حجاب: عورت کے لیے ڈھال اور خالق کائنات کا تحفہ
برادران وطن کو پردہ کی حکمت اور اسلامی تعلیمات سے روشناس کرنے کی ضرورت
ڈاکٹر ساجد عباسی،حیدرآباد
ڈاسلام ایک ایسا پاکیزہ معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے جس میں ایک ایک فرد کا تزکیہ ہو سکے جس کے نتیجے میں انسان دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو سکے۔ معاشرہ خاندان کی اکائیوں سے مرکب ہے۔ دنیا میں الہامی ہدایات سے آزاد معاشرے افراط وتفریط کا شکار رہتے ہیں۔ ایک انتہا یہ ہے کہ تعلقِ مرد وزن کو نکاح کے حصار سے آزاد رکھا گیا اور دوسری انتہا یہ ہے کہ تعلق زن و شو ہی کو وجہ شر و فساد مان لیا گیا اور اس کو روحانیت کے مغائر سمجھ لیا گیا ہے۔ کچھ معاشروں میں عورت کے لیے نکاح کا بندھن لاینفک بنا دیا گیا جس کو کسی فریق کی موت ہی ختم کر سکتی ہے، چاہے اس رشتے میں کتنی ہی نامناسبت ہو اوپر سے بیوہ عورت کو دوسری شادی کے حق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ مغربی معاشروں میں چھوٹی چھوٹی اور مہمل وجوہات کی بنا پر طلاق دی جانے لگی۔ اکثر معاشروں میں زنا بالجبر ہی کو جرم سمجھا جا رہا ہے اور زنا بالرضا کوئی جرم نہیں ہے بلکہ اس کے گناہ ہونے کا احساس بھی جاتا رہا۔ آج کل تو Live in relationships کو قانوناً جائز بنا دیا گیا ہے۔
اسلام دینِ فطرت ہے اور اس دین کو وضع کرنے والا خود خالقِ کائنات ہے جو انسانوں کی فطرت کو اور ان کی کمزوریوں کو خوب اچھی طرح جانتا ہے اور اسی کو حق پہنچتا ہے کہ وہ انسانوں کو متوازن طریقِ زندگی عطا کرے جس پر چل کر انسان اس مقصد کو حاصل کرے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔
خاندان کا استحکام اس بات پر منحصر ہے کہ وہ ایک عورت اور مرد کے درمیاں عہد وپیماں سے وقوع پذیر ہو۔ اگر عورت اور مرد کے درمیان نکاح کے بجائے صرف وقتی جذبات کی بنیاد پر رشتہ قائم ہوجائے تو اس سے ایک خاندان کبھی وجود میں نہیں آ سکتا۔ نکاح کے بغیر رشتہ ریت پر تعمیر ہونے والے قصر کی طرح ہو گا جو کبھی بھی بکھر سکتا ہے، اور اس ٹوٹے ہوئے قصر کا سارا ملبہ عورت پر گرتا ہے جو تاحیات اس کو ایسا زخم دے جاتا ہے کہ جس کی تلافی ممکن نہیں ہوتی۔ مغربی معاشرے میں ایسے رشتے جو نکاح کے عہد وپیمان سے آزاد ہوں ان کی بدولت ماؤوں کو Single mothers کے طور پر ساری زندگی تنہا گزارنی پڑتی ہے جس میں اسے ماں کے ساتھ ساتھ باپ کا بھی رول ادا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے بچے باپ کی شفقت سے محروم ہو جاتے ہیں اور ان کی ذہنی نشو ونما ادھوری رہ جاتی ہے، اور ایسے بچے احساسِ محرومی کے ساتھ بڑے ہوتے ہیں اور اکثر جرائم پیشہ بن جاتے ہیں۔
اسلام چاہتا ہے کہ ایک بچے کو ماں باپ اور دونوں طرف کے رشتے داروں سے بھر پور خاندان ملے جس میں وہ باعزت فرد کی حیثیت سے پروان چڑھے۔ اگر بچے کو اپنے والد کا پتہ نہ ہو اور اس کی پیدائش حصارِ نکاح سے باہر ہو تو وہ ساری زندگی ایک باعزت شخصیت بننے سے محروم ہو جائے گا۔
اسلام یہ بھی چاہتا ہے نکاح کے بعد شوہر اور بیوی کے درمیان باہم اعتماد قائم رہے تاکہ ازدواجی زندگی میں اطمینانِ قلب کی نعمت میسر ہو۔ اگر دونوں میں سے ایک یا دو بے راہروی کا شکار ہوں تو ایسا گھر شکوک و شبہات، بحث و تکرار اور گھریلو تشدد سے جہنم کا نمونہ بن جاتا ہے۔
