جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

آپسی چپقلش کا خمیازہ سرحدی آبادیاں بھگت رہی ہیں

ایم شفیع میر، جموں وکشمیر

تقسیم کے 72برس بیت گئے لیکن سرحدی مکینوں کی حالت نہیں بدلی۔ اُن کے حالات آج بھی جوں کے توں ہیں۔ وہ روز مرتے ہیں اور روز ستائے جاتے ہیں۔ سرحدی مکین چاہے وہ اُس پار کے ہوں یا اِس پار کے،سیاسی کھیل تماشوں اور زمینی جنگ کی چکی کے دو پاٹوں میں آئے دن یہی لوگ پسے جا رہے ہیں۔ دن بدن سرحدوں پر مقیم آباد لوگ حالتِ ابتری کے شکار ہو رہے ہیں۔ ہند وپاک کی آپسی چپقلش کا خمیازہ سرحدی آبادیوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اُس پار سے آنے والی گولی یہ نہیں کہتی کہ مجھے صرف قصوروار کا سینہ چھلنی کرنا ہے،صرف گنہگاروں کو نشانہ بنانا ہے، بالکل اسی طرح اِس پار کے بندوق سے نکلنے والی گولی بھی قصوروار کو ڈھونڈے بغیر کسی بھی بے گناہ کوموت کے آغوش میں پہنچا دیتی ہے۔ گولی اِس پار کی بندوق سے نکلی ہو یا اُس پار کی بندوق سے، وہ ذات پات، رنگ ونسل، قصورواراور بے قصورکا فرق کیے بغیر سینہ چھلنی کر دیتی ہے۔ ہند وپاک سرحدوں پر موت کا یہ ننگا ناچ اب روز کا معمول بن چکا ہے۔ عوامی تحفظ کے بلند بانگ دعوؤں کی آڑ میں دونوں اطراف کے سیاسی رہنما اور فوجی چیف یہ کہتے نہیں تھکتے کہ عوامی تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے۔ لیکن آج تک اِن دعوؤں میں کبھی حقیقت دیکھنے کو نہیں ملی بلکہ دونوں ہی ایٹمی طاقتیں عوامی تحفظ کے نام پر بلاخوف وخطر بندوقوں کے دہانے کھول دینے کے احکامات جار ی کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگاتیں اور یوں سرحدوں پر رہنے والے بے بس ولاچار لوگ حکومتوں کی جانب سے تحفظ کے کھوکھلے دعوؤں کی اُمید کے ساتھ روز ہی موت کے گھاٹ اُتار دیے جاتے ہیں۔
دونوں اطراف کے اربابِ حل وعقد انسانی زندگیوں کے خاتمے کے لیے جدید طرز کے ہتھیارخریدنے کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کر رہے ہیں۔ انسانی جانوں کے دشمن ہتھیاروں کو خریدنے کے لیے اربوں اور کھربوں کے حساب سے پیسہ بہا رہے ہیں، یہاں تک کہ مقروض ہوکر بھی ہتھیار خریدنے کا عمل شدت سے جاری ہے جبکہ یہاں سرحدی مکینوں کے لیے ابھی تک بنکر بننا باقی ہیں، اُن کی جانوں کا تحفظ ابھی بھی ایک خواب بن کر رہ گیا ہے،اک ایسا خواب جس کا شرمندہ ٔ تعبیر ہونا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کی سوچ اور نیت میں کھوٹ صاف طور سے دکھائی دے رہا ہے۔ وہ سرحدی مکینوں کی اِس دائمی مشکل کے حل کے لیے کسی بھی طرح مخلص نظر نہیں آتے،وہ اپنی اپنی کرسیوں کو پکا کرنے کی خاطر موت کا سامان خرید رہے ہیں۔ سرحدپر جب بھی کوئی بے گناہ زندگی، موت کی آغوش میں پہنچا دی جاتی ہے تو اِدھر سیاسی پجاریوں کو اپنی کرسی پکی کرنے کے لیے سیاسی بھبکیاں مارنے کا موقع ہاتھ آتا ہے۔ پھر خوب بھڑاس نکالی جاتی ہے، عوامی تحفظ کے قصے سنائے جاتے ہیں، فوج کو اندھا دھندگولہ باری کی کھلی چھوٹ دی جاتی ہے،جنگ کا اعلان کیا جاتا ہے، سیاست دانوں کے اس غیر سنجیدہ رویے کے باعث پھر سے کسی ماں کی گود اُجڑجاتی ہے،کسی کے گھر کا چراغ بجھ جاتا ہے، کسی بہن کا بھائی اُس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہو جاتا ہے، کسی بزرگ کا سہارا چھن جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دونوں اطراف کے سیاسی رہنماؤں کی عقل آخر کب تک گھاس چرتی رہے گی؟کب تک اِن لوگوں کی لا پرواہی،غیرسنجیدگی اور اقتدار کی بھوک معصوم جانوں کو موت کے گھاٹ اتارتی رہے گی۔
افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ اتنی قربانیاں دیے جانے کے باجود بھی انہیں خوشحالی نہیں ملتی۔ سرحدی مکینوں نے نہ تو خوشحال ہندوستان دیکھا اور نہ ہی خوشحال پاکستان۔ وہ ہر روز کسی نہ کسی ماتم پر آنسو بہاتے ہیں، آہیں بھرتے ہیں، غم سہتے ہیں اور پھر وہیں رہتے ہیں جہاں رہنا اُن کا مقدر بن گیا ہے۔ لفظ’خوشحالی‘اُن کے لیے اک ایسا کھلونا ہے جس سے انہیں روز بہلایا جاتا ہے۔ وہ روز ہی اپنے ارمانوں کو دفن ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اُن کے دکھوں کا کوئی مداوا نہیں، مصیبت اُن کا مقدر بن چکی ہے۔ اُس پار سے اور اِس پار سے کی جانے والی شلنگ اورگولیوں کی برسات بھلے ہی دونوں ممالک کے لیے ایٹمی طاقت کا مظہر ہو لیکن سرحدی مکینوں کے لیے یہ موت کا پیغام ہے۔
واضح رہے تقسیم کے 72برس بیت گئے لیکن انسان دشمنی میں آئے دن اضافہ ہوتا ہی جا رہا ہے۔ امن کے قیام کے لیے سنجیدہ کوششیں کہیں سے بھی نہیں ہو رہی ہیں، قوم پرستی ہر طرف حاوی ہوچکی ہے۔ جنگی جنون کا بھوت اِس قدر سوار ہے کہ ہر مسئلے کا حل گولی اور میزائل کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ موجودہ دور میں ہند وپاک دشمنی میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے، گو کہ پہلے پہل یہ دُشمنی صرف کرسی کے دیوانوں کا کھیل تھا لیکن اب یہ دشمنی آہستہ آہستہ اپنا گراف بڑھا رہی ہے، چونکہ گزشتہ کئی برسوں سے جس قدر دونوں اطراف کے سیاستدانوں اور مذہبی کٹرپنتھ عناصر نے نفرت کاماحول گرم کیا ہے وہ امن کی چڑیا کو پھدکنے نہیں دیتا۔ سخت گیری اپنا کر عام انسان کاجینا حرام کر دیا گیاہے۔ ایسے میں سرحدوں کے نزدیک رہنے والوں کی زندگیوں کا زیاں اک نہ تھمنے والا سلسلہ بن گیاہے۔
لمحہ فکریہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا کورونا وائرس جیسی مہلک بیماری سے لڑنے میں مصروف ہے مگر شرانگیزیاں آج بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ وقت کا تقاضا یہی ہے کہ دونوں ممالک کے سیاسی قائدین عقل کا دامن تھام لیں۔ جنگی جنون کسی بھی فرد، قوم یا ملک کے لیے کارآمد نہیں ہو سکتا ہے۔ ساحرؔ لدھیانوی نے سچ کہا ہے کہ ’’جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی‘‘۔ جب جنگ یا لڑائی ہوتی ہے تو مسائل مزید پیچیدہ ہوتے ہیں اور پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ تاریخ نے دیکھا ہے کہ جس پر جنگی جنون سوار ہوتا ہے اور کسی کی مخالفت میں پاگل ہوجاتا ہے تو اس کا حشر اچھا نہیں ہوتا۔
[email protected]


 

جنگی جنون کا بھوت اِس قدر سوار ہے کہ ہر مسئلے کا حل گولی اور میزائل کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ موجودہ دور میں ہند وپاک دشمنی میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے، گو کہ پہلے پہل یہ دُشمنی صرف کرسی کے دیوانوں کا کھیل تھا لیکن اب یہ دشمنی آہستہ آہستہ اپنا گراف بڑھا رہی ہے