حفاظت خود اختياري شہريوں کا بنيادي آئيني حق

حق دفاع کے حدود اور آئي پي سي کي دفعات کيا ہيں؟

افروز عالم ساحل

موجودہ حالات ميں اقليتوں کے ليے آئيني حقوق کو منوانے کے ليے آگہي ضروري
اپني حفاظت اور جائيدادوں کي حفاظت کرنا شہريوں کا بنيادي اور قانوني حق ہے۔ اپنے دفاع کا حق ہندوستاني آئين کے آرٹيکل 21 کے تحت جينے کے حق کے تحت آتا ہے۔ آئين کا آرٹيکل 21 صاف طور پر کہتا ہے کہ ’’کسي بھي شخص کو اس کي زندگي يا ذاتي آزادي سے محروم نہيں کيا جائے گا سوائے قانون کے ذريعہ قائم کردہ طريقہ کار کے۔‘‘ سپريم کورٹ نے بھي کئي فيصلوں ميں اس بات پر زور ديا ہے کہ اپنے دفاع کا حق ايک بنيادي حق ہے۔ يہي نہيں، بلکہ آپ کو اپنے خاندان کے افراد کي حفاظت کا حق بھي حاصل ہے۔ قانون کي زبان ميں اسے ’حفاظت خود اختياري کا حق‘ يا ’حقِ دفاع‘ کہا جاتا ہے، يعني اپنے دفاع کا حق۔ انڈين پينل کوڈ (آئي پي سي) کي دفعہ 96 تا 106 ميں اپنے دفاع کے حق کا ذکر کيا گيا ہے۔
اپنے دفاع کے حق کے تحت آپ دوسرے شخص کو اتنا ہي نقصان پہنچا سکتے ہيں جتنا وہ آپ کو پہنچانا چاہتا ہے۔ فرض کريں کہ اگر کوئي آپ پر لاٹھي سے حملہ کرتا ہے تو آپ اپنے دفاع ميں بھي لاٹھي کا استعمال کر سکتے ہيں ليکن آپ اس پر گولي نہيں چلا سکتے۔ اگر سامنے والے کے پاس پستول ہے اور وہ گولي چلانے والا ہے تو آپ اپنے دفاع ميں گولي بھي چلا سکتے ہيں۔ يہ آپ کے اپنے دفاع کا حق سمجھا جائے گا۔
اگر کسي نے اپنے دفاع ميں گولي چلائي ہو تو ثابت کرنا ہو گا کہ گولي چلائے بغير اپني جان نہيں بچائي جا سکتي تھي۔ اگر کوئي مجرم کسي کے گھر ميں ڈکيتي يا چوري کي نيت سے ہتھيار لے کر داخل ہوتا ہے اور گھر کے مالک کي جان کو خطرہ ہو، تو ايسي صورت ميں گھر کا مالک جان و مال کي حفاظت کے ليے اپنے لائسنس يافتہ ہتھيار سے فائرنگ کر سکتا ہے اور اگر اس فائرنگ ميں کوئي مجرم مارا جائے تو گھر کا مالک اپنے دفاع کے ليے دليل دے سکتا ہے۔ پھر عدالت ديکھے گي کہ کيا واقعي مجرم مسلح تھے۔
کيا کہتي ہيں آئي پي سي کي دفعات؟
آئي پي سي کي دفعہ 96 ذاتي تحفظ ميں انجام دي جانے والي چيزوں کے بارے ميں بات کرتي ہے اور وضاحت کرتي ہے کہ ذاتي دفاع کے حق کے استعمال ميں انجام ديا جانے والا کوئي بھي عمل جرم نہيں ہے۔ يہ دفعہ صاف طور پر کہتي ہے کہ ’’نجي دفاع ميں کيے جانے والے امور جو ذاتي دفاع کے حق کے استعمال کے طور پر انجام ديے گئے ہوں، سرے سے کوئي جرم نہيں ہيں‘‘
آئي پي سي کي دفعہ 97 جسم اور جائيداد کے ذاتي دفاع کے حق کے بارے ميں بات کرتي ہے۔ اس ميں کہا گيا ہے کہ ہر شخص کو جسم اور جائيداد کي حفاظت کا حق حاصل ہے اور اس کے ليے وہ اپنے دفاع ميں حملہ کر سکتا ہے۔
يہ دفعہ صاف طور پر کہتي ہے کہ ’آئي پي سي کي دفعہ 99 ميں درج پابنديوں کے تابع ہر شخص کو مندرجہ ذيل کي حفاظت کرنے کا حق حاصل ہے۔
پہلا— کسي ايسے جرم کے خلاف جو انساني جسم پر موثر ہو، خود اپنے يا کسي دوسرے شخص کے جسم پر
