توہین عدالت کے تازیانے سے اظہار رائے کو کچلنے والا جشن آزادی

پرشانت بھوشن پر مقدمہ نے آزادی ،عدل اور مساوات جیسے نعروں کی قلعی کھول دی

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

 

پرشانت بھوشن پر درج کیا جانے والا ہتک عزت کا مقدمہ آزادی، عدل اور مساوات جیسے خوبصورت نعروں کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے۔ عدالت کی آڑ میں یہ سیاست کا بہترین مظہر ہے۔ معمولی چور اور نامی گرامی ڈاکو میں بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ ایک ڈر کر چوری کرتا ہے اور دوسرا ڈرا کر لوٹ لیتا ہے۔ انگریزوں کی غلامی سے آزادی کے بعد سیاست کی دنیا میں یہ رجحان پیدا ہوا۔ عوامی رہنما چوری چھپے رشوت لینے لگے آگے چل کر اپنی جان بچانے کے لیے در پردہ قتل وغارت گری میں بھی ملوث ہونے لگے۔ یہ جمہوریت کے ابتدائی ایام تھے جب وہ گھٹنوں کے سہارے رینگتی تھی۔ اس کے بعد جمہوری اقدار مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئیں اور ساری دنیا نے اس حقیقت کا اعتراف کرلیا کہ اگر امریکہ دنیا کی عظیم ترین جمہوریت ہے تو ہندوستان کو وسیع ترین جمہوریت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
عنفوانِ شباب پر پہنچ کر جمہوری نظامِ سیاست خوب طاقتور اور بے خوف ہوگیا ہے۔ ہوش سنبھالنے کے بعد اس نے دھرم پریورتن کرلیا ہے۔ اب وہ الحاد کی گاندھی ٹوپی کے بجائے کے بجائے ہندوتوا کا تلک لگا کر وارد ہوتا ہے گھوڑے پر سوار ہوکر بستی میں داخل ہونے کے بعد ڈاکوؤں کی مانند پہلے ہوائی فائر کرکے بستی والوں کو خوفزدہ کرتا ہے اس کے بعد ڈنکے کی چوٹ پر مال و اسباب اور عزت و آبرو لوٹ کر لے جاتا ہے۔ فی زمانہ ملک میں علی الاعلان لوٹ مار کا کاروبار جاری و ساری ہے۔ اپنے مخالفین کو قابو میں کرنے کے لیے خوف ودہشت پھیلانا عصر حاضر کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اس وبا کے جراثیم سیاست سے نکل کر عدالت کی دہلیز پر پہنچ چکے ہیں۔ ڈر کا کاروبار ایک دو دھاری تلوار ہے اس میں ڈرانے والا جب ناکام ہوتا ہے تو خود ڈر جاتا ہے۔ پرشانت بھوشن کے معاملے میں یہی ہوا کہ پہلے عدالت عظمیٰ نے انہیں ڈرانے کی کوشش کی لیکن جب وہ نہیں ڈرے تب عدالت خود ڈر گئی۔ پرشانت بھوشن کا معاملہ یوں تو خاصا پیچیدہ ہے مگر اسے ایک آسان مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ کانپور کے بکرو گاؤں میں گزشتہ ماہ 2 جولائی کو 8 پولیس اہلکاروں کے قاتل وکاس دوبے کا انکاؤنٹر ہوگیا اور اس کے ساتھی ایک کے بعد ایک موت گھاٹ اتارے جانے لگے۔ اس بیچ 50,000 روپیوں کا انعامی بدمعاش اور دوبے کا دستِ راست اوما کانت شکلا اچانک پولس تھانے میں حاضر ہوگیا۔ اپنی ڈرامائی خود سپردگی کے بعد اس نے بکرو قتل کیس میں ملوث ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ لوگ خوف کی وجہ سے وکاس دوبے کے ساتھ تھے۔ شکلا نے قبول کیا کہ اس نے بھی پولس پر گولی چلائی تھی۔ اس کے گھر سے پولس کے چرائے ہوئے کارتوس بھی برآمد ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ کل تک وکاس دوبے کے ساتھ عوام اور پولس کو ڈرانے والے اوما کانت نے آج یہ حرکت کیوں کی؟ اس لیے کہ ڈر پھیلانے کے دھندے میں اس کا دیوالیہ پٹ گیا اور وہ خود ڈر گیا۔
