جنسی جرائم اور اخلاقی بگاڑ

پریشان معاشرہ اور اسلامی تعلیمات

محب اللہ قاسمی،دلی

 

مریض کو دوا کا خوف دلا کر اسے بغیر علاج مارنا اس کے ساتھ ہمدردی نہیں بلکہ دشمنی ہے۔ جس طرح مرض کی شناخت ہوجانے کے بعد اس سے بچنے کے لیے لوگوں کو آگاہ کرنا اور اس سے پوری طرح دور رہنے کی تاکید کرنا معاشرے کو صحت مند بنانے کے لیے ضروری ہے ٹھیک اسی طرح انسانیت کے ضامن حیات نظامِ اسلامی سے انسانوں کو ڈرا کراس سے دور رکھنے کی کوشش سے انسانیت کی حفاظت نہیں بلکہ اس کی بربادی ہوگی۔
موجودہ دور کے حالات نے آج پوری انسانیت کو ایسا مریض بنا دیا ہے جس کے مرض کی شناخت کرنے اوراس کا علاج بتانے سے گریز کیا جا رہا ہے اس کو اسلام اور اسلامی تعلیمات سے دور رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جب کہ معاشرے کے موجودہ مسائل اور انسان کے تمام فکری وعملی اور اخلاقی بیماریوں کا علاج صرف اور صرف اسلام کے پاس ہے۔ہم اپنے وطن کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ یہاں بھی بہت سی بیماریاں عام ہوگئی ہیں جن سے بچنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں مگر ان کا مکمل علاج نہ ہونے کے سبب وہ بیماریاں دن بہ دن بڑھتی جارہی ہیں۔ مثلاً آج دنیا بھر میں جنسی جرائم، ظلم و استحصال جیسی خطرناک بیماری نے اپنی جگہ بنالی ہے اور ہمارا ملک بھی اس کی زد میں ہے۔ اس بیماری کے اسباب ومحرکات تلاش کرلیے گئے ہیں اور بیماری سے نمٹنے کے لیے مختلف طریقے بھی اختیار کیے جا رہے ہیں مگر کوئی یہ کہنے کو تیار نہیں ہے کہ انسان کا وحشی پن اور درندہ صفت ہو جانا ہی اس خوفناک بیماری کی اصل وجہ ہے اور اس خرابی کی ایک بڑی وجہ کبر وغرور اور عریانیت ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی طاقت و دولت کے نشے میں چور ہے تو کسی کو اعلیٰ ذات ہونے کا غرور ہے۔ جس کے نتیجہ میں وہ اپنے سے کم زور لوگوں پر ہر طرح کی ظلم و زیادتی کرنا اپنا حق سمجھتا ہے، پھر اسے کسی کی جان مال عزت و آبرو کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ اسی طرح فحاشی و عریانیت کا عام ہونا اور خواتین کا برانگیختہ کرنے والے نیم برہنہ لباس پہن کر مردوں کے شانہ بہ شانہ مخلوط پارٹیوں میں نظر آنا۔ یہ صورت حال نفسیاتی طور پر بہت سی بُرائیوں کو دعوت دیتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بدسلوکی کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔
انسدادجرائم کی تدابیر
آج حکومت کے ذمہ داروں کو بھی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ وہ ایسے جرائم کے انسداد کے لیے کیا کریں۔ تمام دانشور اور ارباب حل وعقد ان جرائم کا حل اسلامی تعلیمات سے ہٹ کر تلاش کرتے ہیں۔ جرائم زدہ علاقوں کا تعین ان کی چوکسی بسوں میں سی سی ٹی وی کیمرے اور لائٹ جلائے رکھنے کی تاکید اور اس فعلِ بد میں ملوث افراد کو اذیت ناک سزا کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ ایسے وحشیانہ اور شرمناک فعل کو انجام دینے والے مجرمین کو سخت ترین سزا دی جانی چاہیے۔ مگر حل کے طور پر صرف یہی باتیں کافی نہیں ہیں۔ شراب نہ پینے کی ہدایت کر دینا یا تنبیہی بورڈ لگا دینا کافی نہیں ہے۔ کیا بسوں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگا دینے سے انسان کا ضمیر اور اس کا کردار درست ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں! اس لیے تمام دانشوروں کو چاہیے کہ سنجیدگی کے ساتھ اسلام کے عائلی نظام، اخلاقی تعلیمات اور تعزیراتی قوانین کا بھی مطالعہ کریں پھر انہیں عملی جامہ پہنائیں کیوں کہ یہ محض نظریاتی چیزیں نہیں ہیں بلکہ آزمودہ ہیں۔
