حجاب کا حکم اسلام کی فطری تعلیمات کا جزو

ماسک سے کسی کو پریشانی نہیں تو نقاب مسئلہ کیوں ہے؟

خان عرشیہ شکیل،ناندیڑ

حجاب محض ایک کپڑے کا ٹکڑا نہیں ہے بلکہ یہ عورت کے پورے کردار کا احاطہ کرتا ہے ۔عورت کی شرافت،عفت وعصمت،حیا وپاکیزگی کا مظہر ہے۔
حجاب عربی زبان کے لفظ حجب سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے کسی کو کسی شئے تک رسائی حاصل کرنے سے روکنا۔
علامہ حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں ’’کوئی شئے آڑ یا پردے میں ہے تو اس آڑ اور پردے کو حجاب کہتے ہیں‘‘۔
پردہ دو قسم کا ہوتا ہے۔ایک گھر کا پردہ جسے ستر کہا جاتا ہے جس میں ہاتھ اور پاؤں کے علاوہ پورا جسم ڈھکا ہوتا ہے۔ دوسرا گھر کے باہر کاپردہ جسے حجاب کہتے ہیں۔ اس کا استعمال چہرے، جسم کے خد وخال اور زیب وزینت کو چھپانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔پردہ اپنے اندر بہت وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ایک پورا سسٹم ہےجو باحیا معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پردہ فواحش و منکرات پر بندھ باندھتا ہے عورت کو پرسکون اور باوقار زندگی گزارنے کی فطری تدبیر اور ضمانت دیتا ہے۔اس لیے اللہ نے مرد و عورت دونوں کو پردے کا حکم دیا ہے۔نبیﷺنے فرمایا ’’اگر اچانک کسی غیر محرم عورت پر نظر پڑ جائے تو نظر پھیر لو۔دانستہ عورت کو گھورنا گناہ ہے۔
قل للمومنین یغضوا من ابصارھم ویحفظوا فروجھم ۔ذلک ازکی لھم ان اللہ خبیر بما یصنعون۔ (النور-30)
’’اے نبی ﷺ مومن مردوں سے کہہ دو اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔اللہ اس سے باخبر رہتا ہے۔‘‘
یہی حکم عورت کے لیے آیا ہے البتہ اس میں کچھ اضافہ کیا گیا ہے کہ عورتیں اپنا بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھریں اور اپنے آنچل سینوں پر ڈالے رکھیں یعنی پردہ حیا کا محرک ہے۔اور ایک با پردہ عورت سے نا محرم کو یہ پیغام جاتا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو ڈھانک کر رکھا ہوا ہے۔ وہ حدود کے اندر رہنا پسند کرتی ہے۔لہذا اس پر نگاہ غلط ڈالنے کے بارے میں نہ سوچے ۔یوں وہ برے لوگوں کی بری نظر اور برے کرتوت سےبچ جاتی ہے۔
پردہ حیا دار عورت کا زیور ہے
حیا ایک ایسی صفت ہے جو انسان کو برائیوں سے بچاتی ہے۔حیا نظروں کی،خیالات کی اور دل کی پاکیزگی عطا کرتی ہے۔
’’اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا حیا ایمان کا جز ہے۔اگر حیا نکل جائے تو انسان جو چاہے کر گزرے۔
بقول علامہ اقبال
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں
خدا کرے کہ جوانی رہے تیری بے داغ
پردے کا مقصد:
اسلام ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل چاہتا ہے۔لہذا اللہ نے مرد وزن کی فطری میلانات کواپنی جگہ باقی رکھتے ہوئے کچھ حدود اور آداب متعین کیے ہیں مثلاً حسن وجمال،آرائش وزیبائش صرف شوہر کے لیے ہو ۔دور جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھریں تاکہ وہ صرف اپنے شوہر کی توجہ کا مرکز ہو،اور غیر مردوں کی ہوس کا شکار نہ ہو تاکہ انسانی فطرت کی نفسیاتی رحجانات کی تربیت ہو ۔اور انسانی جذبات حدود سے تجاوز نہ کر سکیں۔
سورہ الاحزاب آیت نمبر 59 میں ارشاد باری ہے ’’اے نبی ﷺاپنی بیویوں، بیٹیوں
اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں۔‘‘
کیاپردہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟
عموماً ایسا سمجھا جاتا ہے کہ پردہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔ایسا سمجھنا ہماری لا علمی اور سمجھ کے فقدان کی وجہ ہے۔ حجاب عقل کو نہیں ڈھانک لیتا۔دنیا میں لاکھوں باحجاب خواتین مختلف میدانوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ کمرشیل پائیلٹ سلمہ فاطمہ،کراٹے چمپئن سیدہ فلک،برطانیہ کےمڈ لینڈز سرکٹ کی ڈپٹی ڈسٹرکٹ جج رفیعہ ارشد،موٹر مین نسیم ،اس کے علاوہ ٹیچرز،ڈاکٹرس،انجینرس،کھلاڑی،سائنٹسٹ وغیرہ ہمارے لیے جیتی جاگتی مثالیں بیان کرتی ہے کہ حجاب ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے۔
بے پردگی کانفسیاتی محرک اور بنیادی وجہ
انسان کی فطرت میں تعریف،خودنمائی،خواہش،صنف مخالف کے لیے کشش ہے۔بے پردگی کے ارتکاب سے شیطان انسان کی اس فطرت سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اسے تعریف اور خودنمائی کے لیے اکساتا ہے۔ خاص طورپر اکثر لڑکیاں اپنے آپ کو نمایاں کرنےکے لیے اپنے حسن اور جسم کی نمائش کرتی ہیں جس سے دل کی خرابی رکھنے والوں کو موقع فراہم ہوتا ہے اور وہ لڑکی کو گناہ کی دلدل میں پھنسا دیتا ہے۔
حیا ایمان کا حصہ ہے۔۔۔اسلام حیا کو باقی رکھتے ہوئے معاشی،معاشرتی ضرورتوں کو فطرت کے تقاضوں کے مطابق پورا کرنے کے اصول و ضوابط دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے’’اے آدم کی اولاد تمہارے لیے لباس پیدا کیا جوتمھاری شرمگاہوں کو چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے۔تقوی کا لباس تو اس سے بڑھ کر ہے۔(سورہ الأعراف.26)۔پردہ جسم کو ڈھکتا ہے۔اور خوف خدا انسان کو بے حیائی اور بے شرمی کی باتوں سے بچاتا ہے۔
پردہ عقل کی روشنی میں
اسلام چیزوں کو عقل کی بنیاد پر پرکھنے کی دعوت دیتا ہے۔ پردہ کیوں ضروری ہے اس پر غوروفکر بہت سے نکات و رموز ہمارے سامنے کھل جاتے ہیں۔مرد وعورت جسمانی ساخت،طاقت ،رویے اور عادتوں کے اعتبار سے باہم مختلف ہیں۔ نفسیاتی طور پر مرد جو چیز پسند کرتا ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔عورت اس سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتی ہے ۔عورت کے اندر قدرت نے کشش رکھ دی ہے۔عورت کی خوبصورتی،نزاکت،چال ڈھال مرد کو متوجہ کرسکتی ہے۔۔دل کی خرابی کا مریض اس کو پریشان کرسکتا ہے ۔عقل کا تقاضا ہے کہ عورت اپنے آپ کو حجاب میں چھپائے رکھے۔
دوسری اہم وجہ عورت چوں کہ گھر کی بنیاد ہے،انسانی تہذیب وتمدن کا اٹوٹ حصہ ہے۔گھر کی حفاظت اور بچوں کی پرورش اس کے کاندھوں پر ہے۔ایک اچھے کردار واخلاق والی ماں ہی بچوں کی اچھی پرورش کرسکتی ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ عورت کی عزت وعفت اور تقدس محفوظ رہے ۔عقل کہتی ہے کہ عورت کا حجاب میں رہنا ضروری ہے۔ عورت نفسیاتی طور پر حساس ہوتی ہے‌۔ وہ اپنی بے عزتی ہرگز برداشت نہیں کرسکتی۔۔بری نظریں،برے ریمارک اس کی صحت ،جذبات کو مجروح کرنے کا سبب بنتے ہیں جس کی وجہ سے اسے اپنی ذمے داریوں کو نبھانے میں مشکل پیش آتی ہے۔لہذا عورت کا حجاب میں رہنا ضروری ہے۔
حجاب،آئینی حق ہے
ہمارے ملک کا ہی نہیں بلکہ دنیا کا دستور شہریوں کو بنیادی حقوق دیتا ہے۔آرٹیکل 15&25کے تحت کھانے پینے،رہن سہن،پسند کی شادی،اپنی پسند کے مذہب پر عمل کرنےنیز اظہار رائے کی آزادی دیتاہے۔ سو حجاب پہننے کا اختیار آئین دیتا ہے۔ اس پر پابندی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔
پردے کےطبی فائدے
