حیات مستعار کو با مقصد بنائیے!
سیدہ واسعہ اثنیٰ
زمانے کی یہ گردشِ جاودانہ
حقیقت ایک تو باقی فسانہ
انسان اگر اپنا مقصدِ حیات جان لے تو اسے زندگی گزارنے میں آسانی و سہولت بھی ہو جائے گی اور وہ برے انجام سے بھی بچ جائے گا۔اس چند روزہ زندگی کا مقصد آخر کیا ہے؟
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ ۔’’میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں‘‘۔
انسان کیا ہے اور اِس کائنات میں اس کی حیثیت کیا ہے؟
انسان اشرف المخلوقات ہے انسان کی دنیا میں حیثیت یہ ہے کہ وہ خدا کا خلیفہ ہے خدا کا نائب ہے۔جس نے اپنی حیثیت کو اور اپنے منصب کو پہچانا اور اس کے مطابق زندگی گزاری وہ دنیا میں بھی کامیاب ہوا اور آخرت میں بھی سُرخرو ہوا۔ اس لیے اگر دنیا و آخرت کی کامیابی چاہتے ہو تو خدائے لا شریک وبزرگ وبرتر پر ایمان لاؤ اس کے احکام پر سرِ تسلیم خم کرو اور اُس کی مرضی پر راضی رہو۔ وہ پوری کائنات کا شہنشاہ ہے، مالک ہے مختارِ کُل ہے۔ اُس کی کائنات میں صرف اُسی کا حکم چلتا ہے۔ سب اُسی کے حکم کے تابع ہیں۔ ہم بھی اُسی کے حکم کے تابع بن جائیں۔ اسے یاد رکھیں اور اپنے نفس کے غلام نہ بنیں بلکہ اپنے رب کے غلام بنیں۔ زندگی اپنے طریقے سے نہیں بلکہ اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گزاریں۔
مالک الملک کی جانب سے ہمیں جو احکام اور ہدایات موصول ہوئی ہیں، اس کی پیروی کریں اور ہر دم اُسی پر عمل پیرا ہوں۔ اپنے صبح و شام کی مصروفیات کو اللہ کی مرضی کو سامنے رکھ کر ترتیب دیں۔ جان رکھیں کہ دنیا کے یہ سارے کاروبار دھندے سب وقتی ہیں۔ ناپائیدار ہیں فنا ہو جانے ہونے والے ہیں۔
جگہ جی لگانے کی یہ دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
یہ آرام و آسائش سب عارضی چیزیں ہیں۔ یہ سامان زندگی ہمیشہ کام آنے والا نہیں ہے۔ یہ عیش و عشرت کے اسباب سب فنا ہونے والے ہیں۔
سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا
جب لاد چلے گا بنجارہ
بس اِدھر آنکھ بند ہوئی کہ اُدھر قبر میں پہنچا دیے گئے۔ اب نہیں معلوم کہ وہاں ہمارے ساتھ کیا معاملہ پیش آنے والا ہے۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ کیونکہ ہم رات دن دنیا کے پیچھے پڑے رہتے ہیں آخرت کی کچھ فکر نہیں کرتے اس لیے کہہ نہیں سکتے کہ وہاں اجالے ہمارا استقبال کر رہے ہوں گے یا اندھیرا ہمارا منتظر ہوگا۔
یہ دُنیا ایک امتحان گاہ ہے۔ اِس دنیا کو ’’دارالعمل‘‘ یعنی عمل کی جگہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ دنیا جنت اور جہنم کا بکنگ آفس ہے. یہاں ٹکٹ پیسہ دے کر خریدنا نہیں پڑتا بلکہ کسی شخص کا اعمال نامہ ہی اس کا ٹکٹ ہوگا جس کا جیسا اعمال نامہ ہوگا ویسا اس کا ٹکٹ بنے گا۔
خالقِ کائنات نے ہمیں جو عقل و شعور کی نعمتیں بخشی ہیں، اپنی بے شمار مخلوقات پر ہمیں فوقیت عطا کی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان کے ذریعے سے ہماری آزمائش کرنا چاہتا ہے اسی آزمائش کی تکمیل کے لیے حقیقت پر غیب کا پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ تاکہ انسان کی عقل کا امتحان ہو۔ ہمیں حق و باطل کے انتخاب کی آزادی بخشی گئی ہے۔ تاکہ ہم اپنے عقل و شعور سے آزادی و اختیار سے حق کو قبول کریں اور باطل کو رد کریں اور آخر دم تک اس پر ڈٹے رہیں۔