دوسرا – اپني يا کسي دوسرے شخص کي جائيداد، خواہ وہ منقولہ ہو يا غير منقولہ کے خلاف ايسا جرم ہو جو چوري، ڈکيتي، نقصان رساني يا مداخلت بيجا مجرمانہ کي تعريف ميں آتا ہو يا چوري، ڈکيتي، نقصان رساني يا مداخلت بيجا مجرمانہ کے ارتکاب کا اقدام ہو‘
يعني يہ دفعہ 97 ہر شخص کو يہ حق ديتي ہے کہ وہ دفاع کے حق کا استعمال اپني يا کسي دوسرے کي جان کے تحفظ کے ليے کسي بھي قسم کے جسماني حملے کے خلاف کر سکتا ہے اور اپني يا کسي دوسرے شخص کي جائيداد کے تحفظ کے ليے کر سکتا ہے۔ پراپرٹي پر ہونے والے کسي بھي حملے کے ليے ضروري ہے کہ وہ چوري، ڈکيتي يا فساد جيسے کسي جرم کے زمرے ميں آتا ہو۔
آئي پي سي کي دفعہ 98 ناقص و معذور دماغ جيسے شخص کے عمل کے خلاف ذاتي دفاع کے حق کے بارے ميں بات کرتي ہے۔ يہ دفعہ صاف طور پر کہتي ہے کہ ايسا فعل جو کسي ديگر طور پر ايک مخصوص جرم ہوتا، فاعل کي کم عمري، سمجھ کے پختہ نہ ہونے، مخبوط الحواس يا نشے ميں ہونے کي وجہ سے، يا اس کي غلط فہمي کي وجہ سے ايسا جرم نہ ہو، تو ہر شخص کو اس فعل کے خلاف حفاظت خود اختياري کا وہي حق حاصل ہے جو اس صورت ميں ہوتا جب وہ فعل جرم ہوتا۔‘ يعني دفاع کا حق اس وقت بھي حاصل ہو گا اگر حملہ آور پاگل ہو يا سوچنے سمجھنے کي صلاحيت نہ رکھتا ہو۔
آئي پي سي کي دفعہ 99 ذاتي دفاع کے حق کے استعمال کو محدود کرتي ہے۔ يہ ان مختلف شرائط کو بيان کرتي ہے جن کے تحت ذاتي دفاع کے حق کو استعمال کيا جاتا ہے يا اس کي فرياد کي جاتي ہے۔ يہ دفعہ ان افعال کا صاف طور پر ذکر کرتي ہے جن کے خلاف حفاظت خود اختياري کے حق کا استعمال نہيں کيا جا سکتا:
جس فعل سے ہلاکت يا شديد ضرر پہنچنے کے انديشہ کے پيچھے معقول وجہ نہ ہو، اس فعل کے خلاف حفاظت خود ختياري کا کوئي حق حاصل نہيں ہے، چاہے ايسا فعل يا اقدام کوئي سرکاري ملازم، نيک نيتي سے بہ اعتبار عہدہ کرے گو کہ ايسا فعل قانوناً جائز نہ ہو۔
جس فعل سے ہلاکت يا ضرر شديد پہنچنے کا انديشہ معقول وجہ سے نہ ہو، اس فعل کے خلاف حفاظت خود ختياري کا کوئي حق حاصل نہيں ہے، اگرچہ ايسا فعل يا اقدام کوئي سرکاري ملازم کي ہدايت سے کيا جائے جو نيک نيتي سے بہ اعتبار عہدہ عمل کر رہا ہو۔
ايسي صورتوں ميں جب سرکاري حکام سے تحفظ کي مہلت حاصل ہو، حفاظت خود اختياري کا کوئي حق نہيں ہے۔
اس اختيار کے استعمال کي حد : حفاظت خود اختياري کا حق کسي بھي صورت ميں اس سے زيادہ نقصان پہنچانے سے متجاوز نہيں ہوتا جتنا حفاظت کي غرض کے ليے پہنچنا ضروري ہے۔
وضاحت 1جس فعل کا ارتکاب يا اقدام کوئي سرکاري ملازم بہ حيثيت ايسے ملازم کے طور پر کرے تو اس فعل کے خلاف کوئي شخص حفاظت خود اختياري کے حق سے محروم نہيں ہوتا بجز اس کے کہ وہ يہ جانتا ہو يا اس کے پاس باور کرنے کي وجہ ہو کہ فاعل ايسا سرکاري ملازم ہے۔
