حبیبہ احمد عبد العزیز ؒ: میدانِ صحافت سے جامِ شہادت تک
عمّارہ رضوان،
نئی دلی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ
’’میں اپنے رحیم وکریم رب سے صرف دو چیزوں کی طلب گار ہوں۔ مجھے اس ذات سے قوی امید ہے کہ وہ میری تمناؤں کو حقیت کا روپ بخشے گا۔ میری پہلی خواہش ہے کہ میں اپنے ملک مصر مستقل طور پر منتقل ہو جاؤں اور دوسری اور آخری خواہش ہے کہ میری جان اسی کے کلمہ کی بلندی میں کام آ جائے اور میں اللہ کے راستے میں شہید ہو جاؤں۔‘‘
یہ الفاظ جو آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں، جبیبہ احمد عبد العزیز ؒ نے اپنی یوم پیدائش کے موقع پر اپنی فیس بک کی وال پر 22، نومبر 2012 کو لکھے تھے۔ حبیبہ جس نے اپنے رب کو محبوب بنا لیا تھا اس نے اپنی منزل شعور کی آنکھیں کھولتے ہی متعین کرلی تھی۔ شہادت کے دن وہ روزے سے تھی۔ رابعہ العدویہ کے میدان میں ’’الجزیرۃ مباشر‘‘ کے لیے براہ راست رپورٹنگ کی ذمّہ داری اس کے سر تھی۔ وہ ایک طرف اپنے فیس بک پیج کے ذریعے لائیو منظرنامہ پوری دنیا کو بھیجتی تھی تو دوسری طرف ’’الجزیرۃ مباشر‘‘ کا ایک کیمرہ بھی اس کے ہاتھ میں ہوتا تھا، رابعہ العدویہ کے میدان میں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہوتا تھا جن کے ہاتھوں میں ان کے مطالبات کی تختیاں ہوتی تھیں تو اسی میں فلک شگاف نعروں کی گونج بھی اور بار بار اسٹیج سے اس بات کی یاد دہانی بھی کہ ’’ہمارا دھرنا پُر اَمن تھا اور پر امن رہے گا، ہمارے پُرامن مظاہرے بندوق کی گولیوں پر بھاری ہیں۔‘‘
13؍ اگست 2013 کی شام جب حبیبہ کی ایک سہیلی نے افطار کی دعوت دی اس وقت حبیبہ اور ان کی سہیلیوں نے شوال کے روزے رکھے تھے جب قاہرہ کے قلب میں واقع رابعہ العدویہ کا میدان تکبیر وتہلیل سے ایک الگ طرح کا منظر پیش کررہا تھا اس وقت بھی حبیبہ کے ایک کالر میں مائک لگا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ میں اسٹینڈ کے ساتھ ایک کیمرہ۔ حبیبہ نے سورج غروب ہوتے وقت اپنے کیمرے سے ان کمسن بچیوں اور کالج کی طالبات کی تصویر کشی کرنی شروع کی جن میں سے بعض تلاوت قرآن مجید میں مشغول تھیں اور بعض امام حسن البنا شہید ؒ کی مرتب کردہ ’’ماثورات‘‘ کا ورد کر رہی تھیں۔ سہیلی کی اس دعوت کو حبیبہ نے خلوصِ دل سے قبول کیا اور وہیں پر سب کے ساتھ قالین پر بیٹھ گئی۔ حبیبہ نے کھجور کھا کر پانی کے چند گھونٹ اپنے حلق میں اتارے اور اپنی مہم پر روانہ ہو گئی، سہیلی نے ایک بار پھر دامن پکڑ کر بٹھانے کی کوشش کی اور بہت اصرار پر بریڈ کا ایک ٹکڑا لیا اور یہ کہتے ہوئے چل دی ، کہ’’باقی افطار ان شاء اللہ جنت میں‘‘۔
