جعلي انکاؤنٹر، پھر ايک بار پوليس کي وردي داغدار
محکمہ پوليس کو احتساب کے دائرے ميں لانا ضروري
از : زعیم الدین احمد، حیدرآباد
محکمہ پوليس پھر ايک بار سرخيوں ميں ہے، اس بار يہ رياست تلنگانہ کي پوليس کي غير ذمہ دارانہ اور انسانيت کو شرم سار کرنے والي کارروائي کي وجہ سے سرخيوں ميں ہے۔ 2019 ميں ايک ويٹرنري ڈاکٹر کي عصمت دري اور قتل کے بعد گرفتار کيے گئے چار مشتبہ افراد کے ’’انکاونٹر‘‘کے قتل کي تحقيقات کے ليے سپريم کورٹ نے ايک تحقيقاتي کميشن کي تشکيل دي تھي۔ کميشن نے اپني تحقيقاتي رپورٹ سپريم کورٹ کو پيش کر دي ہے، کميشن کي تحقيقات سے پتہ چلا ہے کہ جن چار افراد کو گوليوں سے بھون ديا گيا تھا وہ دراصل ايک جعلي انکاؤنٹر تھا، اس کميشن نے سفارش کي ہے کہ ان چار افراد کے قتل ميں ملوث دس پوليس افسروں کے خلاف فرد جرم عائد کي جائے اور ان پر قتل کا مقدمہ چلايا جائے۔
اس پينل کي سربراہي جسٹس وي يس. سرپورکر کر رہے تھے ان کے ساتھ جسٹس ريکھا پي سوندر بلدوٹا اور ڈاکٹر ڈي آر کارتھيکيان اس پينل کے ممبر تھے، اس تحقيقاتي کميشن نے کہا کہ "پوليس نے ملزمين پر جان بوجھ کر اس ارادے سے گولي چلائي تاکہ ان کو موت کے گھاٹ اتار ديا جائے”۔ پينل نے اپني تحقيقات ميں يہ بھي پايا کہ پوليس نے جان بوجھ کر اس حقيقت کو دبانے کي کوشش کي ہے کہ ان مرنے والوں ميں سے تين لڑکے نا بالغ تھے، ان ميں سے دونوں کي عمريں تو 15 سال يا اس سے بھي کم تھيں۔ اس پينل نے پوليس اس بيانيہ کو غلط اور من گھڑت قرار ديا جس ميں پوليس کا دعويٰ تھا کہ اس نے اپني دفاع کرتے ہوئے گولياں چلائيں تھيں، ” پوليس کا دعويٰ کہ پوليس پارٹي نے اپنے دفاع ميں يا مقتول ملزمين کو دوبارہ گرفتار کرنے کي کوشش ميں گولي چلائي وہ من گھڑت ہے۔ ريکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ موقع واردات سے لے کر چٹان پلي کے واقعہ تک پوليس پارٹي کا پورا بيانيہ من گھڑت ہے۔ مقتولين کے ليے پوليس کا اسلحہ چھيننا ناممکن تھا اور وہ اسلحہ چلانا جانتے بھي نہيں تھے۔ لہذا پوليس کا پورا بيانيہ ہي ناقابل يقين ہے۔”
سال 2019 ميں ايک خاتون کي جو پيشہ سے وٹرنري ڈاکٹر تھي، عصمت دري اور قتل کے واقعہ نے ساري رياست ميں اور بالخصوص شہر حيدرآباد ميں غم وغصہ لہر دوڑا دي تھي، پوليس اس عوامي ردعمل کو کم کرنے اور اس کيس کو جلد سلجھانے کے ليے اس نے چار نوجوانوں کو گرفتار کيا اور موقع واردات پر لے جا کر ان کا انکاؤنٹر کرديا، اور عوام بھي پوليس کي اس کارروائي پر پيٹھ تھپتھپانے لگي، لوگ ان کي اس کارروائي پر انہيں شاباشي دينے لگے، جگہ جگہ ان کي گل پوشي کي گئي، ميڈيا ميں بھي خوب تعريفيں ہونے لگيں، مٹھائياں تقسيم کي جانے لگيں، پھر بھلا سياست دان کيسے پيچھے رہتے وہ بھي اس بہتي گنگا ميں ہاتھ دھونے لگے، ليکن اس وقت کچھ لوگ پوليس کي اس کارروائي کو غلط قرار دے رہے تھے تو عوام انہيں بھي گاليوں سے نواز رہي تھي، ليکن آج يہ بات ثابت ہو گئي ہے کہ پوليس کي وہ يک طرفہ کارروائي غلط اور قابل مذمت تھي۔