پرشانت بھوشن پر عدالتِ عظمیٰ نے اس امید میں ہاتھ ڈالا کہ وہ ڈر کر معافی مانگ لیں گے اور پھر جب بھی حکومت یا عدالت پر تنقید کریں گے تو ان کا معافی نامہ دکھا کر انہیں رسوا کیا جا سکے گا لیکن یہ داوں الٹا پڑ گیا۔ پرشانت بھوشن ڈرنے کے بجائے اَڑگئے۔ انہوں نے دو صفحات کے نوٹس کے جواب میں 132صفحات پر مشتمل حلف نامہ داخل کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خود سپریم کورٹ کے جج ڈر گئے۔ انہوں نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ہونے والی کھلی عدالت میں پہلے تو مائیکروفون بند کر کے پرشانت بھوشن کے وکیل راجیو دھون سے فون پر انفرادی گفتگو کی۔ قیاس یہ ہے کہ انہوں نے معافی تلافی کے بعد معاملہ رفع دفع کرنے کی پیشکش کی ہوگی۔ یہ وہی اوما کانت شکلا والی صورتحال ہے جس میں وہ اپنے گلے میں نام کی تختی لگا کر مع اہل و عیال پولس تھانے میں پہنچ گیا لیکن بات نہیں بنی۔ پرشانت بھوشن نے معافی مانگنے سے صاف انکار کر دیا اور مجبوراً ڈرے سہمے جج صاحب کو اپنی عزت بچانے کے لیے مقدمہ چلانے کا فیصلہ کرنا پڑا۔
عدالتِ عظمیٰ کی بنچ کو یہ خوش گمانی ہے کہ وہ کورٹ اور ججوں کے وقار کے تحفظ کے لیے اس معاملے کو انجام تک پہنچانا چاہتی ہے۔ اس کے برعکس پرشانت بھوشن کا کہنا ہے کہ توہین عدالت کی طاقت کو ’شہریوں کی جانب سے جائز تنقیدی آوازوں‘ کو دبانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت کے ترازو میں اب ایک پلڑے میں جج صاحب اور دوسرے میں عدلیہ کی عزت ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ کون سا پلڑا بھاری ہوتا ہے لیکن یہ طے ہے کہ ہر دو صورت میں آنکھوں پر پٹی باندھے عدالت کی دیوی پشیمان ہوگی۔ 21 جولائی کو پرشانت بھوشن اور ٹوئٹر انڈیا کے خلاف سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے توہین عدالت کی مجرنامہ کارروائی کے لیے مقدمے کا آغاز کیا۔ اس کیس کی سماعت جسٹس ارون مشرا، بی آر گوائی اور کرشن مراری پر مشتمل بنچ کے حوالے کی گئی۔
لاک ڈاؤن کے دوران تارکین وطن مزدوروں کے بحران اور یلغار پریشد کیس کے سلسلے میں کارکنوں کی قید جیسے متعدد معاملات کے خلاف آواز بلند کرنے کے سبب پرشانت بھوشن حکومت و عدالت کو کھٹکتے رہے ہیں۔ وہ کشمیر سمیت ملک کے متعدد علاقوں میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور مذہبی فسادات کے خلاف بھی آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ پچھلے سال فروری 2019ء میں بھی سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن میں ہنگامہ پر اپنے ٹویٹس کے ذریعے عدالت کو بدنام کرنے کے الزام میں اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے بھوشن کے خلاف سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی۔ ان پر سی بی آئی کے سابق عبوری چیف ایم ناگیشور راؤ کی تقرری کے سلسلے میں عدالت کو گمراہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس بار پرشانت بھوشن پر ایک ٹویٹ میں ہندوستانی جمہوریت کی تباہی میں سپریم کورٹ کے چار سابق چیف ججوں کو مورد الزام ٹھہرانے اور دوسرے ٹویٹ میں سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس ایس اے بوبڈے پر نکتہ چینی کا الزام لگایا گیا ہے۔
چیف جسٹس پر پرشانت بھوشن کی تنقید بالکل واجب تھی۔ ذرائع ابلاغ میں چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی ایک تصویر شائع ہوئی تھی جس میں وہ مہنگی ترین بائیک پر بغیر ہیلمٹ اور ماسک کے بیٹھے ہوئے نظر آرہے تھے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے لکھا تھا ’’ کورونا وبا کے دور میں ہیلمٹ اور ماسک کے بغیر موٹر سائیکل کی سواری کی جبکہ عدالت کو لاک ڈاؤن میں رکھ کر لوگوں کو انصاف جیسے حق سے محروم رکھا‘‘۔ ایک اور ٹویٹ میں پرشانت بھوشن نے لکھا تھا ’’مستقبل میں مورخین جب اس بات کا جائزہ لیں گے کہ گزشتہ 6 برسوں کے دوران باضابطہ ایمرجنسی کے نفاذ کے بغیر ہی بھارتی جمہوریت کو کس طرح سے تباہ کیا گیا، تو وہ اس تباہی کے لیے سپریم کورٹ کے کردار کی خاص طور پر نشاندہی کریں گے، بالخصوص سپریم کورٹ کے4 سابق منصفین اعظم کا۔‘‘
