حجاب مخالفین کو تمل ناڈو سے رواداری کا سبق
بلدیاتی انتخابات میں کئی حجابی خواتین کی شاندارجیت
سید خلیق احمد،نئی دلّی
بی جے پی لیڈر کو با حجاب رٹرننگ آفسرکے ہاتھوں انتخابی سرٹیفکیٹ
نئی دہلی : فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک خوبصورت مثال تمل ناڈو کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں دیکھنے کو ملی جہاں کے ووٹروں نے حجاب پہننے والی دو درجن سے زائد مسلم خواتین کو عوامی نمائندوں کے طور پر منتخب کر کے حجاب سے نفرت کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دیا ہے۔ بلدیاتی انتخابات 20 فروری کو منعقد ہوئے اور 22 کو نتائج کا اعلان کر دیا گیا۔ شمالی ہند کے برعکس تمل ناڈو میں مسلمان سلمس میں نہیں بلکہ کالونیوں میں رہتے ہیں جہاں تمام برادریوں کے لوگ رہتے ہیں۔ یہاں اتنی زیادہ تعداد میں حجاب پہننے والی مسلم خواتین مخلوط آبادی والے وارڈوں سے منتخب ہوئی ہیں، یہ بی جے پی اور اس کے سخت گیر حامیوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو حجاب کے تنازع کو اٹھا کر جنوبی ہند کی ریاستوں کو فرقہ وارانہ بنانے کی مسلسل کوششیں کر رہے ہیں۔
ان انتخابات میں سب سے خراب حالت بی جے پی کی تھی کیونکہ اسے میٹوپلائم اور کنیا کماری میونسپلٹیوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، جس میں بی جے پی پچھلے پانچ سالوں سے اے ڈی ایم کے کے ساتھ اقتدار میں شریک تھی۔ دیگر شہروں کے ساتھ ساتھ پوری ریاست میں اس کی کارکردگی بہت خراب رہی۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) کی رکن فاطمہ مظفر احمد ان بلدیاتی انتخابات میں عوامی نمائندوں کے طور پر منتخب ہونے والی حجاب پوش مسلم خواتین امیدواروں میں شامل ہیں۔
فاطمہ نے ڈی ایم کے اور سیکولر ڈیموکریٹک پروگریسو الائنس کے ساتھ اتحاد میں انڈین یونین مسلم لیگ کی امیدوار کے طور پر انتخاب لڑا اور بھاری فرق سے جیت حاصل کی ہے۔ تمام گیارہ امیدواروں، بشمول ایگمور سے بی جے پی امیدوار اور اے ڈی ایم کے کے موجودہ کارپوریٹر کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔ تمل ناڈو کے وزیر اعلی ایم کے اسٹالن اور ان کے سیاسی حلیفوں کی قیادت میں ڈی ایم کے نے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ انڈین یونین مسلم لیگ نے 55 سال بعد چنئی میں میونسپل الیکشن لڑا اور شاندار کامیابی درج کی۔
آل انڈیا پرسنل لا بورڈ کی رکن فاطمہ مظفر احمد نے کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے الیکشن جیت گئیں۔ فاطمہ مظفر نے واٹس ایپ کے ذریعے صحافیوں سے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے مجھے بڑی کامیابی ملی ہے۔ ایک اور حجاب پوش خاتون امیدوار علیمہ بیگم، جنہوں نے سوشل اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) کے ٹکٹ پر مقابلہ کیا تھا کوئمبتور میونسپل کارپوریشن سے جیت حاصل کی۔
مسلم سیاسی کارکنوں کے مطابق بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والی 90 فیصد سے زیادہ مسلم خواتین حجاب پہنتی ہیں۔ 21 میونسپل کارپوریشنوں، 138 میونسپلٹیوں اور 490 پنچایتوں کی 12,607 نشستوں کے لیے انتخابات ہوئے۔ 12,607 نشستوں میں سے 50 فیصد خواتین کے لیے مختص ہیں۔
حجاب پہننے والی 22 سے زیادہ مسلم خواتین نے ایم ایچ جواہراللہ کی قیادت والی مانیتھنیا مکل کچی (MMK) کے ٹکٹ پر مختلف بلدیات سے بلدیاتی انتخابات جیتے ہیں۔ ان میں ترورور میونسپلٹی کی بے نظیر جیسمین اور شکیلہ بانو شامل ہیں۔
سی پی ایم کی حجابی امیدوار برکت نشا نے کوٹا کوپم میونسپلٹی جیت لی۔ اسی طرح تروچیراپلی میں مرومالارچی دراوڑ منیترا کزگم (MDMK) کے ٹکٹ پر حجاب کی پابند اے خدیجہ کو وارڈ نمبر 30 سے جیت حاصل ہوئی ہے۔
کرناٹک سے ابھرنے والے جحاب تنازعہ کے تناظر میں ایک دلچسپ اس وقت دیکھا گیا جب بی جے پی کی ایک لیڈر مسرز پونم مل، جنہوں نے ٹینکاسی میونسپلٹی کے وارڈ نمبر 8 سے کامیابی حاصل کی، حجاب پوش ریٹرننگ آفیسر فرزانہ میڈم سے اپنا انتخابی سرٹیفکیٹ حاصل کیا ہے۔ خیال رہے کہ پولنگ کے دوران بی جے پی کے ایک پولنگ ایجنٹ نے تروپور کے پولنگ اسٹیشن میں داخل ہونے پر ایک مسلم خاتون سے حجاب اتارنے پر زور دیا تھا۔ بی جے پی سے جیتنے والی خاتون کو ایک حجاب پوش مسلم خاتون عہدیدار نے انتخابی سرٹیفکیٹ دیا تو ایک سماجی کارکن ٹی عزیز لطف اللہ نے اپنے تبصرہ میں کہا ’’کیسا شاعرانہ انصاف ہے!‘‘
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 6 تا 12 مارچ 2022