جبیبہ اپنے والد احمد عبد العزیز کی بہت چہیتی تھی، احمد عبد العزیز نے اپنی کنیت اپنے بیٹے مصعب سے منسوب کرنے کے بجائے عربوں کی روایت کے برخلاف ’’ابو حبیبہ‘‘ رکھا۔ وہ حبیبہ کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’14؍ اگست کی تاریخ مصر کے ماتھے پر کلنک ہے جسے کسی طرح مٹایا نہیں جا سکتا۔ اس دن کتنی سعید روحیں ظلم وجبر کے سامنے سینہ تان کر کھڑی رہیں مگر ظلم کو قبول نہیں کیا۔ اسی دن میری پیاری بیٹی حبیبہ نے بھی اپنی مراد پالی۔ وہ تو شہادت کی مشتاق تھی، ہاں شہادت کی تمنا اس کے دل میں تھی تبھی تو وہ اپنی والدہ کو امارات میں چھوڑ کر قاہرہ ایرپورٹ سے سیدھے رابعہ العدویہ کے میدان میں پہنچی تھی۔ میدان رابعہ ہی حبیبہ کے لیے سب کچھ تھا۔ دبئی سے قاہرہ پہنچ کر اس نے اپنی رضاکارانہ خدمات میدان رابعہ کے میڈیا ڈپارٹمنٹ کو پیش کردی تھیں۔ اور گلف نیوز کے رپورٹر کی حیثیت سے ہر روز ایک جامع رپورٹ دبئی ارسال کیا کرتی تھی۔ میں نے کئی بار حبیبہ سے باصرار کہا کہ تم کئی دنوں سے میدان رابعہ میں ہی ہو تم ایسا کرو کہ فجر کے بعد آجایا کرو اور عشاء کی نماز پڑھ کر گھر چلی جایا کرو۔ مگر اسے میڈیا سیکشن کے خیمے میں رکے رہنے میں دل چسپی تھی۔ حالاں کہ میرا فلیٹ میدان رابعہ سے چند فرلانگ کے فاصلے پر تھا‘‘۔ احمد عبد العزیز میدان رابعہ کی اس تاریک رات کو یاد کرتے ہیں اور چند لمحوں کے لیے ان کی آنکھوں سے آنسو ڈھلک جاتے ہیں پھر وہ پورے اطمینان اور سکون سے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہیں ’’ہاں اس رات کو میں پوری رات رابعہ العدویہ ہی میں رہا۔ البتہ فجر سے قبل مجھے جسم میں تکلیف اور بخار کا احساس ہوا، میرے ساتھیوں نے مجھے کچھ گھنٹوں کے لیے زبردستی گھر لا کر چھوڑ دیا تاکہ میں کچھ دیر آرام کرلوں اور پھر تازہ دم ہو کر دھرنے میں شریک ہو سکوں۔ میں نے گھر پر آ کر فجر کی نماز پڑھی اور تھوڑی دیر سویا رہا کہ اچانک نیند اچاٹ ہوگئی۔ میں نے لیٹے لیٹے ٹی وی کا ریموٹ اٹھایا اور ’’الجزیرہ‘‘ کو آن کیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ الجزیرہ میدان رابعہ کو براہ راست نشر کر رہا ہے اور وہاں پر خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے، ہر طرف سے چیخ وپکار کی آوازیں آ رہی ہیں۔ میدان کے ہر کونے سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ میرے دل نے اسی وقت آواز دی کہ حبیبہ نے شہادت کا مرتبہ پالیا ہے۔ کیوں کہ مجھے جہاں حبیبہ کی ان تمناؤں کا علم تھا وہیں مجھے اس جگہ کابھی علم تھا جہاں سے حبیبہ اپنے مشن کو انجام دے رہی تھی ۔ میں نے فوراً اپنی کار نکالی اور میدان کی طرف بہت تیزی میں ڈرائیو کرنے لگا مگر میدان شروع ہونے سے قبل ہی ہر طرف بیری کیڈ کھڑے کر دیے گئے تھے اور وہاں تک پہنچنے والے تمام راستے بند کردیے گئے تھے۔ میں نے ایک طرف کا ر کھڑی کر کے میدان کی طرف دوڑ لگا دی۔ جب میں میدان کے وسط میں واقع مسجد میں پہنچا تو اس وقت تک میں گولیوں اور بارود کے دھوئیں سے نیم بے ہوشی کی کیفیت میں پہنچ چکا تھا، وہاں پر موجود طبی رضاکاروں نے مجھے فوری طبی امداد فراہم کی جس سے میں کسی قد ر بہتر ہوا۔ یہ بات آج تک میری سمجھ میں نہیں آئی کہ اسی کیفیت میں میں بیٹھے بیٹھے گہری نیند میں کیسے چلا گیا جس کے بعد میں بہت ہی پرسکون ہوگیا؟ صبح سات بجے سے لے کر ساڑھے دس بجے تک میں برابر حبیبہ کے موبائل پر کال کرتا رہا کہ دبئی سے میری بیوی کا فون آیا اور اس نے حبیبہ کی شہادت کی خوش خبری سنائی۔ میں مسجد ہی میں سجدہ ِ تشکر بجا لایا اور میری زبان پر الحمدلله اور إنا لله وإنا إليه راجعون‘‘ كا ورد جاری ہوگیا۔
حبیبہ نے 22؍ نومبر 1986 کو قاہرہ میں آنکھیں کھولیں۔ ابتدائی تعلیم قاہرہ اور اسلام آباد کے اسکولوں میں ہوئی جہاں احمد عبد العزیز اپنی صحافتی ذمہ داریوں کی وجہ سے مقیم رہے۔ جب یہ خانوادہ کسبِ معاش اور پیشہ ورانہ ضرورت کے تحت دبئی منتقل ہوا تو حبیبہ بھی اپنے والدین کے ساتھ متحدہ عرب امارات منتقل ہوگئی اور انٹرمیڈیٹ کی تکمیل کے بعد شارجہ میں واقع امریکن یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا جہاں سے حبیبہ نے میڈیا اور کمیونیکیشن میں گریجویشن کیا۔ تعلیم کے دوران ہی حبیبہ نے مختلف بلاگس اور نیوز پورٹل کے لیے اپنے تجزیے اور کالمس لکھنے شروع کر دیے لیکن اس کے محبوب موضوعات اقصیٰ، القدس اور مسئلہ فلسطین سے متعلق ہوتے تھے جسے وہ خون جگر سے لکھتی تھی۔ عربی جہاں حبیبہ کی مادری زبان تھی تو انگریزی اس کے میدان صحافت کی نکیل۔ اس لیے وہ دونوں زبانوں میں تسلسل کے ساتھ کالمس لکھتی تھی۔ 2008 میں جب صیہونی غاصبوں نے غزہ پر بمباری شروع کردی اور نہتے فلسطینیوں سے اپنے ہاتھ رنگنے لگے اس وقت حبیبہ نے غزہ کی مدد کا بیڑہ اٹھایا اور اپنے قلم سے لگاتار اسرائیلی جارحیت کا نقاب اتارنے لگیں اور دوسری طرف عرب طلبہ و طالبا ت میں غزّہ کی بازآبادکاری کی مہم بھی چلانے لگیں، لیکن امتحان سر پر ہونے کی وجہ سے وہ خود غزّہ نہیں جاسکیں۔ اپنے ایک کالم میں حبیبہ نے اس وقت کے مصری ڈکٹیٹر حسنی مبارک پر اپنے غم وغصہ کا اظہارکیا جو رفح بارڈر نہ کھول کر بالواسطہ طور پر صیہونی حکومت کی مدد کر رہے تھے۔ غزّہ کی بازآبادکاری کے لیے حبیبہ نے اپنے انگریز پروفیسر سے جب تعاون مانگا تو اس گورے پروفیسر نے چٹکی لی کہ کس بنیاد پر میں تمہارے ساتھ تعاون کروں؟ ایسے میں حبیبہ کا برجستہ جواب تھا کہ ’’اگر آپ انسانیت کی بنیاد پر مدد کرنا چاہتے ہیں تو ہم آپ کے تعاون کوقبول کریں گے ورنہ نہیں کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اسرائیل کی موجودہ کارروائی سراسر جارحیت پر مبنی ہے؟ ‘‘ گورے پروفیسر کے پاس حبیبہ کے اس مکالمے کا کوئی ردّ نہیں تھا لہٰذا اس نے بھی ڈونیشن دینے میں اپنی عافیت سمجھی ۔