تحقيقاتي کميشن نے جب پوليس ريکارڈز، داخل کيے گئے حلف ناموں، مختلف دستاويزات اور مختلف افسران جو اس کيس سے وابستہ تھے ان کے بيانات، گواہوں کے بيانات کا جائزہ ليا تو انہيں پوليس کے بيان کردہ واقعات ميں بہت سي خامياں نظر آئيں جيسے:
پوليس کو ايک بھي گولي نہ لگنا اور جائے وقوع پر ايک بھي گولي کا نہ ملنا، کميشن نے کہا کہ يہ کيسے ممکن ہے کہ ملزمين نے گولي چلائي ہو اور وہ پوليس کو نہ لگي ہو جب کہ جائے وقوع پر ايک بھي گولي نہيں ملي؟
پوليس کے مطابق ملزمين نے پوليس پر فائرنگ کي جو ان کا احاطہ کر رہے تھے انہيں گولي نہيں لگي البتہ کچھ گولياں وہاں موجود چٹانوں پر لگيں اور وہيں لگي رہيں۔ اور جب پوليس نے جوابي کارروائي ميں گولياں چلائيں تو وہ وہاں موجود درختوں يا ان کے درمياں چٹانوں پر کيوں نہيں لگيں؟ اگر لگيں تو پھر وہاں کوئي گولي برآمد کيوں نہيں ہوئي؟ يہ بہت ہي دل چسپ اور حيرت انگيز بات ہے کہ جائے وقوع سے کوئي گولي برآمد نہيں ہوئي اور نہ ہي چلائے گئے تمام کارتوس برآمد ہوئے۔‘‘ کميشن نے يہ بھي کہا کہ ’’موجود ريکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ مبينہ فائرنگ کا پورا منظر محفوظ نہيں کيا گيا اور گوليوں کي عدم بازيابي بھي فائرنگ کے بيانيہ پر شک پيدا کرتي ہيں۔‘‘
عدالت کو ايف آئي آر بھيجنے ميں تاخير سے ثابت ہوتا ہے کہ صبح 8 بجے تک بھي ايس ايچ او کو شکايت موصول نہيں ہوئي تھي، اس سے يہ نتيجہ اخذ کيا جانا چاہيے کہ تاخير اس ليے ہوئي کيوں کہ اس ميں گڑبڑ کي گئي تھي”
اس پينل نے يہ بھي کہا کہ ’’اس بات کا گہرا شبہ ہے کہ سي سي ٹي وي فوٹيج، تفتيش کي ويڈيو ريکارڈنگ اور کرائم سين کے حوالے سے شواہد کو کميشن کو دکھانے سے روک ديا گيا ہے۔” جب کہ رياست ميں ديہي علاقوں سے لے کر شاہراہوں تک ہر جگہ حکومت نے سي سي ٹي وي کيمرے نصب کيے ہيں، ساري رياست ميں سي سي ٹي وي کيمروں کا بہت موثرکن جال موجود ہے”، کميشن نے کہا کہ پوليس نے پريس کانفرنس ميں اس وقت يہ دعويٰ کيا تھا کہ مشتبہ افراد کي گرفتاري ميں سائنسي شواہد نے بڑا اہم کردار ادا کيا ہے، ليکن بعد ميں تفتيشي افسر جے سريندر ريڈي نے کہا کہ اس نے شاد نگر پوليس اسٹيشن يا روي گيسٹ ہاؤس سے سي سي ٹي وي کي کوئي فوٹيج اکٹھي نہيں کي ہے۔ پينل نے کہا کہ پہلے پيش کيے گئے جائے وقوع کي ويڈيو فوٹيجز بھي ترتيب ميں نہيں ہيں اور ايسا محسوس ہوتا ہے کہ يہ بہت ہي مختصر تراشے ہيں جو حقيقت ميں ايک مکمل فوٹيج سے حاصل کيے گئے ہيں۔‘‘ ’’رياست کي طرف سے اس بات کي کوئي وضاحت نہيں دي گئي ہے کہ کميشن کے سامنے کيوں پوري فوٹيج نہيں رکھي گئي يہ قابل مذمت بات ہے۔‘‘
اس طرح کے بہت سے شبہات کميشن نے اٹھائے ہيں، يہ صرف ان کے شبہات ہي نہيں ہيں بلکہ يہ ان کي تحقيقات کا نچوڑ ہے کہ پوليس نے ہوش و حواس ميں اور جانتے بوجھتے ان کا قتل کيا ہے، اس قسم کي کاروائياں پوليس کے ليے کوئي بات نہيں ہيں اس سے قبل بھي بہت سارے انکاؤنٹر کيے جا چکے ہيں جن پر شبہات پائے جاتے ہيں، چاہيے وہ آلير انکاؤنٹر ہو يا ورنگل کا، ان کي فہرست کافي طويل ہے، کميشن نے ان دس پوليس اہلکاروں پر قتل کا مقدمہ چلانے کي سفارش کي ہے، ليکن سوال يہ ہے کہ کيا ان پوليس اہلکاروں نے خود سے يہ کارروائي کي ہے؟ کيا کسي اعلي پوليس افسر نے انہيں گولي چلانے کے احکامات جاري نہيں کيے تھے؟ يہ تو معمولي پوليس اہلکار ہيں جو کسي اعلي پوليس افسر کي اجازت کے بغير کوئي بھي کارروائي نہيں کرتے پھر بھلا ان چھوٹے اہلکاروں پر مقدمہ کيوں؟ کيوں ان کے بڑے افسروں پر مقدمہ درج نہيں کيا جا رہا ہے؟ کيا اس واقعہ ميں کوئي سياسي قائد تو ملوث نہيں ہے جس کو بچانے کي کوشش کي جا رہي ہو؟ ان ساري باتوں کي تحقيقات ہوني چاہئيں، اس سارے مقدمہ کو سپريم کورٹ اپني راست نگراني ميں رکھ کر انصاف کے حصول کو يقيني بنائے۔
ايک اہم بات يہ ہے کہ پوليس کي اس قسم کي کاروائيوں کو فوري انصاف کا نام دے کر ان کي پيٹھ تھپتھپانے سے حقيقي انصاف کا حصول ممکن نہيں ہو گا اور پوليس کا فوري انصاف جو کہ ہميشہ غلط ہي ہوتا ہے بہت خطرناک نتائج برآمد کرے گا، اس طرح کا فيصلہ نہ تو پوليس اپنے ہاتھ ميں لے اور نہ ہي عوام، اگر اسي طرح پوليس اور عوام قانون کو اپنے ہاتھ ميں ليں گے تو ملک ميں انارکي پھيل جائے گي اور ملک کے امن و امان کو خطرہ لاحق ہو جائے گا، عوام کي امنگوں کے مطابق انصاف کيا جاتا رہا تو ملک کا تانا بانا ٹوٹ جائے گا، عوام کے اندر بھي فوري انصاف اور وہ بھي پوليس کے ذريعے کيے جانے والي کارروائيوں کو سراہنا کوئي اچھي علامت نہيں ہے۔ ميں سمجھتا ہوں کے ان کے اندر يہ رجحان اس ليے پيدا ہوا کہ ہمارے ملک کا نظام انصاف انتہائي فرسودہ اور اس کو نافذ کرنے والے ادارے جانب دار ہو گئے ہيں، وہ صاحب اقتدار اور صاحب ثروت کے ليے ايک رويہ اور غريب و محکوم کے ليے دوسرا رويہ اختيار کرتے ہيں۔ ايسي صورت ميں ان کا پوليس کي ايسي کارروائيوں کو سراہنا بادي النظر ميں واجبي نظر آتا ہے۔ ہمارے ملک کا نظام انصاف اس قدر سست اور مہنگا ہے کہ ايک غريب اس کي تاب نہيں لا سکتا، سالہا سال انتظار کے بعد بھي اسے انصاف نہيں ملتا، بعض اوقات تو وہ اپني جان ہي گنوا بيٹھتا ہے، تب ہي لوگوں کے دلوں ميں يہ خيال پيدا ہو رہا ہے کہ انہيں فوري انصاف مل جائے۔ ليکن ہميں اس بات کو بھي نہيں بھولنا چاہيے کہ اکثر اس قسم کي کارروائياں حقيقت سے دور بلکہ انصاف کے برعکس ہوتي ہيں، ہميں اس قسم کا فوري انصاف نہيں بلکہ حقيقي انصاف چاہيے جو جلدي بھي حاصل ہو۔
***
***
ہمارے ملک کا نظام انصاف اس قدر سست اور مہنگا ہے کہ ایک غریب اس کی تاب نہیں لا سکتا، سالہا سال انتظار کے بعد بھی اسے انصاف نہیں ملتا، بعض اوقات تو وہ اپنی جان ہی گنوا بیٹھتا ہے، تب ہی لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو رہا ہے کہ انھیں فوری انصاف مل جائے۔ لیکن ہمیں اس بات کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اکثر اس قسم کی کارروائیاں حقیقت سے دور بلکہ انصاف کے برعکس ہوتی ہیں، ہمیں اس قسم کا فوری انصاف نہیں بلکہ حقیقی انصاف چاہیے جو جلدی بھی حاصل ہو۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 29 مئی تا 04 جون 2022