اسلام کی اخلاقی تعلیمات
اسلام انسانوں کومعاشرتی زندگی کو تباہ وبربادکرنے والی چیزیں مثلاً ظلم وزیادتی ،قتل و غارت گری، بدکاری و بداخلاقی،چوری وزناکاری وغیرہ سے بازرہنے کی تلقین کرتاہے اورانہیں اپنے مالک اورپیداکرنے والے کا خوف دلاکر ان کے دلوں کی کجی کودرست کرتاہے۔جہاں قانون کی ایسی بالادستی ہوتی ہے کہ کسی کو کسی پر نہ فوقیت دی جاتی ہے اور نہ ہی مجرمین کو قانون سے بالا تر سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ نفاذِقانون میں امیر ،غریب ،گورا کالا سب یکساں ہیں۔ جرم ثابت ہونے پر مجرم کو معافی کی گنجائش باقی نہیں رہتی خواہ وہ کسی بھی حسب و نسب اور خاندان کا ہو۔جرم کی سزا میں سب برابر ہوتے ہیں۔
آج معاشرے میں لوٹ کھسوٹ، رشوت، بددیانتی، جھوٹ ، فریب اور جعل سازی وغیرہ کی جو بیماریاں عام ہوگئی ہیں،صرف اسلامی تعلیمات ہی میں ان تمام مسائل کا حل موجودہے۔جس طرح ہمیں اپنی بہوبیٹیوں کی عزت پیاری ہے اسی طرح دوسروں کی عزت وناموس کاخیال رکھنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ آزادی کے نام پر جس طرح خواتین کھلونے کی ماننداستعمال کی جارہی ہیں، گھراورحجاب کو قید سمجھنے والی خواتین کس آسانی کے ساتھ ظلم وزیادتی کا شکار ہورہی ہیں، یہ کسی پر مخفی نہیں ہے۔اس لیے اسلام نے خواتین کوایسی آزادی نہیں دی ہے کہ جس سے وہ غیرمحفوظ ہو جائیں اورنیم برہنہ لباس پہن کر لوگوں کے لیے سامان تفریح یا ان کی نظرِبدکا شکار ہوجائیں ۔
خواتین کے لیے اسلامی ہدایات
اسلام نے خواتین کو علیحدہ طوربہت سی باتوں کا حکم دیا ہے اوربہت سی چیزوں سے روکاہے۔ مثلاً انہیں اپنے بناؤ سنگھارکو دکھانے کے بجائے اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اورپردہ کرنے کولازم قراردیا :اور اے نبی ﷺ، مومن عورتوں سے کہ دو کہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اوراپنا بناؤ سنگھارنہ دکھائیں بجزاس کے جوخود ظاہر ہوجائے، اوراپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں (النور:۳۱)۔دوسری جگہ اللہ تعالی کافرمان ہے:’’اے نبی ﷺ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اوراہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلولٹکالیاکریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔ اللہ تعالی غفور و رحیم ہے۔‘‘ (سورۃ احزاب:۵۹)
اسی طرح غیرضروری طور پر بازاروں میں پھرنے کے بجائے گھروں میں محفوظ طریقے سے رہنے اور عبادت کرنے کا حکم دیا: ’’اپنے گھروں میں ٹک کررہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔ نماز قائم کرو، زکوۃ دو، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اللہ تو یہ چاہتاہے کہ تم اہلِ بیتِ نبی سے گندگی کودورکرے اورتمہیں پوری طرح پاک کردے۔‘‘ (سورۃ احزاب:۳۳)
اس کے علاوہ خواتین کا ہروہ طرز عمل جو اجنبی مردوں کو ان کی طرف مائل کرے ،یا ان کی جنسی خواہشات کو بھڑکائے ،اسے حرام قراردیاگیاہے۔آپ ﷺ نے ارشادفرمایا:’’ہر وہ عور جو خوشبو لگا کر کسی قوم کے پاس سے گزرے کہ وہ اس کی خوشبولے تو ایسی عورت بدکار ہے۔ ‘‘(نسائی)
