حسن معاشرت کے احکام سورہ نور کی روشنی میں
عبدالعزیز ،کولکاتہ
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے سورہ النور کے موضوع اور مباحث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
جب واقعہ اِفک سے مدینے کے معاشرے میں ایک ہلچل برپا ہوئی تو یہ سورۂ نور اخلاق، معاشرت اور قانون کے ایسے احکام و ہدایات کے ساتھ نازل فرمائی گئی جن کا مقصد یہ تھا کہ اول تو مسلم معاشرے کو برائیوں کی پیداوار اور ان کے پھیلاؤ سے محفوظ رکھا جائے اور اگر وہ پیدا ہوہی جائیں تو پھر ان کا پورا پورا تدارک کیا جائے۔ ان احکام و ہدایات کو ہم اسی ترتیب کے ساتھ یہاں خلاصۃً درج کرتے ہیں جس کے ساتھ وہ اس سورے میں نازل ہوئے ہیں، تاکہ پڑھنے والے اندازہ کرسکیں کہ قرآن مجید ٹھیک نفسیاتی موقع پر انسانی زندگی کی اصلاح و تعمیر کے لیے کس طرح قانونی، اخلاقی اور معاشرتی تدابیر بیک وقت تجویز کرتا ہے:
(1زنا، جسے معاشرتی جرم پہلے ہی قرار دیا جاچکا تھا (سورہ نساء، آیات 15، 16)، اب اس کو فوجداری جرم قرار دے کر اس کی سزا سو کوڑے مقرر کر دی گئی۔
(2بدکار مردوں اور عورتوں سے معاشرتی مقاطعے کا حکم دیا گیا اور ان کے ساتھ رشتۂ مناکحت جوڑنے سے اہل ایمان کو منع کردیا گیا۔
(3جو شخص دوسرے پر زنا کا الزام لگائے اور پھر ثبوت میں چار گواہ نہ پیش کرسکے، اس کے لیے 80 کوڑوں کی سزا مقرر کی گئی۔
(4شوہر اگر بیوی پر تہمت لگائے تو اس کے لیے لعان کا قاعدہ مقرر کیا گیا۔
(5حضرت عائشہؓ پر منافقین کے جھوٹے الزام کی تردید کرتے ہوئے یہ ہدایت کی گئی کہ آنکھیں بند کرکے ہر شریف آدمی کے خلاف ہر قسم کی تہمتیں قبول نہ کرلیا کرو اور نہ ان کو پھیلاتے پھرو۔ اس طرح کی افواہیں اگر اڑ رہی ہوں تو انھیں دبانا اور ان کا سد باب کرنا چاہئے، نہ یہ کہ ایک منہ سے لے کر دوسرا منہ اسے آگے پھونکنا شروع کردے۔ اسی سلسلے میں یہ بات ایک اصولی حقیقت کے طور پر سمجھائی گئی کہ طیب آدمی کا جوڑ طیب عورت ہی سے لگ سکتا ہے، خبیث اطوار سے اس کا مزاج چند روز بھی موافقت نہیں کرسکتا۔ اور ایسا ہی حال طیب عورت کا بھی ہوتا ہے کہ اس کی روح طیب مرد ہی سے موافقت کر سکتی ہے نہ کہ خبیث سے۔ اب اگر رسولؐ کو تم جانتے ہو کہ وہ ایک طیب، بلکہ اطیب انسان ہیں تو کس طرح یہ بات تمہاری عقل میں سما گئی کہ ایک خبیث عورت ان کی محبوب ترین رفیقۂ حیات بن سکتی تھی۔ جو عورت عملاً زنا تک کر گزرے اس کے عام اطوار کب ایسے ہوسکتے ہیں کہ رسولؐ جیسا پاکیزہ انسان اس کے ساتھ یوں نباہ کرے۔ پس صرف یہ بات کہ ایک کمینہ آدمی نے ایک بے ہودہ الزام کسی پر لگا دیا ہے، اسے قابل قبول کیا معنی قابل توجہ اور ممکن الوقوع سمجھ لینے کے لیے بھی کافی نہیں ہے۔آنکھیں کھول کر دیکھو کہ الزام لگانے والا ہے کون اور الزام لگا کس پر رہا ہے۔
