جودت قدرت، مصنف ” قصرابیض”

ترکی ادب سے اقتباس

(ایک غریب خاتون جس کے شوہر کا انتقال ہو جاتا ہے روایت کے مطابق پڑوسی 3 دن تک اس کے گھر کھانا بھیجتے ہیں۔ اس کے بعد وہ کھانے کا انتظام کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ اسی کرب والم کو اس اقتباس میں پیش کیا گیا ہے۔ حالیہ لاک ڈاؤن میں بعض غریب ایسے حالات سے دوچار ہو رہے ہیں۔ قارئینِ ہفت روزہ دعوت کو یہ کیسا لگا ای میل ضرور کریں۔)
گلناز نے گھر کا واحد کمبل اٹھایا اور اس پر ڈال دیا۔ گلناز نے ہاتھ لگا کر دیکھا۔ لڑکا بہت تیز بخار میں تَپ رہا تھا۔ وہ بالکل بے حس وحرکت لیٹا ہوا تھا۔ اس کی پیلی آنکھیں خلا میں گھور رہی تھیں۔ گلناز شام تک اس کے سرہانے بیٹھ کر اس کے بالوں میں انگلایں پھیرتی رہی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے؟ وہ سخت بے چین تھی۔
سورج غروب ہو گیا۔ اچانک گلناز کو یاد آیا کہ بڑے بکس میں بھیڑ کی کھال کا ایک استعمال شدہ کمبل رکھا ہوا ہے۔ امید کی ایک کرن جگمگائی۔ کیا کوئی شخص اس کمبل کے عوض کچھ بھی نہ دے گا؟ اس نے پڑوسیوں کے بارے میں سوچا لیکن پھر اسے فوراً خیال آیا کہ بڑے بازار میں ایک ایسی دکان بھی ہے جہاں پرانی چیزیں خریدی جاتی ہیں، لیکن وہ دکان اب بند ہوگئی ہوگی۔ اب اسے کل صبح تک انتظار کرنا پڑے گا۔ مسئلے کا حل نظر آتے ہی وہ پرسکون ہوگئی۔ لڑکے کا بخار اور تیز ہوگیا۔ وہ کراہنے لگا۔ اس کا چہرہ جل رہا تھا۔ کچھ دیر گزرنے کے بعد وہ ہذیان بھی بکنے لگا۔ چھوٹے لڑکے کو بھوک کے مارے نیند نہیں آرہی تھی۔ وہ اپنے بستر پر پڑا اپنے بھائی کی حالت کا جائزہ لے رہا تھا۔ ایک بار پھر جب بڑے لڑکے کی حالت اور خراب ہوگئی تو چھوٹا لڑکا اٹھ بیٹھا اور ہلکے سے دھیمے انداز میں اپنی ماں کے کان میں بولا، ”بھائی مرجائے گا نا ماں؟“
گلناز دہشت سے کانپ اٹھی۔ اس کے پورے جسم میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اس نے خشمگیں نگاہوں سے بیٹے کو گھور کے دیکھا اور چیخ کر بولی”تو نے ایسا سوال کیوں کر کیا؟“
چھوٹا لڑکا ماں کے اچانک بدلے ہوئے انداز کو دیکھ کر سہم گیا۔ وہ ایک لمحہ کے لیے جھجھکا اور پھر ڈرتے ڈرتے بولا، ”وہ مرجائے گا تو لوگ کھانا بھیجیں گے نا ماں! ہمیں تین دن تک تو کھانے کو ملے گا۔
***