رسول اللہ ﷺ نے ایسی عورتوں پر سخت ناراضی کا اظہارکرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’دوطرح کے انسان ایسے ہیں جن کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا:ان میں وہ عورتیں ہیں جو لباس پہنے ہوئے بھی ننگی ہیں، لوگوں کی طرف مائل ہونے والی اوراپنی طرف مائل کرنے والی ہیں،ان کے سرکھلے ہونے کی وجہ سے بختی اونٹنیوں کی کہان کی طرح ہے، وہ جنت میں داخل نہیں ہوسکیں گی اورنہ ہی اس کی خوشبوپاسکیں گی۔‘‘ (مسلم)
علامہ شیخ عبدالعزیز بن بازؒ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں: ’’یہ تبرج اورسفور اختیارکرنے والی عورتوں کے لیے سخت قسم کی وعیدہے: باریک اور تنگ لباس زیب تن کرنے اور پاکدامنی سے منہ موڑنے والی اور لوگوں کو فحش کاری کی طرف مائل کرنے والی عورتوں کے لیے ۔‘‘
مردوں کوتنبیہ
اسی طرح مردوں کوبھی تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ غیرمحرم (جن سے نکاح ہوسکتاہے) عورتوں کو ٹکٹکی باندھ کر نہ دیکھیں،اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اورزنا کے محرکات سے بچیں چہ جائے کہ زناجیسے بدترین عمل کا شکارہوں۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:’’زنا کے قریب مت پھٹکو وہ بہت برافعل (کھلی بے حیائی ) ہے۔اور براہی بڑا راستہ ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل :۳۲)موجودہ دورمیں بوائے فرینڈاور گرل فرینڈکا رجحان عام ہوگیا ہے ،اسلام اس رشتے کو نہ صرف غلط قراردیتاہے بلکہ اجنبی خواتین سے میل جول،غیرضروری گفتگو، اوراختلاط سے بھی بچنے کی تاکید کرتا ہے،کیوں کہ یہ وہ محرکات ہیں جو انسان کو بدکاری اورفحاشی تک پہنچادیتے ہیں۔نبی رحمت نے اپنی امت کو اس سے روکا ہے: عورتوں(غیرمحرم)کے پاس جانے سے بچو۔ (بخاری)
اگرکوئی ناگزیرضرورت ہو یاکسی اجنبی عورت سے کچھ دریافت کرنا ہوتو پردے کے ذریعے ہی ممکن ہے ،قرآن کہتاہے: اگر تمہیں کچھ مانگنا ہوتوپردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اوران کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔ (احزاب: ۵۳)
معاشرے پربدکاری کے اثرات
بدکاری کے بدترین اثرات اوراس کی قباحت بیان کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس بستی میں بدکاری اور سود خوری عام ہوجائے گی اس میں اللہ کا عذاب آنا لازمی ہے۔‘‘ایک اورجگہ ارشادہے: ’’جس قوم میں علانیہ فحش کاری کا بازارگرم ہوجائے اس میں طاعون اورایسی بیماریاں عام ہوجائیں گی جو اس سے پہلے کبھی نہیں تھیں۔(ابن ماجہ) یہی وجہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو اس فحش کاری سے ڈراتے ہوئے دنیا وآخرت کے انجام بد سے آگاہ کیا۔آپ ﷺ کا ارشادہے: اے مسلمانوں کی جماعت زنا سے بچو، اس لیے کہ اس(کے نتیجے) میں چھ خصائل ملتی ہیں تین دنیا میں اورتین آخرت میں، رہے تین دنیاوی پریشانیاں: چہرے کی رونق ختم ہونا، مسلسل فقر، عمر کی تنگی اور تین آخرت میں: اللہ تعالی کی ناراضگی، بدترین مواخذہ اور جہنم کا داخلہ۔ (بیہقی)