اسلام ایک دینِ فطرت ہے اور ایسے معاشرتی حدود قائم کرتا ہے جس کے نتیجے میں عورت کی عصمت وعفت کی مکمل حفاظت ہوتی ہے۔ وقتِ نکاح تک ایک لڑکی والد اور بھائی جیسے مضبوط محرم رشتوں کی حصار میں ہوتی ہے تاکہ کسی کو اس کی پاک دامنی کو متہم کرنے کی جسارت نہ ہو سکے۔ شادی کے بعد وہ نکاح کے مضبوط قصر میں ملکہ کی طرح باعزت زندگی گزارتی ہے اور نیک اولاد کی ولادت و تربیت کا ذریعہ بنتی ہے۔ اور عمر کے دورِ زوال میں اولاد کی خدمت اور حسنِ سلوک کے سایہ میں رہ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملتی ہے۔ چونکہ عورت ایک نسل کی افزائش اور اسکی تربیت کا ذریعہ ہوتی ہے اس لیے اسلام اس کو ہر طرح کی تہمتوں اور جنسی حملوں سے بچانے کا انتظام کرتا ہے تاکہ وہ نکاح کے محفوظ قلعے میں محفوظ رہ کر اپنے عظیم فرائض کو انجام دے سکے۔
نہ پردہ نہ تعلیم نئی ہو کہ پرانی
نسوانیتِ زن کا نگہبان ہے فقط مرد
ایک خاندان کی بنیاد رکھنے اور بچوں کی ولادت اور ان کی افزائش کے لیے ماں باپ کو بے پناہ قربانیاں دینی کرنی پڑتی ہیں۔ زندگی بھر ایک طویل عرصہ تک خاندانی ذمہ داریوں کو انجام دینے کے لیے ایک طاقتور محرک کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ محرک مرد و زن کے مابین وہ طاقتور صنفی جاذبیت ہے جو عام حیوانات کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ یہی جاذبیت ان کو طویل عرصے تک قربانیاں پیش کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ اس طاقتور صنفی میلان کو مرد اگر محض نفسانی خواہش پوری کرنے کے لیے خود غرضانہ طور پر استعمال کرے اور لطف اندوزی کے ساتھ کوئی ذمہ داری قبول نہ کرے اور ایک عورت کو بدنامی کی دہلیز پر ڈال کر راہِ فرار اختیار کرے تو اس سارے کھیل میں صد فیصد خسارے میں صرف عورت ہوتی ہے۔ اسلام عورت کو اس خسارے سے بچانے کے لیےحجاب کے ذریعے اس کی حفاظت کرتا ہے۔
مرد و زن کے تعلق کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح بنایا ہے کہ مرد کو فاعلانہ اور عورت کو منفعلانہ فطرت پر پیدا کیا ہے۔ عورت کو فطری طور پر مجسم حیا بنا کر پیدا کیا ہے اور اسے ایسی جسمانی ساخت سے مزین کیا ہے کہ مرد عورت کی طرف شدید رغبت رکھتا ہے۔ اسی رغبت کی خاطر وہ نکاح کے بعد ازدواجی زندگی میں نان نفقہ کی بھاری ذمہ داری کو قبول کرتا ہے اور اسے ساری زندگی نبھاتا ہے۔ اس شدید رغبت کو اگر اخلاقی حدود سے محدود نہ کیا گیا تو یہ جنسی توانائی ایک سیلاب کی طرح معاشرے کو تباہ کر دیتی ہے۔ اور اگر اس کو اخلاقی حدود سے منضبط کر دیا جائے تو یہ توانائی ایک صحتمند اور صالح معاشرہ کو جنم دیتی ہے۔ مرد کے اندر اس کے لیے جو طاقتور محرک درکار ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے عورت کو فطری طور پر جسمانی زینت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ مزید خارجی زینت اس کی قدرتی زینت کو دوبالا کر دیتی ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ عورت کی خوبصورتی ونزاکت پر شعرا نے بے انتہا سخن نوازی کی ہے اور قصیدوں کے انبار لگا دیے ہیں لیکن مرد کے حسن پر کوئی کلام کسی ادب میں نہیں ملتا۔
فلسفہ حجاب میں بنیادی نکتہ اسی زینتِ زن کا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے عورت کو مزین کیا ہے۔ اسی زینتِ زن کے اظہار میں حدود اللہ سے تجاوز دراصل اس فتنہ کی وہ بنیاد ہے جس میں ایک عورت بے شمار مردوں کو مبتلا کر دیتی ہے اور انکا ذوقِ نظر بڑھا دیتی ہے۔
بڑھ جاتا ہے جب ذوقِ نظر اپنی حدوں سے
