حمیرا علیم
اکثر سننے کو ملتا ہے پردہ دل کا ہوتا ہے۔آنکھ کا ہوتا ہے۔فلاں تو اتنے نیک شریف ہیں ان سے کیا پردہ۔تو آئیے دیکھتے ہیں کیا یہ صحیح ہے یا نہیں ۔پردہ یا حجاب کسی ملک ، علاقے یا کمیونٹی کا رواج نہیں بلکہ یہ اللہ تعالٰی کا حکم ہے۔قرآن پاک کی دو سورتوں میں یہ حکم کچھ یوں آتا ہے:
سورہ النور آیت :31
’’اور آپ مومن عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو (ازخود) اس میں سے ظاہر ہو اور اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں اور اپنا بناؤ سنگھار ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں پر یا اپنے باپ دادا پر یا اپنے خاوندوں کے باپ دادا پر یا اپنے بیٹوں پر یا اپنے شوہروں کے بیٹوں پر (سوتیلے ) یا اپنے بھائیوں پر یا اپنے بھتیجوں پر یا اپنے بھانجوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنے دائیں ہاتھ کی ملکیت (کنیزوں ) پر یا عورتوں سے رغبت نہ رکھنے والے نوکر مردوں پر یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کی پردوں سے واقف نہ ہوں ۔اور وہ عورتیں اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلیں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے وہ معلوم ہو جائے۔اور اے مومنو!تم مجموعی طور پر توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ ۔‘‘
سورہ الاحزاب آیت 32-:33
’’اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو ۔اگر تم متقی اور پرہیز گار ہو تو (نا محرم سے ) آہستگی اور نرمی سے بات نہ کیا کرو کہ پھر وہ شخص جس کے دل میں روگ ہو طمع و لالچ کرنے لگے ۔اور تم صاف اور سیدھی بات کیا کرو۔اور تم اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور گزشتہ دور جاہلیت کی زیب و زینت کی نمائش کی مانند زیب و زینت کی نمائش نہ کرتی پھرو اور نماز قائم کرو اور زکوۃ دو اور اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرو۔بیشک اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی دور کر دے اور تمھیں پاک صاف کر دے۔‘‘
سورہ احزاب جزو آیت 53 :
’’ اللہ حق بات سے نہیں شرماتا ۔جب تم ان سے ( نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازدواج ) کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔یہ بات تمھارے دلوں اور ان کے دلوں کیلئے زیادہ پاکیزہ ہے۔‘‘
سورہ الاحزاب آیت 55 :
’’عورتوں پر اپنے باپوں اور اپنے بیٹوں اور اپنے بھائیوں اور اپنے بھتیجوں اور اپنے بھانجوں اور اپنی عورتوں اور جن کے مالک کے ہیں انکے دائیں ہاتھ (لونڈی ) کوئی گناہ نہیں ( انکے سامنے آنے سے) تم اللہ سے ڈرتی رہو بیشک اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔‘‘
سورہ الاحزاب آیت 59 :
’’ اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں ۔یہ زیادہ قریب ہےتا کہ وہ پہچان لی جائیں اور انہیں ایذا نہ پہنچائی جائے۔اور اللہ بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ ان آیات میں کچھ چیزیں واضح ہیں ۔
1: یہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنے گھر میں موجود محرمات کو پردے کا حکم دے اور اس پر عمل بھی کروائے۔
:2 عورتیں پردے کے ساتھ ساتھ نظر نیچی رکھیں ۔تاکہ کوئی غلط چیز نہ دیکھیں اور فتنہ میں نہ پڑیں ۔
