جی ایس ٹی کے ذریعے ریاستوں کو مرکز کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا

وزیر اعظم مودی نے یکم جولائی ۲۰۱۷ کی نیم شب کو گڈس اینڈ سرویس ٹیکس (جی ایس ٹی) کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمام ریاستیں موتیوں کے ہار کی طرح ’’کواپریٹیو وفاقیت‘‘ کو معاشی انضمام کی روح کی حیثیت سے برت رہی ہیں۔ مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ریاستی موتیوں کا ہار اب مرکز کے گردن میں بندھ گیا ہے۔ جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد ریاستوں کو آزادی سے ذرائع وسائل کے حصول کی قوت سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ اب ان کو محض ریاستی سیل ٹیکسوں پر قناعت کرتے ہوئے اکثر مالی ضروریات کے لیے مرکز کے رحم وکرم پر ہی گزارہ کرنا پڑے گا۔ زیادہ تر ریاستیں اپنے ٹیکسوں اور مرکزی ٹیکسوں کو ملاکر اپنے ذرائع وسائل سے وصول کرتی ہیں۔ امیر ریاستیں مثلاً مہاراشٹرا، ٹامل ناڈو، گجرات، دہلی، کرناٹک ، پنجاب ، ہریانہ اور کیرالہ کی ۷۰ فیصد آمدنی ان کی ریاستوں کے سرحد کے اندر سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ تقریباً نصف مال اور خدمات کے فروخت سے حاصل ہوتے ہیں۔ بقیہ نصف پٹرول، بجلی، الکحل اور زمین کی رجسٹریشن کی فیس اور اکسائز ڈیوٹی سے حاصل ہوتا ہے۔ جی ایس ٹی سے قبل ریاستیں اپنی ریاستی اسمبلی کے صلاح ومشورے سے آزادی کے ساتھ سیل ٹیکس وصول کرتی تھیں۔ اگر ریاست پر کوئی آسمانی آفت نازل ہوتی تو وہ الگ سے اپنی ضرورت کی تکمیل کے لیے اپنے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے مال اور خدمات پر سیل ٹیکس کی شرح بڑھا دیتی تھیں مگر اب اس وہ اختیار سے محروم کردی گئی ہیں۔ جی ایس ٹی کے نفاذ کے وقت ریاستوں کو بتایا گیا تھا کہ معاشی بڑھوتری بہت زور دار ہوگی اس لیے ریاستوں کو مالی قوت سے دستبردار کردیا گیا لیکن ابھی تک بڑھوتری وجود میں نہیں آئی۔ ملک میں اکانومک ایفشینسی بھی نظر نہیں آتی۔ جی ایس ٹی کے تحت قانوناً ریاستیں اپنی ریاست میں جمع کیے گئے ٹیکس کے حصہ میں شریک ہیں اور مرکز کے بھروسہ پر بیٹھی ہیں کہ وہ ریاستوں کو وقت بوقت یہ فنڈ دے گا۔ جب جی ایس ٹی لاگو ہوا تو ریاستوں کو یقین دلایا گیا کہ سالانہ ٹیکس سے آمدنی کا حصہ انہیں بھی پانچ سالوں کے لیے دیا جائے گا مگر آج کورونا وائرس کے قہر کے اثر سے مرکز اپنے تمام وعدوں کو فراموش کر چکا ہے۔ یہ ریاستوں کے لیے بڑی مصیبت ہے کہ مرکز وہ رقم ادا نہیں کر رہا ہے اور نہ ہی قہر سے بچنے اور دفاع کے لیے دیگر ذرائع سے ہی مدد کر رہا ہے۔ اس طرح مرکزی حکومت نہ تو ریاستوں کو اس کا جائز بقایا دے رہی ہے اور نہ ہی ریاستوں کو یہ اختیار دے رہی ہے کہ وہ سیل ٹیکس سے اپنی آمدنی بڑھا سکیں۔ تو آخر ریاستیں کس طرح صحت سے وابستہ اتنی بڑی مصیبت سے بغیر مالیہ کے لڑ سکیں گی؟ اب متوقع ذریعہ پٹرولیم پروڈکٹ کی فروخت، الکحل، لاٹری کی ٹکٹیں، بجلی، لینڈ اور وہیکل رجسٹریشن وغیرہ ہیں۔ اس شدید تالہ بندی میں پٹرولیم پروڈکٹ، بجلی، زمین اور موٹر وہیکلس کے کام مکمل طور سے ٹھپ پڑے ہوئے ہیں اس لیے تمام ریاستوں کے سامنے شراب کی فروخت سے رقم حاصل کرنا ہی ایک واحد ذریعہ بچ گیا ہے۔ واضح رہے کہ امیر ریاستوں میں شراب سے ریاست کی ایک تہائی آمدنی ہو جاتی ہے۔ تالہ بندی میں یہ فکر بھی پروان چڑھائی جا رہی ہے کہ شہریوں کو شراب پینے کی خوب ترغیب دی جائے تاکہ لوگوں کی شراب خوری کی عادت سے زیادہ آمدنی ہو۔ مرکز کی حرکت کی وجہ سے ریاستیں شراب کی آمدنی پر بہت زیادہ ہی بھروسہ کر رہی ہیں حالاں کہ اس کی وجہ سے صحت کا بحران بھی ہے۔ اس کے علاوہ ام الخبائث ہونے کی وجہ سے اخلاقی، سماجی، انتظامی اور نفسیاتی تباہی بھی آتی ہے۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ نے بھی ریاستوں کو سماجی دوری کی پریشانی کی وجہ سے آن لائن شراب فروخت کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
ایسے میں کورونا وائرس کے قہر سے نبرد آزما ہونے کے لیے ریاستیں دوسرے ذرائع سے قرض بھی نہیں لے سکتی ہیں۔ اس کے لیے اسے مرکز سے اجازت لینی ہوگی اور یہ بھی واضح کرنا ہوگا کہ وہ رقم کتنی ہے؟ اس کا مد کون سا ہے؟ اس طرح گھوم پھر کر ریاستیں مرکز پر ہی انحصار کریں گی تاکہ بازار سے فنڈ حاصل کریں اور پھر مرکز ہی ریاستوں کو فنڈ دے۔ جی ایس ٹی کے نفاذ کے پہلے ریاستیں سیل ٹیکسوں سے جمع شدہ اپنا فنڈ رکھتی تھیں اور اس کے لیے انہیں مرکز پر منحصر نہیں رہنا پڑتا تھا۔
اب کورونا وائرس سے جنگ ریاستوں میں مقامی طور سے الگ الگ طریقے سے لڑی جارہی ہے۔ جن پر مرکز کے حکم کا اثر کم ہی ہوتا ہے اور ایسے ذرائع وسائل کی ضرورت پڑ رہی ہے جسے مقامی طور سے ہی حل کیا جا سکتا ہو۔ جو مرکزی حکومت کے بے عقلی والے شور شرابے پر تکیہ کر کے نہ ہو۔ مرکز کی طرف سے ایسے بحران کے وقت ایسی مالی ذمہ داری دی جانی چاہیے اور اس پر مرکز بری طرح ناکام ہے۔
سابق وزیر مالیات ارون جیٹلی کا گھسا پٹا جملہ۔
کو اپریٹیو وفاق نہ تو کو اپریٹیو ہے اور نہ ہی اس بحران کے موقع پر وفاقیت ہے۔ ایک قوم اور ایک ٹیکس کا خیال ۲۰۱۵ سے ہی ایسے معاشی اور سیاسی طور سے متفرق بھارت میں بری طرح سے ناکام ہے۔ حکم راں جماعت اور ان کے ہم خیال افراد ہر پانچ سالوں میں بدلتے رہتے ہیں جی ایس ٹی ریجیم کو معاشی اور سیاسی شراکت کے ساتھ مرکز اور ریاستوں میں باندھ کر رکھا نہیں جاسکتا کیوں کہ جمہوری طور سے منتخب ریاستی حکومتوں کو بغیر مالی قوت کے حکومت کرنا مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ ۵ ریاستوں کا اکاونٹس ملک کا نصف جی ایس ٹی جمع کرتا ہے۔ ان بڑی ریاستوں کو جی ایس ٹی کے نفاذ میں دیگر ریاستوں کے جائز حق کے لیے آواز اٹھانا چاہیے۔
***

 

سابق وزیر مالیات ارون جیٹلی کا گھسا پٹا جملہ۔
کو اپریٹیو وفاق نہ تو کو اپریٹیو ہے اور نہ ہی اس بحران کے موقع پر وفاقیت ہے۔