’جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں‘
ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہی حکومت کی نظر میں اصل جرم ہے...!
حسن آزاد
فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کے ارکان کے خلاف یواے پی اےکے تحت مقدمہ درج
مسلم تنظیموں کے وفود کا دعویٰ، تریپورہ فساد میں حکومت بھی ملوث، این ایچ آرسی نے طلب کی رپورٹ
جب تریپورہ میں وکلاء پر مشتمل فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے فساد زدہ علاقے کا دورہ کیا تو وہ ریاستی حکومت کو ایک آنکھ نہ بھایا۔ چند وکلاء کو ہراساں کیا جانے لگے اور ٹیم کے دو ارکان پرغیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ(UAPA) کے تحت مقدمہ بھی درج کرلیا گیا۔ دوسری طرف تریپورہ کے وزیراعلیٰ بِپلو کمار دیو نے مسلم تنظیموں کے نمائندوں سے ملاقات سے انکار کر کے جمہوریت کے لیے بدترین مثال قائم کی۔ جب کہ قومی حقوق انسانی کمیشن (NHRC) کی جانب سے تریپورہ تشدد پر کارروائی کی تفصیلی رپورٹ طلب کیے جانے کو نیک ’شگُون‘ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے فساد زدہ علاقوں کا دورہ کیا جہاں انہوں نے پایا کہ بنگلہ دیش میں ہندو اقلیتوں پر حملوں کے واقعات کے خلاف تریپورہ میں 51 مقامات پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور مسلمانوں کو نشانہ بنایاگیا۔ تقریباً بارہ مساجد میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ قرآن اور مذہبی کتابوں کو نذر آتش کیاگیا۔ گویا شرپسندوں کو نفرت و عداوت کی ٹریننگ دی جارہی ہو۔تاہم علاقائی لوگوں میں الفت و محبت، آپسی بھائی چارہ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کاماحول بھی دیکھا گیا۔ مسلم مِرر کی رپورٹ کے مطابق فیکٹ فائنڈنگ کی رپورٹ آٹھ مطالبات پر مشتمل ہے جس میں قصورواروں کو سخت سزا، ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں جانچ اور ناکارہ پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی شامل ہے۔ بجائے اس کے کہ تریپورہ حکومت فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی رپورٹ کو نوٹس میں لیتی اس نے ٹیم کے ارکان کو ہی ذہنی طور پریشان کرنا شروع کیا۔ جن دو ارکان پر یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیاگیا ہے ان میں سے ایک وکیل مکیش کشور بھی ہیں۔ مکیش کشور نے ہفت روزہ دعوت کو خاص بات چیت میں بتایا کہ وہ خود بھی حیران ہیں کہ ان کے خلاف مقدمہ کیوں درج کیا گیا ہے جب کہ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے انتظامیہ کو اعتماد میں رکھ کرہی تفتیشی کارروائی کو انجام دیا تھا اور فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں ان افسروں کی بھی ستائش کی گئی ہے جنہوں نے وکلاء کی ٹیم کی مدد کی تھی۔ مکیش کشور کاکہنا ہے کہ انہوں نے جو بھی کہا وہ ٹیم کا مشترکہ بیان تھا اور انہوں نے جو دیکھا اور سنا وہی بیان اور تحریر بھی کیا۔ گویا مکیش کشور کسی نامعلوم شاعر کی زبان بول رہے ہوں کہ
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں
میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں
ہفت روزہ دعوت کے نمائندہ نے ایڈووکیٹ مکیش کشور سے دریافت کیا کہ کیایہ بات حقیقت بر مبنی ہے کہ ان کے خلاف سوشل میڈیا پر جعلی خبریں شیئر کرنے کی وجہ سے مقدمہ درج کیا گیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر جو بھی مواد ڈالا ہے وہ پریس کانفرنس کے دوران کی گئیں گفتگوئیں ہیں۔مکیش کشور نے تفصیلی بات چیت میں یہ بھی بتایا کہ جس تنظیم کے تحت فیکٹ فائنڈنگ ٹیم تریپورہ کے دورے پر گئی تھی اسی کے میل آئی ڈی پر نوٹس آیا ہے جس میں کسی سے رابطے کا کوئی نمبر نہیں دیا گیا ہے۔ ایسے میں مقدمے کی اصل نوعیت سے واقف ہونا ذرا مشکل ہے۔ مکیش کشور نے ہفت روزہ دعوت سے بات کرتے ہوئے افسوس کااظہار کیا اور کہا کہ ابھی تو وکالت کے میدان انہوں نے قدم بھی نہیں جمایا تھا کہ اس طرح کا واقعہ پیش آیا، جو انتہائی تعجب خیز بھی ہے اور افسوسناک بھی۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تریپورہ میں جس سینہ زوری کے ساتھ وی ایچ پی کے غنڈوں نے امن و امان کے ماحول کو خراب کیا ہے اس سے کہیں زیادہ بے حسی کے ساتھ مرکزی و ریاستی حکومتوں کی خاموشی تشویش کا باعث ہے۔دوسری طرف جمہوریت کا چوتھا ستون کہے جانے والے ذرائع ابلاغ کی چشم پوشی بھی قابل گرفت ہے۔جہاں ایک طرف تریپورہ میں مسلم مخالف تشدد پر میڈیا اور حکومتیں خاموش رہیں وہیں سیکولرزم کا چولا اوڑھے ہوئے سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں نے یا تو سکوت اختیار کیا یا پھر محض ٹویٹ کر کے گویا اپنی ذمہ داری سے سبک دوشی اختیار کر لی۔
یہی وجہ ہے کئی مسلم تنظیموں کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے بھی تریپورہ کے فساد زدہ علاقہ کا دورہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ تریپورہ تشدد ریاست کی بی جے پی کی حکومت اور وشو ہندو پریشد کی مشترکہ سازش کاحصہ تھا ۔بنگلہ دیش میں درگا پوجا کے دوران ہوئے ہندو اقلیتوں پر حملے کے خلاف تریپورہ میں احتجاج کے بہانے باضابطہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ مسجدوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ مسلمانوں کے کاروبار کو تباہ کیاگیا۔ ان کے گھروں کو مسمار کیاگیا اور اس پر ستم یہ کہ نبی اکرمؐ کی شان میں گستاخی کی گئی۔
ایک رپورٹ کے مطابق جمعیۃ علماء ہند کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے اپنی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ تریپورہ میں کل12مساجد پر حملے ہوئے ہیں جن میں پانی ساگر کی مسجد بھی شامل ہے جس کے بارے میں وہاں کی پولیس نے دعوی کیا تھا کہ وہاں آتش زنی کی کوئی واردات نہیں ہوئی۔ جب کہ جمعیۃ علماء ہند کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کے پاس تمام تباہ شدہ مسجدوں کی تصاویر موجود ہیں۔
وہیں مختلف مسلم تنظیموں، جماعت اسلامی ہند، آل انڈیا ملی کونسل اور آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے رہنماؤں کے ایک وفد نے ریاستی حکومت اور وشو ہندو پریشد (VHP) کے درمیان تریپورہ میں حالیہ مسلم مخالف تشدد میں ملی بھگت کا الزام لگایا ہے۔
جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر پروفیسر محمد سلیم انجینئر نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ کا مسلم نمائندوں سے ملنے اور ان کے سوالات کا جواب دینے سے انکار ان کے مجرم ضمیر کی نشاندہی کرتا ہے۔ پروفیسر محمد سلیم انجینئر نے مزید کہا کہ دراصل تریپورہ میں نفرت پھیلانے والوں کے ذریعہ جو کچھ کیا گیا وہ اتر پردیش جیسی ریاستوں میں سیاسی فائدے اور ملک میں فرقہ وارانہ اور مذہبی پولرائزیشن کے سیاسی ایجنڈے کا حصہ تھا جہاں اسمبلی انتخابات تیزی سے قریب آرہے ہیں۔
بنگلہ دیش میں درگا پوجا کے دوران ہندوؤں پر حملوں کے حوالے سے میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر محمد سلیم انجینئر نے مزید کہا کہ خود مسلم رہنماؤں نے ہندوؤں کے خلاف تشدد کی مذمت کرتے ہوئے بنگلہ دیش کی حکومت سے اپیل کی تھی کہ وہ ہندو اقلیتوں کے جان و مال بشمول ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کرے۔ جبکہ بنگلہ دیش کا واقعہ کسی بھی طرح تریپورہ میں مسلم مخالف تشدد اور اس پر حکومت اور ریاستی حکومت کی پراسرار خاموشی کا جواز نہیں بنتا ہے۔
