حلال کمائی۔اہمیت، آداب اور تقاضے

زندگی کے اہم مسئلہ میںاسلامی رہنمائی اور کامیاب تجارت کے رازاجاگرکرنے والی ایک کتاب

کتاب کا نام: حلال کمائی(اہمیت، آداب اور تقاضے)
مصنف: مولانا ولی اللہ سعیدی فلاحی
صفحات 88 :
قیمت: 90 روپے
ناشر:مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،نئی دہلی
مبصر: سہیل بشیر کار، بارہمولہ کشمیر

عام طور پر مسلمانوں میں یہ غلط فہمی پیدا ہوئی ہے کہ اسلام چاہتا ہے کہ انسان مال و دولت سے دور رہے، مال کمانے اور روپیہ جمع کرنے کو وہ دین کے خلاف سمجھتے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ اسلام creation of wealth کا قائل ہے، رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’تم اپنے اہل خانہ کو خوش حال چھوڑ کر جاؤ یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ بدحال ہوں اور لوگوں سے مانگتے پھرتے ہوں۔‘‘ دین چاہتا ہے کہ مسلمان ہر حال میں طاقتور ہو، وہ لینے والا نہیں بلکہ دینے والا ہو۔ اس غلط فہمی کے نتیجے میں مسلمانوں نے مال کمانے کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی چناں چہ معروف عالم دین مولانا ولی اللہ سعیدی فلاحی نے ایک مختصر مگر جامع کتاب ’’حلال کمائی (اہمیت، آداب اور تقاضے)‘‘ لکھ کر اسی غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ مصنف نے اس کتاب سے پہلے بھی کئی کتابیں لکھی ہیں جو کافی مقبول ہوئی ہیں۔
88 صفحات کی زیر تبصرہ کتاب کو مصنف نے پیش لفظ کے علاوہ چار ابواب میں تقسیم کیا ہے، پیش لفظ میں لکھتے ہیں:’’ مال کی محبت انسان کی فطرت میں ہے لیکن اس محبت کو حد میں رکھنا اور جنت کی محبت پر مال کو قربان کرنا مطلوب ہے۔ (صفحہ 7)،پہلے باب ’’مال کی اہمیت‘‘ میں مصنف نے بتایا کہ کس طرح قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے اور احادیث میں رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کو’ فضل‘ کہا ہے، پھر مال کے بارے میں انسانی فطرت اور صحیح نقطہ نظر کو بیان کرتے ہیں، مال کی حفاظت کے تعلق سے وہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو بیان کرتے ہیں: ’’ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اگر کوئی آدمی میرا مال مجھ سے چھینے تو میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو اپنا مال مت دو، کہا کہ اگر وہ مجھ سے قتال کرے؛ فرمایا تم بھی اس سے قتال کرو، کہا کہ اگر میں مر گیا تو فرمایا تم شہید ہوگئے۔ ‘‘(مسلم)
مال کی حفاظت کرتے ہوئے اگر صاحب مال مر جائے تو اس کا درجہ شہادت کا درجہ ہے۔ یہ وہی مال ہے جس کے بارے میں ہمارا تصور یہ ہے کہ دین دار کو اس سے دور رہنا چاہیے،اس باب کے آخر میں مصنف مال کے سلسلے میں مطلوبہ رویہ میں 11 مطلوبہ رویوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔
دوسرے باب ’کسب مال‘ میں مصنف نے اسلام کی ان تعلیمات کو پیش کیا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مال کمانا کتنا ضروری ہے، البتہ بندہ کو چاہیے کہ وہ حلال روزی کمائے، مومن کبھی حرام راستہ نہیں چنتا لکھتے ہیں:’’ بندہ مومن پریشان ہوتا ہے کہ حلال روزی کمانے میں مشقت بہت ہے، مجھے روزی کیسے ملے گی میرے بچوں کا کیا ہوگا، اس کو یاد رکھنا چاہیے کہ بچہ جب ماں کی پیٹ میں 120 دن کا ہوتا ہے اس وقت خالق کائنات فرشتے کو بھیج کر یہ لکھوا دیتا ہے اس کو روزی کہاں سے ملے گی، ہماری روزی طے ہے مل کر رہے گی ، اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اسے حلال طریقے سے حاصل کرتے ہیں یا حرام۔‘‘(صفحہ 33)،حلال روزی کمانے کو مصنف دین داری کہتے ہیں لکھتے ہیں:’’ دین داری صرف نماز و روزہ وغیرہ ہی نہیں ہے بلکہ دین داری یہ بھی ہے کہ بندہ عزت کی زندگی گزارے وہ خود کفیل ہو۔ ‘‘(صفحہ 34) اسلام بندہ کو خوددار بناتا ہے لہذا وہ چاہتا ہے کہ بندہ مانگنے سے پرہیز کرے کیونکہ مانگنے سے خودداری ختم ہو جاتی ہے، اس سلسلے میں مصنف نے وضاحت سے لکھا ہے، اسی باب میں مصنف حلال روزی کی مختلف شکلیں بیان کرتے ہیں جن میں تجارت، زراعت صناعت اور ملازمت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھے ہیں: ’’حضرت آدم علیہ السلام سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی انبیاء دنیا میں تشریف لائے سب کا کوئی نہ کوئی روزی کا ذریعہ تھا، مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آدم علیہ السلام نے زراعت، ابراہیم علیہ السلام نے معماری، اسحق، یعقوب، شعیب اور موسیٰ علیہم السلام کا بکریوں کو چرانا، داود علیہ السلام نے لوہے کا کام کیا، ادریس علیہ السلام نے سلائی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کا پیشہ اختیار فرمایا۔ ‘‘(صفحہ 39)،مصنف نے اس باب میں جہاں حلال کمائی کے فائدے بتائے ہیں وہی حلال روزی میں اضافے کے ذرائع میں 16 ذرائع قرآن اور حدیث سے اخذ کیے ہیں، اگر ایک تاجر ان 16 ذرائع کو اختیار کرتا ہے تو حلال روزی میں اضافہ ہونا یقینی ہے،
کتاب کا تیسرا باب’’ حرام مال کی قباحت‘‘ میں مصنف نے حرام مال کی جہاں قباحت بیان کی ہے وہیں حرام مال کی شکلیں کے تحت 8 شکلیں تفصیل سے بیان کی ہیں ، اس باب میں مصنف نے حرام مال کے نقصانات کے تحت 6 نقصانات کا ذکر کیا ہے، اس باب میں مصنف نے بہت جگہ ایسے نکات بیان کیے ہیں جن کا ہرمسلمان کو جاننا اور عمل کرنا ضروری ہے؛ لکھتے ہیں: ’’تجارت میں ایک اہم چیز یہ بھی ہے کہ جو آدمی کے پاس نہ ہو وہ اس کو بیچ نہیں سکتا، آج کل سرمایہ دارانہ نظام کا ایک بڑا نقص یہ بھی ہے کہ تاجر کے پاس سامان نہیں ہوتا لیکن وہ اس کو بیچتا ہے اور یہ عمل ایک سے زائد بار بار ہوتا ہے اس کے منفی اثرات عوام پر پڑتے ہیں۔ ‘‘(صفحہ 58)،اسی طرح اس بات سے بھی منع کیا گیا ہے کہ دیہات کے تاجروں کا سامان شہر کا تاجر بیچے اور دلالی کریں، شہر سے باہر جاکر تاجروں سے ملے اور سامان عام لوگوں کے لیے مہنگا ہو جائے، بخاری شریف کی ایک روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا :’’سوداگروں سے شہر کے باہر جا کر نہ ملو اور شہری دیہاتی کے لیے نہ بیچے۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ میں نے اس کا مفہوم ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا انھوں نے فرمایا دلال (broker) نہ بنے۔ ‘‘ (صفحہ 58)