جب معاشرے میں بدکاری عام ہوگی تو پھر پاک دامن خاتون کا تلاش کرنا آسان نہ ہوگا اورنہ ہی پاکباز مرد ملیں گے۔بدکاری کے اثر کا بین ثبوت ہمیں قرآن کریم سے ملتاہے جس نے ایسے بدترین انسان کے لیے اس کے ذوق کے مطابق فیصلہ سنایاہے: ’’زانی نکاح نہ کرے مگرزانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ۔
اورزانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگرزانی یا مشرک۔ اورحرام کردیاگیا ہے اہل ایمان پر ‘‘۔(النور:۳) ۔مذکورہ اخلاقی تعلیمات اور تعزیراتی قوانین کے پیش نظر اتنا توواضح ہے کہ اسلام میں بدکاری کا تصور ہی محال ہے چہ جائے کہ کوئی اسلام کو مانتاہو اوراس فعل قبیح کو انجام دے ، اس سے نہ صرف وہ شخص بدنام یا نامراد ہوتاہے جو اس میں ملوث ہے بلکہ معاشرے پر بھی اس کا بہت برااثرپڑتاہے حتی کہ اس فحاشی وزناکاری کے عام ہونے کے سبب معاشرہ قحط، رزق کی تنگی اورنت نئی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے جس کا مشاہدہ ہم آج کرسکتے ہیں۔
اسلامی قوانین معقولیت پرمبنی ہیں
قرآن کا اعلان ہے :ولکم فی القصاص حیاۃ ۔تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے:(بقرۃ:179)قصاص بدلے کو کہاجاتا ہے ،جیسے کسی انسان نے کسی دوسرے انسان کو قتل کیاتو اس کے بدلے اس کو قتل کیاجائے گا۔ بظاہر اس میں ایک جان کا مزیداتلاف ہے مگرقرآن کہتاہے کہ اس میں زندگی ہے۔وہ اس طورپر ہے کہ دوسرے لوگ قتل جیسے سنگین جرم سے بچ جائیں گے۔اس معنی میں یہ آیت تعزیرات کے لیے بہت ہی معنی خیزہے۔کیوں کہ مجرم کو سزادینا مجرم پرظلم کرنا نہیں بلکہ جرائم کی روک تھام جو عین انصاف ہے کیونکہ جب اس نے کسی انسان کی جان ومال اور اس کی عزت وآبروکا احترام نہیں کیاتوگویاوہ یہ اعلان کررہاہے کہ اس کے ساتھ بھی احترام نہ کیاجائے بلکہ اسے سزادی جائے۔رہی بات تعزیرات اورسزاؤں کے رسواکن ہونے کی تو یہ واضح رہے کہ تعزیرات کسی اعزازمیں دی جانے والی چیز نہیں ہے، حساس لوگوں کے لیے سزارسواکن ہی ہوتی ہے۔ اسی لیے جرم کے مطابق ہی سزاکے درجات متعین کیے جاتے ہیں۔مثلاً بہت سے مریض ایسے ہوتے ہیں جن کا مرض معمولی ہوتا ہے۔ان کا علاج بغیر آپریشن کے ہوسکتاہے جب کہ بعض مریضوں کا علاج عمل جراحت کے بغیرممکن نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر جسم کا کوئی عضو خراب ہوگیاہو اوراس کے جسم میں باقی رہنے سے دوسرے اعضا کے بھی متاثرہونے کا خطرہ ہو تو دوسرے اعضاکو محفوظ رکھنے کی خاطر اس عضو کوکاٹ کر الگ کردینا ہی بہتر ہوتا ہے۔اسی میں معقولیت اور معاشرے کی زندگی ہے۔ اسلام جرائم کو بالکل جڑسے اکھاڑنا چاہتاہے۔ اس لیے وہ انسانوں کو زیور اخلاق وکردارسے آراستہ دیکھنا چاہتا ہے۔ کاش کہ دنیا والے انسانوں کو اسلامی تعلیمات سے ڈرانے کے بجائے اس کی تعلیمات کوسماج میں نافذکرنے کے لیے کوشاں ہوتے ۔اگروہ ایسا کرتے توان کی زندگی سکون واطمینان سے گزرتی اورہمارا معاشرہ صحت مندہوکر امن وامان کا گہوارا ہوتا۔

اسلام جرائم کو بالکل جڑسے اکھاڑنا چاہتاہے۔ اس لیے وہ انسانوں کو زیور اخلاق وکردارسے آراستہ دیکھنا چاہتا ہے۔ کاش دنیا والے انسانوں کو اسلامی تعلیمات سے ڈرانے کے بجائے اس کی تعلیمات کوسماج میں نافذکرنے کے لیے کوشاں ہوتے ۔اگروہ ایسا کرتے توان کی زندگی سکون واطمینان سے گزرتی اورہمارا معاشرہ صحت مندہوکر امن وامان کا گہوارہ ہوتا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11-17 اکتوبر، 2020