پردہ کی وجہ سے انسان ہوا میں موجود جراثیم، دھول مٹی اور زہریلی گیسوں کے اثرات سے بچتا ہے۔ہمارے سامنے کووڈ کی وبا سے بچنے کے لیے ماسک کا استعمال کیا گیا۔ڈاکڑ آپریشن تھیٹر میں ماسک کا استعمال کرتے ہیں۔۔چہرے کا خیال رکھنے والی خواتین سورج کے سامنے نکلنے سے پہلے سن بلاک وغیرہ لگاتی ہے تاکہ سورج کی شعاعیں نقصان نہ پہنچا سکیں اسی طرح حجاب میں رہنے والی خواتین معاشرے کی بری ہواؤں سے بچتی ہیں ۔کسی کے لیے شو پیس نہیں بنتیں بلکہ حجاب کی ڈھال عورت کو مضبوط بناتی ہے۔
(کتاب پردہ۔مصنف۔مولانا مودودیؒ)
امریکا کی ایک مشہور ماہر بشریات ہیلن فشر کہتی ہے کہ انسان کے جسم میں کچھ ہارمونز ہوتے ہیں جیسے ٹیسٹوسٹیرون اور یسٹروجین ہوتے ہیں جو عورت کے مقابل مردوں میں زیادہ ہوتے ہیں جو کسی بھی شخص کے رویے کو براہ راست طور پر متاثر کرتے ہیں۔ کسی مرد کی نظر کسی عورت پر پڑتی ہے اور وہ اس کی خوبصورتی کو دیکھتا ہے تو اس کے ہارمونز فعال ہوجاتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ عورت حجاب میں رہے، اپنا بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرے۔
پردہ اور سماجی رویے
حجاب نہ کرنے والوں میں بڑے پیمانے پر حجاب فوبیا پایا جاتا ہے۔ وہ حجاب پر پابندی کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔اسکول ،کالج،شاپنگ مالس میں حجاب کو کھینچا جاتا ہے۔حجاب نکالنے کی مانگ کی جاتی ہے۔یورپی ممالک میں پردہ کرنے پر جرمانہ اور سزا بھی دی جاتی ہے۔پردے کو پسماندگی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ایسا سمجھا جاتا ہے کہ مسلم لڑکیوں کو زورو زبردستی سے پردہ کرایا جا رہا ہے۔۔پردے کو رکاوٹ سمجھا جاتا ہے ۔یہ سب سماجی رویے ہیں ان کا حقیقت سے کوئی سرو کار نہیں ہے بلکہ باحجاب خواتین ہر میدان میں کام کر رہی ہیں۔ہم نے کووڈ کے دور میں تقریباً سب ہی کو ماسک لگا کر کام کرتے دیکھا۔ماسک سے کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہوئی تو پھر حجاب سے کیسے ہوسکتی ہے۔
حجاب کے آداب
کسی کے گھر جائیں تو قاعدہ یہ ہے کہ دروازے کے دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہو کر اجازت طلب کی جائے۔
اگر پوچھا جائے تو اپنا نام بتائیے۔’’میں‘‘ ہوں نہ کہیے۔حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں میں نبی ﷺ کے یہاں گیا ۔دروازے پر دستک دی توپوچھا گیا کہ کون ہے ۔میں نے جواب دیا ’’میں ہوں‘‘۔آپﷺنے دو مرتبہ فرمایا ’’میں ہوں‘‘ سے کوئی کیا سمجھے کہ کون ہو۔(ابوداؤد)
اگر تین مرتبہ دستک کے جواب میں دروازہ نہ کھولے تو لوٹ جاؤ۔دروازے پر جمے رہنا ٹھیک نہیں ہے۔
کسی کے گھر جائیں تو گھر والوں سے اجازت لیں اور سلام کیا کریں۔
سورہ نور میں حکم ہے کہ نماز فجر سے قبل،ظہر کے بعد،عشاء کے بعد یعنی ایسے اوقات میں جب میاں بیوی خلوت میں ہوتے ہیں تو ملازم اور بچے وغیرہ بلا اجازت داخل نہ ہوں۔
اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ حضرت جریر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے پوچھا اچانک نظر پڑ جائے تو کیا کریں ۔آپﷺنے فرمایا نگاہیں نیچی کر لو یا پھیر لو(مسلم)
اجنبی سےنرم لہجے میں بات نہ کریں تاکہ دل کی خرابی میں مبتلا کوئی شخص غلط توقعات نہ رکھے۔
غرض مسلم خواتین اپنی آرائش و زیبائش ظاہرنہ کریں۔ حجاب ان کی پہچان ہے،وقار ہے ، عزت ہے،ناموس ہے لہذا حجاب کا اہتمام ضروری ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  13 تا 19 مارچ  2022