جمہوری ملک کی ریاستوں کا استحصالی چہرہ

مزدوروں کو ہراساں کر کے صنعتکاروں کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

لیبر قانون سے متعلق سرکاری فرمان کو اصلاح کہنا بند کریں کیوں کہ یہ مزدوروں کے حقوق پر دست درازی اور ظلم ہے۔ بعض ریاستیں لیبر قوانین میں کچھ رعایتیں دے کر اپنے آپ کو ’’صنعت دوست‘‘ ثابت کرنے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ مثلاً اتر پردیش نے کورونا قہر کے حالات کو ایمرجنسی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ایک سرکاری فرمان کے ذریعے صنعت اور تجارت کو چند ایک کے علاوہ تمام لیبر قوانین سے تین سال کے لیے مستثنیٰ کردیا ہے۔ مرکز بھی چونکہ اسی فکر کا حامل ہے اس لیے لاک ڈاؤن کے دوران مارچ سے اب تک ۴۳۰۰ اعلامیوں کے ذریعے یہی کچھ کیا ہے۔ ایسے اقدامات سے مہاجر محنت کش مزدور کو سب سے زیادہ چوٹ پہونچی ہے۔ کام کے اوقات میں اضافہ کرکےحکومتیں یہ چاہتی ہیں کہ اصولی طور پر مزدوروں کے جسم کو توڑ دیا جائے۔ ان کی آزادی سلب کرلی جائے اور احترامِ انسانیت کو ختم کردیا جائے؟ قانونی اصلاح کے نام پر یہ سیاست دان اور وزرا ہندوستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی یعنی محنت کش مزدوروں کو قربانی کا بکرا بنانے سے کسی طرح نہیں چوک رہے ہیں اور ان کے جسم سے چمڑی بھی اتار لینے کے درپے ہیں۔ گزشتہ ۲۴ مارچ کو چار گھنٹوں کے اندر ملک گیر تالہ بندی کے اچانک اعلان کے بعد ۱۳ کروڑ مہاجر مزدوروں کو بے یار و مددگار کسمپرسی کے عالم میں اس طرح چھوڑ دیا کہ ان کے پاس گھر لوٹنے کی کوئی سبیل نہیں تھی اور نہ ہاتھ میں پیسہ تھا۔ ان کے لیے ایک طرف کھائی تو دوسری طرف کنواں رہ گیا تھا۔ مرکزی اور ریاستی حکومتیں ان بے سہارا لوگوں کو کسی طرح کی راحت دینے یا گھر بھیجنے کے سوال پر بالکل خاموش رہیں اور بغیر کسی سہولتوں کے ان غیر رسمی مزدوروں کو ان کے جائے کار کے قریب رہنے کی اجازت دے دی گئی۔ لیکن لاکھوں بے سہارا مفلوک الحال مزدوروں کو ان کے آبائی مقامات تک جانے نہیں دیا گیا اس لیے وہ وقتاً فوقتاً کبھی ممبئی میں کبھی سورت میں اور کبھی بنگلور میں اپنے غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے بڑی تعداد میں سڑکوں پر آجاتے۔ ادھر صنعت کاروں اور کارخانہ داروں کو یہ فکر لاحق تھی کہ جب صنعتیں اور کارخانے دوبارہ کھل جائیں گے تو انہیں مزدور نہیں ملیں گے۔ مگر ان مفاد پرست کارخانہ داروں نے تالہ بندی کے دوران مزدوروں کو پیٹ بھر کھانا، رہائش اور اجرت کے تعلق سے کوئی معقول انتظام نہیں کیا،اور ان کی حالت بھکاریوں سے بھی بدتر بنادی گئی۔ کئی ایک نے تو روزگار کے اچانک ختم ہو جانے کی وجہ سے خود کشی کرلی۔ کئی مزدورتالہ بندی کی پروا کیے بغیر اپنے گھروں کو سینکڑوں کلو میٹر کے سفر پر نکل گئے اور کئی تو گھروں کو پہونچنے سے قبل ہی موت کی آغوش میں پہنچ گئے۔ اورنگ آباد کے نزدیک ۱۵ مزدوروں نے ریل کی پٹری پر جان دےدی۔ ۲۴ مزدوروں کو ہائی وے پر ٹرک نے اڑا دیا۔ جو چلتے رہے وہ بین الریاستی پولیس اور انتظامیہ کے مظالم سے دوچار ہوتے رہے۔ صنعت کاروں، وزراء اور سرکاری عملے کے افراد نے محنت کش مزدوروں کو انسانی وقار، احترام اور حق آزادی تک سے محروم کردیا جس کے وہ حقدار تھے۔ ہمارے ملک کی معیشت کو استحکام اور دنیا میں اس وقت تک عزت ووقار حاصل نہیں ہوگا جب تک ہم کمزوروں، دبے کچلے طبقات اور اقلیتوں کو آزادی اور احترام کے بنیادی حق سے سرفراز نہیں کریں گے۔