دلی کے پریس کلب آف انڈیا میں 2 نومبر 2021 کو سپریم کورٹ کے وکلاء اور سماجی کارکنوں نے تریپورہ میں مسلم مخالف تشدد پر تحقیقاتی رپورٹ جاری کی۔فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کا عنوان ’تریپورہ میں انسانیت پر حملہ‘ تھا۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے وکلاء اور سماجی کارکنوں نے انکشاف کیا کہ فرقہ وارنہ تشدد بھڑکانے میں یا تو شدت پسند ہندوتو تنظیموں اور تریپورہ میں برسراقتدار پارٹی بی جے پی کی ملی بھگت سازش تھی یا پھر حکومت نے شرپسند عناصر کی پشت پناہی کی اور دانستہ طور پر شدت پسندوں آزاد چھوڑا گیا تاکہ وہ بے قصور مسلمانوں پر مصائب و آلام کے پہاڑ توڑ سکیں ۔ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کے مطابق یہ حکومت کی مکمل ناکامی تھی اور اس تشدد سے بی جے پی کے سیاسی مفادات وابستہ تھے۔
تریپورہ تشدد پر کارروائی کی تفصیلی رپورٹ طلب
دوسری طرف حق پسند افراد نے سوشل میڈیا پر تریپورہ میں ہوئے مسلم مخالف تشدد کے خلاف مہم چھیڑ دی۔ ٹی ایم سی کے ترجمان اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ساکیت گوکھلے نے نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن آف انڈیا میں ایک شکایت درج کرائی جس پر کارروائی بھی ہوئی۔ ساکیت گوکھلے نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر یہ جانکاری دی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ’’قومی حقوقِ انسانی کمیشن (NHRC)نے اب میری شکایت پر ایک حکم جاری کیا ہے جس میں تریپورہ کے چیف سکریٹری اور ڈائریکٹر جنرل آف پولیس سے 4 ہفتوں کے اندر تریپورہ میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے حیران کن تشدد پر کارروائی کی تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے۔‘‘
تریپورہ میں مسلم مخالف تشدد پر جانبدار میڈیا اس طرح خاموش ہے گویا اب اسے یہ یاد دلانے کی ضروت آن پڑی ہے کہ ’تریپورہ بھارت کے شمال مشرقی علاقے میں واقع ایک ریاست ہے‘۔
8 مطالبات پر مشتمل وکلاء کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی رپورٹ
1 حکومت ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دے
۲ متاثرین کی شکایت پر الگ ایف آئی آر درج کی جائے۔
۳ ریاستی حکومت کی جانب سے متاثرین کو جلد سے جلد معاوضہ دیا جائے اور مالی نقصان کی بھرپائی کی جائے تاکہ بے گناہ افراد اپنی زندگی کو پٹری پردوبارہ واپس لا سکیں اور ان کا کاروبار ازسرنوشروع ہوسکے۔
۴ حکومت اپنے خرچ پر تشدد میں تباہ شدہ مذہبی مقامات کو دوبارہ تعمیر کروائے۔
۵ کارروائی نہ کرنے والے پولیس افسروں کو ذمہ دار ٹھیرایا جائے اور انہیں فوری طور پر ان کے عہدے سے ہٹا کر نیا تھانہ انچارج اور نیا پولیس افسر تعینات کیا جائے۔
۶ ریلی میں گستاخی رسول ﷺ کے نعرے لگانے والے افراد اور تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ ریاست کا خوشگوار ماحول دوبارہ خراب نہ ہو۔
۷ جھوٹے اور اشتعال انگیز پیغامات سوشل میڈیا پر وائرل کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے اور ان تمام لوگوں اور تنظیموں کے خلاف بھی کارروائی ہو جو بار بار لوگوں کو ورغلاتے ہیں ۔
۸ جو بھی اس فرقہ وارانہ تشدد میں قصوروار اور لوٹ مار اور آتش زنی میں ملوث پایا جائے اس کے خلاف بغیر کسی تفریق کے فاسٹ ٹریک کورٹ میں مقدمہ چلایا جائے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 14 نومبر تا 20 نومبر 2021