:3 اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص مجھے اپنی زبان اور شرم گاہ کی حفاظت کی ضمانت دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں ۔‘‘
: 4 اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو از خود ظاہر ہو جائے۔ عورت سر سے پاؤں تک اپنے آپ کو چھپا ئے مگر اگر ہاتھ پاؤں یا آنکھیں کھلی رہیں تو کوئی حرج نہیں ۔
:5دوپٹےسے سینے کو ڈھانپے رکھیں ۔اور اپنی زینت کسی نا محرم کے سامنے ظاہر نہ کریں ۔زینت میں کپڑے ، میک اپ جیولری سب آجاتا ہے۔
:6محرم رشتے صرف وہی ہیں جو اللہ تعالٰی نے خود قرآن پاک میں بتا دیے ہیں اور وہ یہ ہیں
والد اور سسر۔ دادا اور نانا ، شوہر کے دادا اور نانا ، بھائی، بھانجا، بھتیجا، اپنا بیٹا اور شوہر کا پہلی شادی سے بیٹا، کنیزیں یا ایسے غلام جو نا بالغ ہوں یا نامرد ہوں ۔
:7 عورتوں کے سامنے پردہ نہ کیا جائے تو خیر ہے مگر ستر انکے سامنے بھی کھولنے سے منع کیا گیا ہے۔
:8زمین پر پاؤں مارتی ہوئی نہ چلیں ۔یعنی اس انداز سے نہ چلیں کہ آواز پیدا ہو اور مرد انکی طرف متوجہ ہوں۔یعنی ہیل والا جوتا یا پائل نہ پہنیں ۔
:9مسلمان عورتیں عام عورتوں کی طرح نہیں ہیں ۔سو اگر وہ اللہ تعالٰی سے ڈرتی ہیں تو نا محرم سے اچھی طرح بات نہ کریں ۔یعنی آواز میں نرمی یا لوچ نہ ہو۔لہجہ سخت رکھیں ۔ تاکہ وہ کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہو۔مثلا وہ یہ خیال نہ کرے کہ آپ اسے پسند کرتی ہیں اور اس سے کوئی تعلق قائم کرنا چاہتی ہیں ۔
:10مسلمان عورتیں گھر میں رہیں ۔اسکا یہ مطلب نہیں کہ اسلام عورتوں کو گھر میں قید رکھنا چاہتا ہے ۔ہرگز نہیں کیونکہ ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں خواتین کو ہر شعبے میں کام کرتے دیکھتے ہیں ۔وہ تعلیم حاصل کرتی ہیں، تعلیم دیتی ہیں، مارکیٹ میں بزنس کرتی ہیں، طبیبہ ہیں، جنگوں میں حصہ لیتی ہیں ۔بلکہ اسکا مطلب ہے کہ فضول گھومتی پھرتی اور وقت ضائع نہ کرتی رہیں ۔اپنا وقت دین و دنیا کی تعلیم پر اور بچوں کی تربیت میں صرف کریں ۔
احادیث میں ہے۔
’’ عورت کے لیے گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے‘‘۔
’’ عورتوں کے لیے سب سے بہترین جگہ گھر اور بد ترین جگہ بازار ہیں ۔‘‘
11: دور جاہلیت میں خواتین زیادہ تر وقت اپنے آپکو سنوارنے میں بسر کرتی تھیں ۔بنی اسرائیلی روایات میں ایسی خواتین کا ذکر ملتا ہے ۔جنہوں نے ہیل والے جوتے ، بالوں کا جوڑا ایجاد کیے تاکہ لمبی لگیں ۔ایسی انگوٹھی بنائی جس میں وہ وہ خوشبو ڈالکر بازار جاتیں اور چلتے چلتے اس کو بٹن دبا کر کھولتیں تو خوشبو پھیل جاتی اور مرد انکی طرف متوجہ ہو جاتے۔ پائل بنائی جسے پہن کر با ہر جاتیں تو اسکی آواز پر مرد انکی طرف دیکھتے۔ بالوں کو لمبا دکھانے کے لیے وگ بنائی۔یہ سب کچھ وہ مردوں کو متوجہ کرنے کے لیے کرتیں تھیں ۔تو ان سے مشابہت کو منع کیا گیا ہے۔
12: نماز نہ صرف پڑھیں بلکہ وقت پر اور پابندی سے پڑھیں ۔
13: زکوۃ دیں ۔اس سے پتہ چلتا ہے مرد بیوی کے زیورات کی زکوۃ دینے کا پابند نہیں ہے ۔جو خرچہ وہ اسے دیتا ہے اس میں سے ادا کرے یا کوئی زیور بیچ کر ادا کرے۔
14: اللہ اور رسول کی اطاعت کریں ۔یہ اس لیے کہ جس کو ہم بڑا مانتے ہیں اسکی بات بھی مانتے ہیں ۔تو اگر ہم انکی بات مانیں گے تو ان سارے احکا م پر عمل کریں گے نا۔