وضاحت2کوئي شخص کسي سرکاري ملازم کي ہدايت سے کيے گئے کسي فعل يا اقدام کے خلاف حفاظت خود اختياري کے حق سے محروم نہيں ہو جاتا بجز اس کے کہ وہ يہ جانتا ہو يا اس کے پاس باور کرنے کي وجہ ہو کہ فاعل اس طرح کي کسي ہدايت پر عمل کر رہا ہے يا بجز اس کے کہ ايسا شخص اس اختيار کي نسبت بتائے جس کے تحت وہ عمل کر رہا ہو يا اگر اس کے پاس تحريري اختيار ہو تو بصورت مطالبہ وہ ايسا اختيار نامہ پيش کرے۔‘
يعني آئي پي سي کي دفعہ 99 کے مطابق اگر آپ کے اوپر يا کسي دوسرے کے اوپر کيے جانے والے حملے سے جان جانے يا شديد زخمي ہونے کا ڈر يا معقول وجوہات موجود نہ ہوں تو دفعہ 96 کے تحت آپ اپنے دفاع ميں ايسا اقدام نہيں کر سکتے جس کے نتيجے ميں حملہ آور کي جان چلي جائے، ليکن قانون يہ بھي مانتا ہے کہ جب کسي شخص کي زندگي خطرے ميں ہو تو وہ اپنے جوابي حملے ميں طاقت کا استعمال ناپ تول کر نہيں کر سکتا – اس حق کے استعمال کے ليے يہ بھي ضروري ہے کہ آپ کے پاس پوليس سے مدد لينے کے مواقع حاصل نہ ہوں۔ اگر کوئي ملازم سرکار اپني ڈيوٹي کے دوران مناسب سمجھ کر کوئي قدم اٹھائے تو اس کے ان اقدامات کے خلاف ذاتي دفاع کے حق کے استعمال کا اطلاق نہيں کيا جا سکتا۔
آئي پي سي کي دفعہ 100 ان چھ حالات کو بيان کرتي ہے، جن ميں جسم کے ذاتي دفاع کے حق کے استعمال ميں موت کا سبب بننے کي گنجائش ہے۔ يہ دفعہ صاف طور پر کہتي ہے کہ ’ايسي صورت ميں جب جسم کي حفاظت خود اختياري کا حق کسي شخص کو ہلاک کرنے تک تجاوز اختيار کر جائے : آخري متذکرہ دفعہ ميں درج قيود کے تحت جسم کي حفاظت خود اختياري کا حق حملہ کرنے والے کو بالارادہ ہلاک کرنے يا کوئي دوسرا نقصان پہنچانے تک تجاوز کرتا ہے، اگر ايسا جرم اس حق کے استعمال کا باعث ہو جو مندرجہ ذيل قسموں ميں سے کسي قسم ميں شامل ہو، يعني۔
پہلي قسم۔ حملہ ايسا ہو کہ جس ميں معقول وجہ سے يہ انديشہ ہو کہ اگر اس حملے سے حفاظت نہ کي جائے تو ايسے حملے کا نتيجہ ہلاکت ہو گا۔
دوسري۔ حملہ ايسا ہو کہ جس ميں اس بات کي معقول وجہ ہو کہ اگر اس حملے سے حفاظت نہ کي جائے تو اس کا نتيجہ ضرر شديد ہو گا۔
تيسري۔ ايسا حملہ جو زنا بالجبر کے ارتکاب کي نيت سے کيا جائے۔
چوتھي۔ ايسا حملہ جو خلاف وضع فطري شہوت پوري کرنے کي نيت سے کيا جائے۔
پانچويں۔ ايسا حملہ جو بھگا لے جانے يا اغوا کرنے کي نيت سے کيا جائے ؛
چھٹي۔ ايسا حملہ جو کسي شخص کو حبس بےجا ميں رکھنے کي نيت سے ان حالات کے تحت کيا جائے جن سے اس کو اس بات کا انديشہ معقول وجہ سے پيدا ہو کہ وہ اپني رہائي کے ليے سرکاري حکام سے مدد نہ لے سکے گا۔‘
يہ اوپر درج کردہ ايسي صورتيں ہيں جہاں حملہ آور کي دفاعي حملے کے نتيجے ميں موت بھي واقع ہو جائے تو ذاتي تحفظ کے تحت وہ قتل کا جرم تسليم نہيں کيا جائے گا۔