کرناٹک کے بھاجپائی وزیراعلیٰ نے تو حد ہی کردی کہ تعمیراتی مزدوروں کی شرامک ٹرینوں کو محض بلڈروں کے مفاد کی خاطر رد کروا دیا۔ مزدوروں کو ہراساں وپریشان کرنے اور مقامِ کار پر روکے رکھنے کے لیے سرکلر کے ذریعے یہ بتایا گیا کہ جن محنت کشوں کے پاس پیسہ نہیں ہے انہیں بھی ٹرین کا ٹکٹ لینا ہوگا۔ بین ریاستی حمل ونقل اور ریلویز مرکز کے ماتحت ہیں لیکن مرکز نے اس بار محنت کشوں کے حقوق کو قربان کرتے ہوئے کارخانہ داروں، صنعتکاروں، بلڈروں کو تحفظ فراہم کرنے کا بیڑا اٹھالیا اور مزدوروں کو اپنی ریاستوں کو جانے سے روک دیا۔ اس طرح مرکز اور ریاستی حکومتیں مستقلاً محنت کشوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔ آزاد اور جمہوری ملک کی دستور ساز اسمبلی کے ایک ممبر کے ٹی شاہ نے لکھا تھا کہ ’’ضرورت مند لوگ کبھی آزاد نہیں ہوتے‘‘۔ دستور ہند کی دفعہ ۲۳ کے تحت ہمارے یہاں جبری مزدوری کی ممانعت ہے۔ ۱۹۸۳ میں سپریم کورٹ نے اس نقطہ نظر کو سمجھ کر مہاجر اور کنٹریکٹ مزدوروں کے استحصال کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ یہ وہی لوگ تھے جو ایشین گیمز ویلیج کی تعمیر پر لگے تھے۔ پی یو ڈی آر بنام یونین آف انڈیا کے مقدمہ میں سپریم کورٹ نے لفظ خورس کے معنی میں معاشی حالات سے پیدا شدہ جبر کو بھی شامل کیا ہے۔ جبری مزدور بھی کم از کم ایک خاص اجرت کا حق رکھتا ہے مگر ضرورت مند محنت کشوں کے لیے مول بھاؤ کا کوئی متبادل نہیں چھوڑتا ہے اور کم سے کم اجرت پر اپنی محنت یا خدمت دینے پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہ انٹرنیشنل لیبر آگنائزیشن کی قرارداد ۲۰۱۷ کی بھی خلاف ورزی ہے کیوں کہ اس میں سفارش کی گئی ہے کہ کسی آفت کے موقع پر ریاستوں کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ کمزور اور حاشیے پر کھڑے لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق روزگار چننے کی آزادی ہو۔ مگر ہماری حکومتیں بین الاقوامی عہد وپیماں کی خلاف ورزی کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ یہ بھی افسانہ ہے کہ بھارتی لیبر قانون نے مزدروں کے مول بھاؤ (Bargaining) کی قوت کو بڑھا دیا ہے۔ دہلی اسکول آف اکانومکس کے اسکالر کی تحقیق ہے کہ بھارتی مزدوروں کی اجرت کئی سالوں سے منجمد پڑی ہوئی ہیں کیوں کہ ۱۹۸۰ کے بعد سے فیکٹری میں ہڑتال اور لاک آوٹس میں بڑی کمی آئی ہے۔ دوسری طرف مزدوروں کے مول بھاؤ کی قوت بھارتی صنعت کی ترقی میں رکاوٹ بن رہی ہے جو سراسر افسانہ ہے۔