15: جب کسی نامحرم سے کچھ لینا ہو تو پردے کے پیچھے سے لیں۔آیت کے اس حصے سے بھی واضح ہوتا ہے کہ پردہ مکمل جسم کو چپھا کر ہو گا لیکن اگر ہاتھ دکھائی دے جائے تو کوئی بات نہیں ۔پردے کے پیچھے سے ہم چہرہ اور اوپر والا دھڑ نکال کر تو چیز نہیں لیتے۔
16: پردے سے نہ عورتوں کے دل میں کوئی برا خیال آئے گا نہ مردوں دلوں میں ۔اللہ تعالٰی جانتا تھا کہ ایک دور میں اسکے بندے یہ کہیں گے کہ پردہ دل کا ہوتا ہے۔
17: مسلمان عورتیں اپنے اوپر چادریں لٹکا لیں۔ اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کوئی ہینگر یا اسٹینڈ لے کر اسکو لٹکا لیں ۔بلکہ سر پر اس طرح اوڑھیں کہ پاؤں تک لٹک رہی ہو اور سارا جسم ڈھک جائے۔سکارف اور گاؤن بھی اس مقصد کو پورا کرتے ہیں ۔لباس بھی ایسا ہونا چاہیے کہ جسم کی بناوٹ ظاہر نہ ہو۔
18: یہ سب اس لیے کہ مسلمان عورتیں کہیں بھی ہوں وہ اپنے حلیے سے پہچان لی جائیں اور انکو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچائی جائے ۔عام طور پر بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ نا مکمل لباس والی خاتون کو زیادہ ہراساں کیا جاتا ہے بنسبت پردے والی خاتون کے۔
19: اللہ تعالٰی یہ سب کرنے کا حکم اسلیے دیتا ہے تاکہ وہ ہماری بخشس فرمائے۔ پاک کرے اور کامیاب کرے۔
سب چیزیں بالکل واضح ہیں قرآن کے الفاظ بالکل واضح ہیں ۔مگر جن کو نہیں ماننا وہ کوئی نہ کوئی نکتہ نکال ہی لیتے ہیں ۔مثلا یہ تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازدواج کے بارے میں ہے عام عورتوں کے بارے میں نہیں ۔چلیں مان لیتے ہیں یہ احکام نبی ازدواج مطہرات کے لیے ہیں ۔تو جناب اگ ان جیسی معزز خواتین کو یہ تمام کام کرنے کا کہا جا رہا ہے جن کے بارے میں اللہ تعالٰی خود سورہ الاحزاب کی آیت 53 کے آخر میں فرماتے ہیں
’’ تمھارے لیے جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول کو ایذا دو۔اور نہ یہ جائز ہے تم اسکے بعد (وفات) کبھی اسکی بیویوں سے نکاح کرو۔بیشک یہ فعل اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے‘‘۔
یعنی تمام ازدواج مطہرات کو رہتی دنیا کے مردوں کے لیے محرم قرار دے دیا۔اسی لیے ہم انہیں ’’ امہات المومنین ‘‘ بھی کہتے ہیں ۔یعنی ’’سارے مسلمانوں کی مائیں ‘‘۔
اور حکم کن کو دیا جا رہا ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جو بہترین انسان تھے ۔جو اس وقت تک ایک آیت سے دوسری پر نہیں جاتے تھے جب تک کہ اس آیت پر عمل نہ کر لیں۔ وہ صحابہ کرام جو اپنی جان مال اولاد اور والدین سے بڑھ کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور انکی ازدواج کا احترام کرتے تھے۔
سوچیے کیا ہم نعوذ باللہ امہات المومنین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ پاک اور اپنے نفس پر قابو پانے والے ہیں؟ جو اللہ تعالٰی نے انہیں پردے کے احکام دیے مگر ہمیں ان سے مستثنٰی قرار دے دیا؟
پھر انہی آیات میں مومن مردوں کو بھی تو حکم دیا گیا ہے کہ اپنی بیویوں اور عورتوں کو پردے کا کہیں ۔تو اس بارے میں آپکی کیا رائے ہے؟
