جدید ٹکنالوجى اوردعوت اسلام
ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی، آندھراپردیش
دنیا میں جتنی قومیں آباد ہیں وہ تمام کے تمام صرف اپنے لیے جیتی ہیں، ان کی تمام تگ ودو صرف ان کی ذات یا اس سے آگے ان کے اہل خانہ تک محدود رہتی ہیں۔ لیکن امت مسلمہ تمام انسانوں کے لیے جیتی ہے، اس کے پیش نظر صرف اپنی ذات یا اس سے آگے عزیز واقارب، بستی، قصبہ اور شہر ہی نہیں بلکہ فرش خاکی پر رہنے والا ہر فرد بشر ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو اس کو اپنے مسلم امت ہونے کا احساس نہیں ہے۔ مسلم امت کو اللہ رب العزت نے جانوروں کی طرح کھانے پینے اور مر مٹنے کے لیے نہیں پیدا کیا ہے بلکہ ان کے ذمہ وہ کام سپرد کیا گیا ہے جو ان سے پہلے انبیاء ورسل انجام دیا کرتے تھے۔ ان کو صرف اپنی ذات، یا اہل خانہ کی فلاح وبہبود کے لیے نہیں بلکہ ساکنانِ عالم کی فلاح وبہبود کے لیے برپا کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
تم بہترین امت ہو، جو پوری انسانیت کے لیے پیدا کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو، اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ (آل عمران:110)
مولانا عبد الماجد دریا آبادی رحمہ اللہ علیہ لکھتے ہیں: یعنی تم اس لیے بنائے گئے ہو کہ لوگ تمہارے نقش قدم پر چلیں، تم ساری دنیا کے لیے ایک نمونہ بنا کر بھیجے گئے ہو، خطاب امت محمدیہ ہے۔۔
اے مسلمانو! تم اپنی ذمہ داری پوری طرح محسوس کرو، تم توحید کے امانت دار ہو، زمین پر اللہ کے نائب وخلیفہ ہو، بہ طور اس کی پولیس کے ہو۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں: اس آیت میں امت محمدیہ کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ یہ امت پوری انسانیت کی طرف داعی ومصلح بناکر بھیجی گئی ہے اور عالم گیر دعوت وتبلیغ کے منصب پر فائز کی گئی ہے، جس کا کام لوگوں کو حق کی طرف بلانا اور باطل سے روکنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معروف میں تمام نیکیاں داخل ہیں، غیر مسلموں کو دعوتِ اسلام، مسلمانوں کی اصلاح۔ منکر میں تمام برائیاں شامل ہیں، کفر، فسق، حرام اور مکروہات کا ارتکاب وغیرہ۔ نیز نیکی کی طرف بلانے اور برائی سے روکنے کا کوئی ایک طریقہ متعین نہیں، زبان سے قلم سے، طاقت وقوت کے استعمال سے، اور اثر ورسوخ سے، انفرادی طور پر یا جماعتی صورت میں یہ تمام ہی صورتیں معروف کا حکم دینے اور منکر سے روکنے کی ہو سکتی ہیں۔
امت مسلمہ پوری انسانیت کے لیے داعی ومصلح ہے، اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پوری دنیا کے انسانوں کو حق کی طرف رہنمائی کرے اور باطل کی جانب جانے سے روکے۔ انسانوں کو اچھائی کی طرف بلانے اور برائی سے روکنے کا کوئی متعین طریقہ نہیں ہے بلکہ اس میں ہر اس طریقہ کو اپنانا چاہیے جس کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک خدا کا پیغام پہنچانا آسان اور سودمند ثابت ہو۔
موجودہ دور ٹکنالوجی کا دور ہے۔ اس دور میں اس عالمی پیغام کو عام کرنا جتنا سہل ہے شاید اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ آج ایک آدمی دنیا کے کسی گوشہ میں بھی بیٹھ کر اللہ کا پیغام پوری دنیا میں پہنچا سکتا ہے، اسے کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے، صرف وہ جدید ٹکنالوجی کے استعمال سے اچھی طرح واقف ہو۔
لیکن شرط یہ ہے کہ وہ صرف اللہ کی طرف بلائے نہ اپنی ذات کی طرف، نہ کسی شخصیت کی طرف اور نہ کسی قبیلے، جماعت نسل یا وطن کی طرف بلکہ ان کی دعوت صرف ایک اللہ کی طرف ہو، ساتھ ہی بلانے والا خود بھی عمل صالح کا پیکر اور اخلاص کا مجسمہ ہو!
جدید ٹکنالوجی کے ذریعہ اللہ رب العزت کے پیغام کو عام کرنے کا طریقہ کار ملاحظہ فرمائیں!
(1) اس وقت روئے زمین پر شاید ہی کوئی خطہ ایسا ہو جو انٹرنیٹ سے جڑا نہ ہو، ہر ایک اس کو استعمال میں لا رہا ہے، آپ وہاں پیغام رب العالمین کو شیئر کرسکتے ہیں۔
(2) اس وقت انگریزی عالمی زبان ہے، اس میں اسلام کے اصول وضوابط کو عام کرسکتے ہیں۔
(3) اس وقت اکثر وبیشتر حضرات "یوٹیوب” کو استعمال کرتے ہیں، وہاں ہم زیادہ سے زیادہ مختصر دینی اسلامی اور اصلاحی ویڈیوز اپلوڈ کر سکتے ہیں، خاص طور سے چھوٹے بچے کارٹون بینی کے شوقین ہوتے ہیں ہم اسلامیات سے متعلق کارٹون کے طور پر انگریزی، ہندی اور اردو میں مختصر ویڈیوز اپلوڈ کر سکتے ہیں۔
(4) ہم اپنے ویڈیوز کا عنوان کچھ اس طرح لگائیں جس میں دلکشی ہو، جو باعث کشش ہو جیسے:
محمد ﷺ سب کے لیے
قرآن سب کے لیے
اسلام سب کے لیے
وغیرہ وغیرہ، اس طرح ہم اللہ رب العزت کے عالمی پیغام کو پوری دنیا میں بسہولت پہنچا سکتے ہیں، اللہ تعالی ہمیں خدمتِ اسلام کے لیے قبول فرمائے (آمین)