ہو جاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر
جہاں تک غضِ بصر اور شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم ہے اس میں سب پہلے خطاب مردوں سے ہے اور پھر عورتوں سے، اور اس امر میں مرد و زن دونوں یکساں ہیں۔ عورتوں کے لیے جو اضافہ احکام ہیں وہ اسی زینت سے متعلق ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر عورت کو عطا فرمایا ہے۔
اسی فلسفہ حجاب کو قرآن میں بصراحت پیش کیا گیا ہے۔
اے نبیؐ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر ہے۔ (سورۃ النور:۳۰)
اس آیت میں مردوں سے پہلے خطاب کیا گیا ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں اور اپنے آپ پر قابور کھیں۔ یہ اس لیے ہے کہ جنسی بے راہروی میں اقدام مردوں کی طرف سے ہی ہوتا ہے۔ اس کے معاً بعد عورتوں سے خطاب ہے:
اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناو سنگھار نہ دکھائیں بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔ وہ اپنا بناو سنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں کے سامنے: شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں، اپنے مملوک، وہ زیرِ دست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔ وہ اپنے پاوں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے۔ اے مومنو، تم سب مِل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاو گے۔ (سورۃ النور:۳۰)
اس زینت کے اظہار میں کچھ استثنائی رشتے درج کیے گئے ہیں جن سے کبھی نکاح نہیں کیا جا سکتا، جن کو محرم رشتے کہا جاتا ہے۔ یہاں ستر اور حجاب کا فرق کھل کر سامنے آتا ہے: ستر جسم کے وہ حصے ہیں جو گھر کے اندر محرم رشتہ داروں سے بھی چھپائے جانے چاہیے اور حجاب میں جسم کے وہ حصے ہیں جو غیر محرم مردوں سے چھپانا چاہیے۔ ان میں ہاتھ، پیر اور آنکھوں سے ماسوا سارا جسم چھپانا مقصود ہے۔ کچھ فقہا نے چہرے کو (یعنی چہرہ بعیر نقاب) حجاب سے مستثنٰی کیا ہے لیکن فقہا کی اکثریت نے چہرے کو بھی حجاب میں شامل کیا ہے اس لیے کہ عورت کی زینت کا اہم ترین حصہ چہرہ ہی ہوتا ہے جو غیر محرم مردوں کے لیے جاذبیت اور فتنہ میں پڑنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ احادیث کی کثرت سے جس مزاجِ شریعت کا پتہ چلتا ہے وہ یہ ہے کہ عورت کا چہرہ بھی حجاب میں شامل ہے جو مردوں کی بد نظری اور پھر ان کے فتنہ میں پڑنے کا قوی محرک بنتا ہے۔
سورۃ الاحزاب میں حجاب کو مزید واضح کردیا گیا ہے:
اے نبیؐ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔(سورۃ الاحزاب:۵۹)
اس آیت میں فرمایا گیا کہ حجاب کا ایک مقصد یہ ہے کہ وہ لوگ جو عورتوں کی زینت دیکھنے کے شوقین ہیں اور پھر زنا کے امکانات کو تلاش کرتے ہیں ایسے لوگوں کی شرارتوں سے پاکدامن خواتین محفوظ رہیں ۔ سورۃ النور کی آیت ۳۰ سے حجاب کی علت یہ معلوم ہوتی ہے کہ عورتیں اپنی فطری زینت اور زیبائش کو چھپائیں تاکہ ایک خالی الذہن فرد بھی ان کی طرف متوجہ نہ ہو اور ان کے افکار پراگندہ نہ ہوں۔