امریکن یونیورسٹی سے ڈگری لینے کے بعد حبیبہ نے بحیثیت رپورٹر گلف نیوز جوائن کرلیا جو متحدہ عرب امارات کا انگریزی زبان میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا روزنامہ ہے۔ لیکن اس اخبار میں بھی حبیبہ نے اسی گوشہ کو منتخب کیا جو اس کے مشن سے قریب تر تھا۔ اس کی کوشش ہوتی تھی کہ اخبارات کے کالمس عوام کی حقیقی آواز کی ترجمانی کریں۔ جب تیونس میں عوامی انقلاب کی نوید سنائی دی اس وقت حبیبہ نے گلف نیوز کے ایڈیٹر سے درخواست کی کہ اسے رپورٹنگ کے لئے تیونس بھیجا جائے مگر ایڈیٹر نے نفی میں ہی اخبار کی مصلحت سمجھی۔ اسی طرح دمشق اور طرابلس کی براہ راست رپورٹنگ کے لئے بھی اجازت چاہی مگر اس بار بھی حبیبہ کی خواہش دَم توڑ گئی۔ مگر جب مصر میں حسنی مبارک کے خلاف عوام سڑکوں پر اتر آئے تو ایک بار پھر حبیبہ نے اپنی درخواست بہت پرزور انداز میں پیش کی مگر گلف نیوز انتظامیہ نے براہ راست مراسلت کے لیے حبیبہ کو نامزد نہیں کیا بلکہ مصری اخبارات کے حوالوں سے خبروں کے انتخاب کی ذمہ داری دی۔ آخرکار حبیبہ نے ایک ماہ کی ذاتی چھٹی لی اور رابعہ العدویہ کے لیے رخت سفر باندھا،، اتفاق ایسا ہوا کہ ایک طرف گلف نیوز اور دیگر اداروں کی رپورٹنگ کے لئے حبیبہ دبئی سے قاہرہ کی فلائٹ پکڑ رہی تھی تو دوسری طرف حبیبہ کے والد مصر کو اسلامی بنیادوں پر ایک جمہوری رفاہی مملکت بنانے کے لئے اپنی کمپنی سے چھٹی لے کر ڈیڑھ سال قبل قاہرہ منتقل ہوچکے تھے جو بعد میں صدر مرسی کے قصر اتحادیہ میں منتقل ہونے کے بعد ان کے میڈیا ایڈوائزر بنے۔کالج کے زمانے میں حبیبہ اپنے والد کی منشاء کے علی الرغم اخوان المسلمون کی شدید ناقد تھیں۔ حبیبہ کی سوچی سمجھی رائے تھی کہ اخوان المسلمون کو ابھی مصرکے انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہیے جب تک کہ مصری سرزمین پر جمہوری قدروں کی آبیاری نہ ہوجائے اور جمہوریت کی جڑیں مضبوط نہ ہوجائیں۔ لیکن جب صدارتی الیکشن کے دوسرے مرحلے میں مرسی کے سامنے احمد شفیق ہی باقی رہ گئے تو اس وقت حبیبہ نے کہا کہ اب ہمیں مرسی کو قصر صدارت تک پہنچانے کے لیے جی توڑ کوشش کرنی ہوگی کیوں کہ شفیق کے صدر بننے کی صورت میں صرف غلاف بدلے گا اور اندورن کا معاملہ علی حالہ رہے گا۔ اس کے بعد تو حبیبہ نے اپنی فیس بک پروفائل پر صدر مرسی کے فوٹو لگا کر اس بات کا اعلان کر دیا کہ اب تحویلِ قبلہ ہوچکا ہے ۔
***