ داریاں ادا کرتے رہتے ہیں۔ ایسے تعلیم یافتہ، خوشحال اور مہذب جوڑے بھی مجھے ملتے ہیں جو شادی کے چند سالوں بعد ہی عین نوجوانی میں یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ’’اب زندگی میں کوئی مزہ ہی نہیں رہا بس بچوں کے لیے جینا ہے‘‘۔ ان نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں سے ایسی باتیں سن کر بہت افسوس ہوتا ہے۔ ازدواجی رشتہ کی گرمجوشی کی ضرورت انسان کو ہر عمر میں ہوتی ہے۔ اگر یہ لوگ سمجھداری سے زندگی گزاریں، اسلامی شریعت کی پابندی کریں، نبی کریم ﷺ کی ازدواجی زندگی کے اسوہ کو پیش نظر رکھیں اور ایک دوسرے کی نفسیات کا لحاظ رکھیں تو ان شاء اللہ عمر کے ساتھ ساتھ ان کا رشتہ اور مضبوط اور محبت و زندگی سے بھرپور بن سکتا ہے اور بڑھاپے کی آخری عمر تک وہ ازدواجی زندگی کی جذباتی مسرتوں سے فیضیاب ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ ایسے جوڑے بھی موجود ہیں جن کی شادی کو پچاس ساٹھ سال ہو چکے ہیں اور جن کے پوتے پوتیاں بھی ماشاء اللہ شادی شدہ اور بال بچوں والے ہیں لیکن وہ عمر کے اس آخری پہر میں بھی بھرپور رومانٹک زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اُس راز کو پالیتے ہیں جو خوشگوار زندگی کے لئے ضروری ہے۔‘‘
کتاب کی اپروچ عملی ہے، یہ بیمار انسانوں سے زیادہ عام انسانوں کے مطالعہ پر مبنی ہے۔ اپنے قاری کو اس کی بہت سی کمیوں اور خامیوں کی طرف توجہ دلاتی ہے، جن کی طرف اس کا دھیان نہیں جاتا ہے۔ کتاب کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے بہت سے مسائل کی تشخیص ہوتی جا رہی ہے اور ان کا علاج سامنے آتا جا رہا ہے۔ اپنی شخصیت کو بنانے اور سنوارنے کا اس میں خاصا سامان موجود ہے اور اس کے لیے طاقت ور تحریک بھی ہے۔
شوہر بیوی اور ان کے خاندان کے علاوہ اس کتاب کا ایک حصہ بچوں کی تربیت کے بارے میں ہے۔ بچوں کی نفسیات کی بارے میں محتاط اور سنجیدہ رہتے ہوئے ان کی بہتر نشوونما کے سلسلے میں قیمتی مشورے ہیں۔ کتاب سے یہ قیمتی تاثر ملتا ہے کہ بچوں کی صحت بخش طریقے سے پرورش کرنا اتنا ہی مشکل یا آسان ہے جتنا کہ بچوں کی غیر صحت بخش طریقے سے پرورش کرنا۔ محنت اتنی ہی ہوتی ہے لیکن صحت بخش طریقے کے اچھے اثرات بچے کی پوری زندگی اور اس کی پوری شخصیت پر پڑتے ہیں۔ یہ کتاب اردو زبان میں فیملی کونسلنگ پر انوکھے طرز کی کتاب ہے۔ اردو زبان کا دامن اس طرح کی کتابوں سے دوسری زبانوں کی طرح مالا مال نہیں ہے۔ امید ہے کہ اس کتاب سے بھرپور استفادہ کیا جائے گا۔
(مبصر ماہنامہ زندگی نو کے مدیر ہیں۔)

بہت سارے جوڑے شادی کے بعد ایک یا دو سال ہی پر جوش اور نہایت پر مسرت زندگی گزار پاتے ہیں۔ اس کے بعد ان کا ازدواجی رشتہ کسی تناو یا تنازعہ کا شکار تو نہیں ہوتا لیکن اس میں گرمجوشی اور حرارت بھی باقی نہیں رہتی۔ زندگی کے جھمیلوں میں وہ ایسا اُلجھ جاتے ہیں کہ انہیں ایک دوسرے میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 21 فروری تا 27 فروری 2021