آئي پي سي کي دفعہ 101ذاتي تحفظ کے حق کو موت کے علاوہ کسي بھي طرح کا ضرر پہنچانے کي گنجائش ديتي ہے۔ يہ دفعہ صاف طور پر کہتي ہے کہ ’جب ايسے حق کي حد موت کے سوا کوئي دوسرا نقصان پہنچانے تک تجاوز کرے : اگر جرم آخري متذکرہ دفعہ ميں درج قسموں ميں سے کسي قسم ميں شامل نہ ہو تو جسم کي حفاظت خود اختياري کے حق کي حد حملہ آور کے بالارادہ ہلاک کرنے تک نہيں ہے ليکن دفعہ 99کي متذکرہ پابندي کے تحت حملہ آور کو موت کے سوا کوئي دوسرا نقصان پہنچانے تک ہے۔‘ يعني اگر جرم اس نوعيت کا نہيں ہے جس کا ذکر اوپر کي دفعہ ميں کيا گيا ہے، تو ذاتي دفاع کے حق کا استعمال حملہ آور کي ہلاکت کا سبب بننے کي گنجائش نہيں ديتا ہے، مگر حملہ آور کي موت کے علاوہ کسي بھي طرح کا عمداً ضرر پہنچانے کي گنجائش ديتا ہے۔ آئي پي سي کي دفعہ 102جسم کے ذاتي دفاع کے حق کے نفاذ اور اسے جاري رکھنے سے متعلق ہے۔ يہ دفعہ صاف طور پر کہتي ہے کہ ’جونہي جسم کو جرم کے اقدام يا دھمکي کے خطرے کا معقول انديشہ پيدا ہو تو جسم کي حفاظت خود اختياري کا حق شروع ہو جاتا ہے، اگرچہ جرم کا ارتکاب نہ کيا گيا ہو، اور يہ حق تب تک جاري رہتا ہے جب تک جسم کو خطرے کا انديشہ باقي رہے۔‘ يعني دفعہ 102کے مطابق ذاتي دفاع کا حق اس وقت تک حاصل رہے گا جب تک کہ خطرہ يا خطرے کي دھمکي اور ڈر موجود رہے۔
آئي پي سي کي دفعہ 103جائيداد کے ذاتي تحفظ کے حق کو موت کا سبب بننے کي گنجائش فراہم کرتي ہے۔ يہ دفعہ صاف طور پر کہتي ہے کہ ’ دفعہ 99 ميں متذکرہ پابنديوں کے تحت جائيداد کي حفاظت خود اختياري کا حق اس وقت مجرم کو بالارادہ ہلاک کرنے يا کوئي دوسرا نقصان پہنچانے تک ہے اگر ايسا جرم، جس کا ارتکاب کيا جانا يا جس کے ارتکاب کا اقدام کرنا اس حق کے استعمال کا باعث ہو، مندرجہ ذيل قسموں ميں کسي قسم کا جرم ہو، يعني :
پہلي – ڈکيتي
دوسري – رات کے وقت گھر ميں نقب زني
تيسري – نقصان رساني بہ ذريعہ آگ جو کسي ايسي عمارت، ايسے خيمے يا ايسے سفينے ميں کي جائے جو انساني رہائش يا جائيداد کي تحويل کے ليے استعمال ميں ہو
چوتھي – چوري، نقصان رساني يا مداخلت بےجا بہ خانہ ايسے حالات ميں کہ اس بات کا انديشہ معقول وجہ سے پيدا ہو کہ اگر اس جرم کے خلاف حفاظت خود اختياري کا حق استعمال نہ کيا گيا تو اس کا نتيجہ موت يا ضرر شديد ہوگا۔‘
يعني جان کو خطرہ ہونے کي صورت ميں اپنے دفاع کا حق آئي پي سي کي دفعہ 103 بھي ديتا ہے، اس کے تحت اگر آپ کو کسي کے ذريعے گھر توڑنے ڈکيتي آتش زني کي صورت ميں جان کا خطرہ ہے تو آپ کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ تيزاب کے حملے کے دوران بھي آپ کي جوابي کارروائي کو بھي اپنے دفاع کے تحت سمجھا جائے گا۔
آئي پي سي کي دفعہ 104 صاف طور پر کہتي ہے کہ ’اگر ايسا جرم جس کا ارتکاب يا اقدام حفاظت خود اختياري کے حق کے استعمال کا باعث ہو، چوري يا نقصان رساني يا مداخلت بے جا مجرمانہ ہو مگر دفعہ اخير مذکورہ بالا ميں درج قسموں ميں کسي قسم ميں مداخلت نہ ہو تو ايسے حق کي حد بالارادہ ہلاک کرنے تک تجاوز نہيں کرتي ليکن دفعہ 99 ميں متذکرہ پابنديوں کے تابع مجرم کو ہلاک کرنے کے سوا کوئي دوسرا نقصان پہنچانے تک تجاوز کرتي ہے۔‘