(6جو لوگ بے ہودہ خبریں اور بری افواہیں پھیلائیں اور مسلم معاشرے میں فحش اور فواحش کو رواج دینے کی کوشش کریں، ان کے متعلق بتایا گیا کہ وہ ہمت افزائی کے نہیں بلکہ سزا کے مستحق ہیں۔
(7یہ قاعدۂ کلیہ مقرر کیا گیا کہ مسلم معاشرے میں اجتماعی تعلقات کی بنیاد باہمی حسن ظن پر ہونی چاہئے۔ ہر شخص بے گناہ سمجھا جائے جب تک کہ اس کے گنہ گار ہونے کا ثبوت نہ ملے۔ نہ یہ کہ ہر شخص گناہ گار سمجھا جائے، جب تک کہ اس کا بے گناہ ہونا ثابت نہ ہوجائے۔
(8لوگوں کو عام ہدایت کی گئی کہ ایک دوسرے کے گھروں میں بے تکلف نہ گھس جایا کریں بلکہ اجازت لے کر جایا کریں۔
(9عورتوں اور مردوں کو غض بصر کا حکم دیا گیا اور ایک دوسرے کو گھورنے یا جھانک تاک کرنے سے منع کردیا گیا۔
(10عورتوں کو حکم دیا گیا کہ اپنے گھروں میں سر اور سینہ ڈھانک کر رکھیں۔
(11عورتوں کو یہ بھی حکم دیا گیا کہ اپنے محرم رشتہ داروں اور گھر کے خادموں کے سوا کسی کے سامنے بن سنور کر نہ آئیں۔
(12ان کو یہ بھی حکم دیا گیا کہ باہر نکلیں تو نہ صرف یہ کہ اپنے بناؤ سنگھار کو چھپاکر نکلیں بلکہ بجنے والے زیور بھی پہن کر نہ نکلیں۔
(13معاشرے میں عورتوں اور مردوں کے بن بیاہے بیٹھے رہنے کا طریقہ ناپسندیدہ قرار دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ غیر شادی شدہ لوگوں کے نکاح کیے جائیں، حتیٰ کہ لونڈیوں اور غلاموں کو بھی بن بیاہا نہ رہنے دیا جائے۔ اس لئے کہ تجرد فحش آفریں بھی ہوتا ہے اور فحش پذیر بھی۔ مجرد لوگ اور کچھ نہیں تو بری خبریں سننے اور پھیلانے ہی میں دلچسپی لینے لگتے ہیں۔
(14لونڈیوں اور غلاموں کی آزادی کے لیے مکاتبت کی راہ نکال دی گئی اور مالکوں کے علاوہ دوسروں کو بھی حکم دیا گیا کہ مُکاتَب غلاموں اور لونڈیوں کی مالی مدد کریں۔
(15لونڈیوں سے کسب کرانا ممنوع قرار دیا گیا۔ عرب میں یہ پیشہ لونڈیوں ہی سے کرانے کا رواج تھا، اس لئے اس کی ممانعت در اصل قحبہ گری کی قانونی بندش تھی۔
(16گھریلو معاشرت میں خانگی ملازموں اور نابالغ بچوں کے لیے یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ وہ خلوت کے اوقات میں (یعنی صبح، دوپہر اور رات کے وقت) گھر کے کسی مرد یا عورت کے کمرے میں اچانک نہ گھس جایا کریں۔ اولاد تک کو اجازت لے کر آنے کی عادت ڈالی جائے۔