لیکن آج ہم کیا کر رہے ہیں؟ سب کچھ جاننے کے باوجود بھی ایسے زندگی گزار رہے ہیں جیسے کچھ بھی نہیں جانتے۔ خدا کی نا فرمانی دھڑلّے سے کرنے لگتے ہیں اور اس کے احکام کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور جانتے بوجھتے ان کاموں میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں جن سے خدا کی نا راضگی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ قرآن پاک میں صاف بتا دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہمارامعبود برحق ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور نہ اس کا کوئی شریک ہے۔ اور ہم کو یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنائیں۔
خدا کا خوف انسان کو درست رکھتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس کی ناراضگی سے بچیں بلکہ اس کے خیال سے ہی ہمارا دل لرز جائے اور ہم ایک قدم بھی اُس کی مرضی کے خلاف نہ اٹھائیں۔ ہمیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا احسان مند رہنا و شکر گزار رہنا چاہیے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہم پر بے شمار ہیں۔ بہت سی نعمتیں ایسی ہیں جنہیں ہم جانتے ہیں اور بہت سی نعمتیں ایسی ہیں جن کو ہم جانتے بھی نہیں لیکن وہ ہمیں ملی ہوئی ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم میری نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو بھی شمار نہیں کر سکتے۔
نبی کریم ؐکا ارشاد مبارک ہے کہ یہ دُنیا مؤمن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت۔
کیا عشق ایک زندگی مستعار کا
کیا عشق پائیدار سے نا پائیدار کا
تو میرے پیارے بھائیو اور بہنو! تم اپنے نفس کے غلام مت بنو، اپنے نفس کو اپنا خدا ہر گز نہ بناؤ اپنی خوشی، اپنی رضا، اپنی خواہش کے مطابق زندگی مت گزارو۔ اگر ایسا کرو گے تو تمہاری روح بھی زخمی ہوگی اور تم پر کوئی نصیحت بھی اثر نہیں کرے گی، اور جب نصیحت ہی اثر نہیں کرے گی تو پھر اچھے اور برے میں تمیز ہی کہاں باقی رہے گی؟ قرآن میں ارشاد ہے:’’فلاح پا گیا وہ جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا‘‘ یعنی حکم الٰہی و رضائے الہٰی کے مطابق عمل کرنے والے بندے ہی اللہ کے یہاں مقبول ہوتے ہیں۔ اللہ پر ایمانِ کامل میں ہی دنیا کے ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔
انسان کو اِس دنیائے فانی میں زندگی کس طرح گزارنا چاہیے، کس ڈھنگ سے اُسے حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے، اپنے فکر و عمل کو کس انداز میں ترتیب دینا چاہیے، اپنے مقاصد کو کس طرح بروئے کار لانا چاہیے اور اس کا اخلاق و کردار کس حد تک متاثر کن ہونا چاہیے؟ ان سوالوں کے جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا چاہیے، اپنا ہر معاملہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے اور اللہ پر کامل بھروسہ کرنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ دنیا کا سرمایہ زندگی تھوڑا ہے اور آخرت خدا ترس انسان کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ اس لیے ہمیشہ کی زندگی پر ہماری نظر ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے جو تمہاری قسمت میں لکھ دیا ہے اس پر راضی رہنا چاہیے۔ تمہارا رب جس چیز کو تمہارے قریب کردے اس میں حکمت تلاش کرو اور جس چیز کو تم سے دور کردے اس پر صبر اختیار کرو۔
جس انسان کو اللہ کی حکمت سمجھ میں آجائے وہ زندگی میں کبھی بھی کس بھی نا خوش گوار واقعہ کے رونما ہونے پر شکوہ نہیں کرتا بلکہ صرف تسلیم رضا اور اپنی آخرت کی فکر کرتا ہے۔ مصیبتوں کا مقابلہ صبر سے اور نعمتوں کی حفاظت شکر کے ساتھ کرنا چاہیے۔
ہمارا یقین کمزور ہے لیکن اللہ کے وعدے سچے ہیں۔ اسی لیے اللہ پر کامل ایمان، مکمل یقین اور اچھی امید نہ صرف اِس دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی کامیابی کی ضامن ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دونوں جہانوں میں کامیابی و سرخ روئی عطا فرمائے۔ آمین۔