جز وقتی مدارس کے لیے کچھ مشورے
وحید داد خان، حیدر آباد
ماہ نامہ زندگی نو، نو مبر 2020 کے صفحہ 4 پر مولانا ابواللیث اصلاحی ندویؒ کی تحریروں سے ایک انتخاب بعنوان ’’دینی تعلیم کے وسیع پروگرام کی ضرورت‘‘ شائع ہوا ہے۔
اس انتخاب میں مولانا مرحوم نے مسلمانوں کی ابتدائی تعلیم و تربیت (دینی) کے لیے ایک وسیع و ہمہ گیر نظام قائم کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اندازہ ہے کہ جس وقت مولانا نے اس بات پر توجہ دلائی تھی اس وقت اور اب کے حالات کا مجھے کچھ بھرپور اندازہ تو نہیں ہے لیکن ملت اسلامیہ سے یہ حسنِ ظن ضرور ہے کہ حسب استطاعت اس نے نہ صرف دینی درس گاہوں کے قیام کی کوشش کی ہوگی بہت سارے جز وقتی، صباحی ومسائی مدرسے مساجد میں قائم کیے گئے ہوں گے۔ انداہ ہے کہ جزوقتی مساجد کے صباحی و مسائی مدارس کے نتیجہ میں تلاوت قرآن اور نماز و دیگر عبادات کی بنیادی باتوں سے بچوں کو آگہی ہو رہی ہے۔ ان جزوقتی مدارس کے نظام کے سلسلے میں چند تجاویز راقم الحروف پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہے۔ امید کہ دیگر احباب بھی اس پر اظہار خیال فرمائیں گے۔
جہاں تک ان جز وقتی مدارس کا معاملہ ہے ان میں بنیادی عبادات و عقائد کی معلومات طلبا کو سکھائی جاتی ہیں اور قرآن کی تلاوت بھی سکھا دی جاتی ہے لیکن اخلاق اور دنیاوی معاملات سے شاید ہی کچھ پڑھایا جاتا ہو جس سے تفریق دین و دنیا کا تصور مٹانے اور دین کی وسعت و ہمہ گیری بھی طلبا جان سکیں۔ اس میں شک نہیں یہ جزوقتی مدارس عام طور پر کم عمر بچوں کے لیے ہی کام کرتے ہیں اس لیے انھیں دینی گہری معلومات شاید نہیں دی جا سکتی ہیں۔
میری تجویز یہ ہے کہ بچوں کو یہ بھی مناسب انداز میں سکھا یا رٹا دیا جائے کہ جھوٹ بولنا گناہ ہے، دھوکا دینا برائی ہے، غیبت کرنا نہایت بری برائی ہے۔ ماں، بہنیں، بیٹی وغیرہ (اپنے اور دوسروں کے) نہایت قابل احترام ہوتےہیں، ان سے مہذب طریقہ پر پیش آنا چاہیے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کو آپس میں دوری رکھنا چاہیے۔ شادی بیاہ میں جہیز دینے اور مانگنے کا رواج اور بیٹیوں کو وراثت میں ان کا شرعی حق نہ دینا بہت بڑی خرابی کی بات ہے۔
سگریٹ، شراب اور دیگر نشہ آور چیزیں اللہ نے حرام کی ہیں۔ ماں باپ کی اطاعت اور احترام کرنا چاہیے، یہ ان کا حق ہے اور اللہ کا حق والدین سے بھی زیادہ ہے اس کی یعنی اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت جائز نہیں ہے۔
غیر مسلم اور مسلمان سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اگرچہ وہ مسلمان نہیں ہیں لیکن ہم سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں اس لیے ان سے محبت و احترام کا رشتہ ہونا چاہیے۔ ہر ایک کو اپنے مذہب (دین) پر عمل کرنے کی آزادی ہے کسی کو دوسروں پر بردستی نہیں کرنی چاہیے۔
دوسروں کے مذہب کو جاننے کی کوشش کرنا اور اپنے دین سے دوسروں کو آگاہ کرنا چاہیے تا کہ باہمی آگہی ہو سکے اور دوسرے ہمارے دین کے متعلق غلط باتیں ذہن میں نہ بٹھالیں۔
سود حرام ہے۔ کاروبار میں دھوکا دینا، ناپ تول میں دھوکادینا بڑی برائی کی بات ہے۔
اسلام نے ہر معاملہ میں ہماری رہ نمائی کی ہے۔ اگر ہمیں معلومات نہ ہوں تو اہل علم سے (علما سے) جاننے کی کوشش کرنا چاہیے۔
مذکورہ بالا باتیں ہو سکتا ہے کسی کو لگے کہ کم عمر بچوں کو بتانا مشکل ہے، لیکن ان کو سہل طریقہ سے سمجھانا چاہیے۔ ہو سکے تو کوئی صاحب فن شاعر ان باتوں کو اشعار میں ڈھال دیں اور بچے انھیں شوق سے ازبر کر لیں۔
ایک اور تجویز میری یہ ہے کہ اردو زبان پڑھنا لکھنا سکھانے کا نظم بھی بہت آسانی سے کیا جاسکتا ہے کیوں کہ حروف کی شناخت تو عربی کی تعلیم (تلاوت کی تعلیم) کے ذریعہ تو ہو ہی جاتی ہے۔ مزید معمولی زحمت کے ذریعہ اردو زبان کو بھی سکھایا جاسکتا ہے۔ اگر یہ ہو جاتا ہے تو مسلمانوں کے اجداد کے ذخیرۂ علم سے استفادہ ممکن ہو سکے گا۔
مذکورہ بالا امور پر جید باصلاحیت ماہرین کے کام کرنے ہی کچھ اچھے نتائج نکل سکتے ہیں۔ میں نے صرف اشارے کیے ہیں۔■