حالیہ وقت میں جبکہ اسلام دشمن عناصر ملک میں اسکولوں اور کالجوں میں مسلم طالبات کو حجاب اختیار کرنے کے بنیادی حق سے محروم کرکے تعلیمی حق سے بھی محروم کرنا چاہتے ہیں ایسے حالات میں ہمیں اس موضوع پر غیر مسلموں سے کھل کر بحث کرنی چاہیے۔ اسلام میں حجاب کی اصل غایت، اس کے فلسفے، اس کی حکمت وعلت اور حجاب کے بے شمار فائدوں پر کھل کر بات کرنی چاہیے۔ آج دشمن حجاب کے مسئلہ میں الجھا کر مسلم طالبات کو ہراساں کر رہا ہے لیکن دراصل یہ موقع ہے کہ ہم پردہ کے احکام اور اسلامی معاشرت کو زیرِ بحث لا کر اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کریں۔ ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کے دوران پورا اسلام ہی زیرِ بحث آئے گا۔ اکثر یہ سوال پیدا ہوتا کہ بحیثیت داعی ہم اسلام کو کیسے موضوعِ بحث بنائیں۔ آج خود بخود اسلام ہمارے دشمنوں کی بدولت موضوعِ بحث بن چکا ہے۔ ایسے حالات میں ہماری خاموشی مزید غلط فہمیوں کو جنم دے گی جس سے دشمن اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب ہو جائیں گے۔ آج کے اس چیلنج میں دعوت الی اللہ کے کام کے زبردست مواقع پیدا ہو چکے ہیں۔
یہاں کے فائدے اور بے پردگی کے نقصانات بیان کیے جا رہے ہیں جن کو ہم اپنے ہم وطنوں کے ساتھ زیر بحث لائیں:
۱) حجاب، مرد و زن کے آزادانہ اختلاط کو روکنے اور ناجائز تعلقات کے پیدا ہونے کے عوامل کا سدباب کرتا ہے جو انسانی معاشرے کے لیے تباہ کن ہے۔
۲) حجاب سے ایک عورت مردوں کی بد نظری سے بچ جاتی ہے جس کا اگلا قدم شر پسند مردوں کی طرف سے چھیڑ چھاڑ کی صورت میں ہوتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں فرمایا کہ عورتیں حجاب کا اہتمام کریں تاکہ وہ پہچان لی جائیں کہ وہ پاکدامنی کو پسند کرتی ہیں اس لیے ایسی باحجاب خواتین کی خود اللہ تعالیٰ حفاظت فرماتا ہے۔
۳) بے حجابی کی صورت میں ناجائز رازدارانہ روابط پیدا ہوتے ہیں جو بالآخر زار نہیں رہتے اور خاندانی سکون کو برباد کر دیتے ہیں اور اکثر و بیشتر طلاق تک لے جاتے ہیں۔ طلاق کی صورت میں ایک خاندان بکھر جاتا ہے جس کی وجہ سے سب سے زیادہ خاتون اور بچے متاثر ہوتے ہیں۔
۴) بے پردگی سے ناجائز تعلقات لازماً پیدا ہوتے ہیں اور اس سے نفرتیں بڑھتی ہیں جو بسا اوقات انتقامی کارروائی اور قتل کے واردات تک لے جاتی ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو [NCRB] کی رپورٹ کے مطابق قتل کی تمام وارداتوں میں سب سے زیادہ سبب ناجائز تعلقات ہیں۔ یہ قتل کی وارداتیں مختلف مقامات پر ۱۰ فیصد سے ۴۰ فیصد تک واقع ہوئی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حجاب کتنی بڑی نعمت ہے کہ جس سے مسلم معاشرے میں باحجاب خواتین اس قتل و غارتگری سے محفوظ ہیں۔ شیاطین انس چاہتے ہیں کہ مسلم معاشرہ بھی اس تباہی سے دوچار ہو۔
۵) ایک سروے کے مطابق ملک میں ۵۵ فیصد شادی شدہ خواتین ناجائز تعلقات قائم کرلیتی ہیں۔ آج ہمارا ملک مغرب کے راستے پر چل پڑا ہے جو تباہی کا راستہ ہے۔
۶) مخلوط تعلیم گاہوں میں طلبا و طالبات کی توجہات تعلیم سے ہٹ جاتی ہیں اور تعلیم کا معیار گھٹ جاتا ہے۔ ان کے درمیان خلوت میں ملاقاتیں ہوتیں ہیں اور پھر ناجائز تعلقات قائم ہوتے ہیں نتیجے میں لڑکیاں شادی سے پہلے ہی حاملہ ہوجاتی ہیں جو اسقاطِ حمل کا باعث بن جاتی ہیں۔ اس سے لڑکیوں کی ساکھ ہمیشہ کے لیے برباد ہوتی ہے اور صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔
۷) حجاب عورت کی عصمت وعفّت کی حفاظت کا واحد ذریعہ ہے جو خالقِ کائنات کی طرف سے عورت کے لیے ایک تحفہ اور ڈھال ہے۔ حجاب میں عورت کی عزت و وقار کے جوہر کی حفاظت ہوتی ہے۔ یہ وہ جوہر ہے جس سے آزاد نسواں کی تحریک نا آشناہے۔
آغوشِ صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے
وہ قطرہ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 6 تا 12 مارچ 2022