آئي پي سي کي دفعہ 105 جائيداد کے ذاتي تحفظ کے حق کي ابتدا اور اسے جاري رکھنے کي ہدايت ديتا ہے۔ يہ دفعہ صاف طور پر کہتي ہے کہ ’جائيداد کي حفاظت خود اختياري کا حق اس وقت شروع ہوتا ہے جب کہ جائيداد کے ليے خطرے کا انديشہ معقول وجہ سے شروع ہو۔ جائيداد کي حفاظت خود اختياري کا حق چوري کے خلاف اس وقت تک جاري رہتا ہے جب تک مجرم جائيداد لے کر واپس چلا جائے يا حکام سے مدد حاصل ہو جائے يا جائيداد دستياب ہو جائے۔
جائيداد کي حفاظت خود اختياري کا حق ڈکيتي کے خلاف تب تک جاري رہتا ہے، جب تک مجرم کسي شخص کو ہلاک کرے يا ضرر پہنچائے يا مزاحمت بے جا کرتا رہے يا ان کا اقدام کرتا رہے يا جب تک فوري ہلاکت يا فوري ذاتي مزاحمت بے جا کا خوف باقي رہے۔
جائيداد کي حفاظت خود اختياري کا حق مداخلت بے جا مجرمانہ يا نقصان رساني کے خلاف تب تک جاري رہے گا جب تک مجرم مداخلت بے جا مجرمانہ يا نقصان رساني کا ارتکاب کرتا رہے۔
جائيداد کي حفاظت خود اختياري کا حق رات کے وقت نقب زني کے خلاف تب تک جاري رہے گا جب تک مداخلت بے جا بہ خانہ جس کا آغاز اس نقب زني سے ہوا ہو، جاري رہے۔‘ آئي پي سي کي دفعہ 106 اس جان ليوا حملے کے خلاف ذاتي دفاع کے متعلق گفتگو کرتي ہے جب کسي بے گناہ کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو۔ يہ دفعہ صاف طور پر کہتي ہے کہ ’ اگر حفاظت خود اختياري کا حق استعمال کرنے ميں جو ايسے حملے کے خلاف ہو جس سے ہلاکت کا انديشہ معقول وجہ سے پيدا ہو، حفاظت کرنے والا ايسي حالت ميں ہو کہ وہ کسي بے گناہ شخص کو نقصان پہنچائے بغير اس حق کا اچھي طرح استعمال نہيں کر سکتا تو اس کا حفاظت خود اختياري کا حق اس جوکھم کو اٹھانے تک تجاوز کرے گا۔‘ يعني موت کا معقول خدشہ پيدا کرنے والے کسي حملے کے خلاف کسي شخص کي طرف سے ذاتي دفاع کے حق کے استعمال ميں اگر محافظ کسي بے گناہ شخص کو نقصان پہنچنے کے خطرے کے بغير ذاتي دفاع کو مؤثر طريقے پر استعمال کرنے پر قادر نہيں ہے تو ذاتي دفاع کا حق اس خطرے کو مول لينے کي گنجائش ديتا ہے۔ اس دفعہ کے مطابق، کسي حملے کي صورت ميں جس سے موت کا معقول انديشہ موجود ہو، اگر محافظ کو ايسي صورت حال کا سامنا ہو جائے جس ميں کسي بے گناہ کو نقصان پہنچنے کا بھي خطرہ ہو، تو اس پر اپنے دفاع کا حق استعمال کرنے پر کوئي پابندي نہيں ہے اور وہ اس خطرے کومول لينے کا حق دار ہے

 

***

 ہندوستان میں بعض عناصر سرگرمی کے ساتھ نفرت کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان حالات میں خاص طور پر مسلم اقلیت کا اپنے تحفظ کے تعلق سے فکر مند ہونا ایک فطری بات ہے۔ اس پس منظر میں یہاں ذیل میں دستور کی رو سے ہر شہری کو حاصل ہونے والے اپنے دفاع کے حق (Right of Self-Defence ) کا جائزہ لیا گیا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  29 مئی تا 04 جون  2022