اب زرا دیکھ لیتے ہیں کہ یہ حکم کیوں دیا گیا اور اسکی ضرورت کیوں پیش آئی؟ تو کفار ہر وقت مسلمانوں کو تنگ کرتے رہتے تھے۔ایک دن ایک مسلمان خاتون بازار گئیں تو ایک کسی کافر نے انکے آزار کو کانٹے سے زمین میں پھنسا دیا۔جب وہ چلیں تو آزار کھل گیا۔اور سب کفار نے انہیں ہراساں کیا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پتہ چلا تو عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا کہ آپ خواتین کو پردے کا حکم دیں۔مگر چونکہ اس سلسلے میں ابھی کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی
سو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چپ رہے۔
جب اس کافر سے بات کی گئی کہ اس نے ایک مسلم خاتون سے بدتمیزی کیوں کی تو اس نے کہا میں سمجھا کوئی لونڈی ہے۔ سو ایک لونڈی اور ایک معزز خاتون میں فرق کرنے کے لیے فرمایا گیا کہ جب مسلمان خواتین گھر سے باہر نکلیں تو جلباب اوڑھ لیں ۔
جلباب ایک بڑی سی چادر کو کہتے ہیں جو سر پہ ڈالکر اس طرح لپیٹ لی جاتی ہے کہ صرف ایک آنکھ نظر آئے جس سے دیکھا جا سکے۔ لوگ پردے کی حکمت بھول کر بس اس بحث میں پڑ جاتے ہیں کہ جسم کو کتنا ڈھانپنا چاہیے ۔
کچھ لوگوں کے خیال میں صرف سر اور جسم کو ڈھانپ لینا کافی ہے ۔چہرے کا پردہ نہیں ہے ۔تو ذرا بتائیے کیا ہم پردے کے پیچھے سے چہرہ اور ہاتھ نکال کر چیز لیتے ہیں یا صرف ہاتھ نکال کر۔اور چہرہ ہی تو اصل مرکزکشش ہے۔ کیا کبھی کسی مرد نے کسی خاتون کے ہاتھ ، پاؤں یا حجاب دیکھ کے اسے پسند یا پرپوز کیا ہے؟ نہیں ۔اسی لیے شادی سے پہلے مرد کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ ایک بار خاتون کو دیکھ لے۔اگر چہرے کا پردہ نہ ہوتا تو یہ اجازت چہ معنی دارد؟ پھر ایک اور نکتہ اٹھایا جاتا ہے کہ دوران حج اور عمرہ بھی تو چہرہ کھلا رکھنے کا حکم ہے۔تو یہی میرا پوائنٹ ہے کہ چہرے کا پردہ ہے اسی لیے حج اور عمرہ پہ یہ خصوصی رخصت دی گئی ہے کہ چہرہ کھلا رکھ سکتے ہیں ۔اور اسکی حکمت یہ ہے کہ حج اور عمرہ میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے رش ہوتا ہے بعض اوقات سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے تو عورت کی آسانی کے لیے یہ رخصت دی گئی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ نا محرم کو چھونا کتنا بڑا گناہ ہے ۔
معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ۔’’ تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی کیل ٹھونک دی جائے یہ اس سے بہتر ہے کہ تم کسی نامحرم کو چھوو۔‘‘( طبرانی 486صحيح جامی 5054 )
مسلم 1866 کی حدیث ہے۔’’ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کبھی کسی نامحرم سے ہاتھ نہیں ملایا۔جب بیعت کے لیے خواتین آتیں تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انہیں کہتے تمہاری بیعت ہوگئی‘‘۔
نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ’’ میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا‘‘
( نسائی 4181۔ ابن ماجہ 2874 )
ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ’’ تم کسی لتھڑے ہوئے سور سے ٹکرا جاؤ یہ اس سے بہتر ہے کہ کسی نا محرم کو چھوؤں۔‘‘
ان آیات اور احادیث کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ عورت کو سارا جسم چھپانا چاہئے ۔پردہ وہی ہے جو قرآن میں بیان کیا گیا ہے ۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 22 تا 28 مئی 2022