کتاب کے آخری باب میں مصنف ’’تجارت کا شوق‘‘ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تجارت کی کتاب و سنت میں بڑی فضیلت آئی ہے، رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن دو اشخاص پر رشک کرنے کی ترغیب دی ہے ان میں ایک وہ مال دار ہے جو اللہ کی راہ میں خوب خرچ کرتا ہے ، ہمارے صحابہ کرام میں حضرت عثمان اور حضرت عبدالرحمن بن عوف جیسے عشرہ مبشرہ صحابی ہیں؛ جو بہت بڑے تاجر تھے، حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان دار تاجر کو جنت میں اعلی مقام ملے گا وہ انبیاء، صلحا، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا، مصنف لکھتے ہیں کہ ایک تاجر بہترین داعی ہو سکتا ہے کیونکہ اس کے پاس لوگ کثرت سے آتے ہیں، مصنف نے اس باب میں کئی اسلاف کا ذکر کیا ہے جو بہت بڑے تاجر تھے اور جن کے پاس مال بھی بہت تھا ، حضرت طلحہ عشرہ مبشرہ صحابی ہے ان کی دولت ایک اندازے کے مطابق 22 لاکھ درہم اور دو لاکھ دینار تھے، اسی طرح عشرہ مبشرہ صحابی حضرت زبیر بن عوام اور حضرت عبدالرحمن بن عوف کے پاس بالترتیب 50 ملین درہم اور 32 ملین درہم تھے، امام اعظم امام ابو حنیفہ بہت بڑے تاجر تھے، اسی طرح امام مالک خوش حال گھرانے سے تھے۔ مشہور محدث امام مسلم کپڑے کی تجارت کرتے مشہور تابعی سعید بن المسیب اور سفیان ثوری تیل کے تاجر تھے، مرد تو مرد خواتین میں حضرت خدیجہ، ام المومنین زینب بن جحش، ام عمارہ، اسما بنت ابوبکر مال دار اور ہنر پیشہ خواتین تھیں ، خواتین کے تجارت کے فوائد کے تحت مصنف لکھتے ہیں: ’’اپنے کمائے ہوئے مال سے خواتین میں خود اعتمادی اور خودداری بڑھتی ہے، ان کے اندر جرات اور حوصلے میں اضافہ ہوتا ہے وہ بسا اوقات شوہر اور بچوں کی مدد کر سکتی ہیں، اپنی جائز ضرورتیں پوری کر سکتی ہیں ، دل کھول کر انفاق کرسکتی ہیں، زکواۃ کی ادائیگی کر سکتی ہیں جو دین کا بنیادی ستون ہے، یتیموں اور بیواؤں کی کفالت کرسکتی ہیں، غلبہ اسلام کے لیے مال سے جہاد کر سکتی ہیں۔ ‘‘(صفحہ 78)مصنف نے اس باب میں تجارت میں کامیابی کے تین راز بنائے ہیں اور ان کی تفصیل بھی لکھی ہے۔ یہ تین صفات ہے محنت، ایمان داری، اور حسن اخلاق۔ مصنف نے تجارت کے کئی فائدے لکھے ہیں لکھتے ہیں:’’ تجارت سے تاجر کے تعلقات وسیع سے وسیع تر ہوتے چلے جاتے ہیں، بات کرنے کا سلیقہ آجاتا ہے، اخلاق میں نکھار پیدا ہوتا ہے، اپنا موقف بتانے اور اس پر قائل کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ ان تعلقات کو اگر وہ تعمیری رخ دے دے تو اس کی دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں گے۔ ‘‘ (صفحہ 70)
امید ہے کہ یہ کتاب امت مسلمہ میں فکری اور عملی جمود کو توڑنے میں مدد دے گی۔ کتاب عمدہ طباعت کے ساتھ مشہور و معروف اشاعتی ادارہ ‘مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز’ نے شائع کی ہے۔ قیمت 90 روپے ہے جو کہ مناسب ہے۔
***

 

***

 مال کی حفاظت کرتے ہوئے اگر صاحب مال مر جائے تو اس کا درجہ شہادت کا درجہ ہے۔ یہ وہی مال ہے جس کے بارے میں ہمارا تصور یہ ہے کہ دین دار کو اس سے دور رہنا چاہیے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  31 جولائی تا 07 اگست 2022