(17بوڑھی عورتوں کو یہ رعایت دی گئی کہ اگر وہ اپنے گھر میں سر سے اوڑھنی اتار کر رکھ دیں تو مضائقہ نہیں مگر حکم دیا گیا کہ تَبَرُّج (بن ٹھن کر اپنے آپ کو دکھانے) سے بچیں۔ نیز انھیں نصیحت کی گئی کہ بڑھاپے میں بھی اگر وہ اوڑھنیاں اپنے اوپر ڈالے ہی رہیں تو بہتر ہے۔
(18اندھے، لنگڑے، لولے اور بیمار کو یہ رعایت دی گئی کہ وہ کھانے کی کوئی چیز کسی کے ہاں سے بلا اجازت کھالے تو اس کا شمار چوری اور خیانت میں نہ ہوگا۔ اس پر کوئی گرفت نہ کی جائے۔
(19قریبی عزیزوں اور بے تکلف دوستوں کو یہ حق دیا گیا کہ وہ ایک دوسرے کے ہاں بلا اجازت بھی کھاسکتے ہیں اور یہ ایسا ہی ہے جیسے وہ اپنے گھر میں کھا سکتے ہیں۔ اس طرح معاشرے کے افراد کو ایک دوسرے سے قریب تر کر دیا گیااور ان کے درمیان سے بیگانگی کے پردے ہٹا دیئے گئے تاکہ آپس کی محبت بڑھے اور باہمی اخلاص کے رابطے ان رخنوں کو بند کردیں جن سے کوئی فتنہ پرداز پھوٹ ڈال سکتا ہو۔
ان ہدایات کے ساتھ ساتھ منافقین اور مومنین کی وہ کھلی کھلی علامتیں بیان کر دی گئیں جن سے ہر مسلمان یہ جان سکے کہ معاشرے میں مخلص اہل ایمان کون لوگ ہیں اور منافق کون۔ دوسری طرف مسلمانوں کے جماعتی نظم و ضبط کو اور کس دیا گیا اور اس کے لیے چند مزید ضابطے بنا دیئے گئے تاکہ وہ اور زیادہ مضبوط ہوجائے جس سے غیظ کھاکر کفار و منافقین فساد انگیزیاں کر رہے تھے۔
اس تمام بحث میں نمایاں چیز دیکھنے کی یہ ہے کہ پوری سورۂ نور اس تلخی سے خالی ہے جو شرمناک اور بے ہودہ حملوں کے جواب میں پیدا ہوا کرتی ہے۔ ایک طرف ان حالات کو دیکھیے جن میں یہ سورت نازل ہوئی ہے۔ اور دوسری طرف سورت کے مضامین اور اندازِ کلام کو دیکھیے۔ اس قدر اشتعال انگیز صورت حال میںکیسے ٹھنڈے طریقے سے قانون سازی کی جا رہی ہے، مصلحانہ احکام دیئے جا رہے ہیں، حکیمانہ ہدایات دی جارہی ہیں اور تعلیم و نصیحت کا حق ادا کیا جارہا ہے۔ اس سے صرف یہی سبق نہیں ملتا کہ ہم کو فتنوں کے مقابلے میں سخت سے سخت اشتعال کے مواقع پر بھی کس طرح ٹھنڈے تدبر اور عالی ظرفی اور حکمت سے کام لینا چاہیے بلکہ اس سے اس امر کا ثبوت بھی ملتا ہے کہ یہ کلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا تصنیف کردہ نہیں ہے، کسی ایسی ہستی ہی کا نازل کیا ہوا ہے جو بہت بلند مقام سے انسانی حالات اور معاملات کا مشاہدہ کر رہی ہے اور اپنی ذات میں ان حالات و معاملات سے غیر متاثر رہ کر خالص ہدایت و رہنمائی کا منصب ادا کر رہی ہے۔ اگر یہ آنحضرتؐ کا اپنا کلام ہوتا تو آپ کی انتہائی بلند نظری کے باوجود اس میں اس فطری تلخی کا کچھ نہ کچھ اثر تو ضرور پایا جاتا تو خود اپنی عزت و ناموس پر کمینہ حملوں کو سن کر ایک شریف آدمی کے جذبات میں لازماً پیدا ہوجایا کرتی ہے۔