اس لیے مرکزی حکومت چاہتی ہے کہ لیبر قوانین پر پھر سے نظر ثانی کی جائے۔ نومبر ۲۰۱۹ میں پارلیمنٹ میں انڈسٹریل ریلیشنس کوڈ پیش کیا گیا۔ اس کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے ایک رپورٹ بھی پیش کی اور مشورہ دیا کہ اس موضوع پر تفصیل سے گفت وشنید ہو اور ایک لیبر کوڈ بنایا جائے جو اکیسویں صدی کے مناسب حال ہو۔ لیکن ہم نے اس کے بجائے مزدوروں پر چو طرفہ جبر کی شروعات کردی جو مودی حکومت کے منشا کے خلاف ہے۔ پہلا یہ کہ یہ دستور پر حملہ ہے۔ اگر ہم ریاستوں کو بغیر کسی دلیل کے محض مرکزی قانون سازی پر رکھیں گے تو مستقبل میں وفاقیت پر مصیبت آئے گی۔ اس طرح ہم بہت سارے قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے، آئی ایل او نے جو اصول طے کیے ہیں ان کی بھی خلاف ورزی کریں گے اور خود اپنے بنائے ہوئے قوانین کی بھی دھجیاں اڑائیں گے۔ اس لیے مودی حکومت کی طرف سے دی انڈسٹریل ریلیشنس کوڈ پر کام ایک اچھی شروعات ہے مگر مختلف ریاستوں سے جاری ہونے والے سرکاری فرامین بد نما داغ ہیں۔ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی جب تک کہ وہ انسانی دولت پر سرمایہ کاری نہیں کرتی۔ جو مزدوروں کا حق مزدور قوم و دولت سے نہیں بڑھاتی اور نہ ہی محنت اور دولت کے درمیان بہترین امتزاج پیدا کرتی ہے۔ اب مرکزی حکومت کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ نئے دور میں عدل وانصاف پر مبنی سماجی ضابطہ کو تشکیل دیتی ہے یا انیسویں صدی کی بربریت کا اعادہ کرتی ہے۔
چند دنوں میں بہت ساری ریاستوں نے اپنے اپنے لیبر قوانین میں تبدیلی کی ہے۔ ہماچل پردیش، راجستھان پنجاب نے اپنے کام کے وقات میں ترمیم کرکے انہیں ۸ تا ۹ گھنٹے سے بڑھا کر ۱۲ گھنٹے کر دیا ہے اور ہفتے میں۷۲ گھنٹے کام کی اجازت دی ہے۔ اس حد سے زائد کام کرنے پر اوور ٹائم کی شرح عام اجرت سے دوگنی رکھی گئی ہے۔ گجرات نے اس طرح کی تبدیلی کی ہے کہ اوورٹائم کو اسی شرح پر رکھا گیا ہے۔ حکومت نئی صنعتی اکائیوں کو سبھی متعلقہ قوانین اور ضوابط سے اگلے ۱۲۰۰ دنوں کے لیے چھوٹ دے رہی ہے مگر ان کمپنیوں کو اقل ترین تنخواہ، صنعتی سلامتی سے متعلق اصول وضوابط پر عمل کرنا ہوگا تاکہ ریاست میں سرمایہ کار زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کر سکیں۔ اتر اکھنڈ نے یومیہ کام کی مدت کو بڑھا کر ۱۱ گھنٹے کر دیا ہے اور یہاں اوور ٹائم ۱۸ گھنٹے فی ہفتہ ہوا کرے گا۔
ہریانہ نے ۱۲ گھنٹہ یومیہ اور ۶۰ گھنٹہ فی ہفتہ رکھا ہے۔ اس میں اوور ٹائم بھی شامل ہے۔ مدھیہ پردیش نے بھی اسی طرح کی تبدیلی کی ہے۔ یہ سب تبدیلیاں ریاستی حکومتوں کے محض اعلامیوں سے ہوئی ہے اور تین ماہ تک اس کی مدت عمل قائم رہیں گی۔ مدھیہ پردیش نے انڈسٹریل ڈسپیوٹ ایکٹ ۱۹۴۶ کی کئی دفعات کو معطل کر دیا ہے۔ لیبر قانون میں تبدیلی کرتے ہوئے سرکاری فرمان کے ذریعے صنعتی پاکائیوں میں شفٹ کی مدت کو ۸ گھنٹے سے بڑھا کر ۱۲ گھنٹے کر دیا ہے۔ چند ترامیم کے ذریعے اب رجسٹریشن اور لائسنس پہلے کے ۳۸ دنوں کے بجائے ایک دن میں جاری کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ کارخانوں کی تجدید کی مدت ایک سال کے بجائے ۱۰ سالوں کے لیے ہوا کرے گی۔ اب مدھیہ پردیش نے دو اور قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ جہاں ۱۰۰ سے زائد محنت کش مزدور کام کرتے ہیں وہاں دی ایم پی انڈسٹریل ایمپلائمنٹ اسٹینڈنگ آرڈرس ایکٹ کا نفاذ عمل میں آئے گا۔ ریاستی حکومت نے سرکاری فرمان کے ذریعہ ۱۰۰۰ دنوں تک لیبر قوانین سے منسلک چھوٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اتر پردیش نے ایک سرکاری فرمان کے ذریعے تمام کارخانوں کو تین سالوں کے لیے تمام لیبر قوانین سےمستثنیٰ قرار دیا ہے جس میں مزدوروں کی حفاظت وسلامتی، کام کرنے والی عورتوں اور بچوں کی بروقت اجرت کی ادائیگی اور اقل ترین اجرت کی ادائیگی کے دفعات شامل ہیں۔ چوں کہ یہ سب دفعات مرکزی قوانین کو پس پشت ڈالتی ہیں اس لیے اس کے لیے صدر یا مرکزی حکومت سے اس کی توثیق ضروری ہے۔ حکومت نے گزشتہ بدھ کو سرکاری فرمان میں ترمیم بھی کی ہے۔ ایسے ترامیم کے مطابق صرف نئے کارخانوں، پرانی کمپنیوں اور مینو فیکچرنگ اکائیوں میں شامل ورکروں کے لیے ہی لیبر قانون میں تین سالوں کی عارضی چھوٹ کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مگر ریاست میں بندھوا مزدوری مخالفت قانون ۱۹۷۶، عمارات کی تعمیر ودیگر تعمیراتی لیبر کمیشن اور خدمت شرائط بمطابق ۱۹۹۱ تنخواہ کی شرائط بمطابق ۱۹۵۶ پہلے ہی کی طرح لاگو رہیں گے۔ مہاراشٹرا کے لیبر ڈپارٹمنٹ نے فیکٹریز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ صنعتوں کو کار آمد گھنٹوں پر چھوٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ چھوٹ ۳۰ جون تک کے لیے ہے۔ ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ ریاست میں کورونا وائرس کے پھیلنے کی وجہ سے مزدوروں کی کمی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا۔ صنعتوں کو فیکٹریز ایکٹ ۱۹۴۸ کے دفعہ ۵۱، ۵۲، ۵۴ اور ۵۶ سے چھوٹ دی گئی ہے اس کے بعد کمپنیاں ۱۲، ۱۲ گھنٹوں کی شفٹوں میں کام کر سکتی ہیں۔لیبر قوانین میں اتر پردیش اور مدھیہ پردیش نے ڈراکونین (Draconian) تبدیلیاں کی ہیں۔ اس کے خلاف آر ایس ایس سے منسلک بی ایم ایس کو چھوڑ کرتمام مرکزی ٹریڈ یونینوں نے ۲۲مئی کو قومی پیمانے پر ایک بڑے احتجاج کی اپیل کی ہے اور ٹریڈ یونینوں کے لیڈران راج گھاٹ پر مہاتما گاندھی کی سمادھی کے پاس دن بھر کا برت بھی رکھیں گے۔ ٹریڈ یونینوں میں کانگریس کی پشت پناہی والی INTUC بائیں بازو والی CITU اور AITUC و دیگر TUCC, SEWA, AICCTU, LPF اور UTC نے مرکزی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ جو فیصلے ریاستی حکومت کی طرف سے کیے گئے ہیں وہ محنت کش مزدوروں کے خلاف ہیں۔ محنت کش طبقہ حالیہ تالہ بندی کی وجہ سے ویسے بھی بڑی مصیبت میں ہے ۔ ٹریڈ یونینوں نے آزادانہ اور متحدہ طور پر مزدوروں پر ہونے والے مجوزہ استحصال کے سلسلے میں وزیر اعظم اور وزیر محنت سے ملاقات کا بھی پروگرام بنایا ہے۔ ساتھ ہی ۲۲ مئی کو تمام یونینوں کی طرف سے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے پاس مشترکہ نمائندگی کرتے ہوئے بھارتی حکومت کی جانب سے مزدوروں کے انسانی حقوق کی پامالی کے سلسلے میں ایک یاد داشت پیش کی جائے گی۔
***

 

ایسے حالات میں یہ فرامین انٹرنیشنل لیبر آگنائزیشن کی قرارداد ۲۰۱۷ کی بھی خلاف ورزی ہے کیوں کہ اس میں سفارش کی گئی ہے کہ کسی آفت کے موقع پر ریاستوں کو یقینی بنانا ہوگا کہ کمزور اور حاشیے پر کھڑے لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق روزگار چننے کی آزادی ہو۔ مگر ہماری حکومتیں بین الاقوامی عہد وپیماں کی خلاف ورزی کرنے پر تلی ہوتی ہیں ۔