جسٹس ارون مشرا کی قیادت والی سہ رکنی بنچ فی الحال پرشانت بھوشن کے 2009ء میں دیے گئے اس بیان کا بھی جائزہ لے رہی ہے جس میں پرشانت بھوشن نے کئی سابق چیف ججوں کو بدعنوان قرار دیا تھا۔ اس معاملے کی شنوائی کو ضروری قرار دیتے ہوئے جسٹس ارون مشرا کی بنچ نے کہا ہے کہ ’’ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ بدعنوانی سے متعلق ریمارک توہین عدالت کا باعث ہیں یا نہیں۔ اس لیے اس معاملے کی سماعت ضروری ہے۔‘‘ پرشانت بھوشن کے خلاف یہ کیس 2009ء میں تہلکہ میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو کی بنیاد پر قائم ہوا تھا جس میں انہوں نے سابق چیف جسٹس ایس ایچ کپاڈیہ اور جسٹس کے جی بالاکرشنن پر الزامات عائد کئے تھے۔ انٹرویو کے دوران پرشانت بھوشن نے کہا تھا کہ اس وقت تک ملک کے ۱۶؍ چیف جسٹسوں میں سے نصف بدعنوان تھے۔
مذکورہ مقدمے میں پرشانت بھوشن کے علاوہ تہلکہ کے ایڈیٹر ترون تیج پال کو بھی توہین عدالت کے مقدمے کا سامنا تھا تاہم، انہوں نے پہلے ہی معافی مانگ لی۔ جبکہ پرشانت بھوشن نے معافی کے بجائے اپنی وضاحت میں انتقال شدہ ججوں کی دلآزاری پر افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ججوں کے تعلق سے بدعنوانی کا لفظ وسیع تر معنی میں استعمال کیا گیا تھا۔ پرشانت بھوشن کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی پر بحث میں سینئر وکیل دشینت دوے نے عدالت سے کہا کہ اس تنقید کو مثبت انداز میں دیکھا جائے۔ اس کا مقصد عدلیہ کی آزادی کو داغدار کرنا نہیں بلکہ اس کی بہتری ہے۔ اپنی جرح کے دوران انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عدلیہ کی افادیت دھیرے دھیرے کم ہوتی جا رہی ہے اور پرشانت بھوشن کے ٹویٹ کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ دشینت دوے نے اس ضمن میں 12؍ جنوری 2018ء کو جسٹس مدن بی لوکر اور جسٹس کورین جوزف کے تبصروں کا حوالہ دے کر کہا کہ سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان نے عدالت کے طریقہ کار پر جو تنقید کی تھی وہ پوری طرح غلط نہیں تھی۔ اپنی تنقید میں مذکورہ ججوں نے کہاتھا کہ سپریم کورٹ کا نظم ٹھیک سے نہیں چل رہاہے اور ایسی بہت سی چیزیں ہو رہی ہیں جو نہیں ہونی چاہئیں۔ دوے نے عدالت سے پوچھا کہ جب آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے تو اپنی رائے کو اپنے تک محدود رکھنا غلط ہے لیکن کیا اس اظہار کو توہین عدالت قرار دیا جائے گا؟
سابق وزیر قانون شانتی بھوشن نے اپنے بیٹے پرشانت بھوشن کی پیروی کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ میں پرشانت کے بدلے جیل جانے کے لیے تیار ہوں۔ شانتی بھوشن نے کورٹ سے اپیل کی کہ وہ اس پر شنوائی آن لائن سماعت کا سلسلہ ختم ہونے تک موخر کردے۔ اس لیے کہ کانفرنس کال کے ذریعہ پیروی میں انہیں زحمت ہوتی ہے۔ راجیو دھون اور کپل سبل نے بھی کہا کہ جب 11سال انتظار ہوگیا تو چند ماہ اور سہی لیکن عدالت اپنے موقف پر اڑی رہی اور 17 اگست کی تاریخ مقرر کردی۔ عدالت نے الٹا شانتی بھوشن کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت بزرگ ہیں۔ انہیں اس معاملے میں دلائل نہیں دینے چاہئیں نیز، یہ بھی کہا کہ آپ کی دلیلیں قانونی نہیں بلکہ جذباتی ہیں۔عدالت کو اگر واقعی شانتی بھوشن کی بزرگی کا خیال ہوتا جنہوں نے اندرا گاندھی کےانتخاب کو کالعدم قرار دیا تھا تو اس طرح کا بھونڈا تبصرہ نہیں کرتی۔
شانتی بھوشن کی دلیل کو پدرانہ محبت کا نام دے کر ٹھکرا دیا جائے تب بھی ان ۱۶؍ مشہور سماجی کارکنان کا کیا کریں گے جنہوں نے عدالت سے پرشانت بھوشن کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان جہد کاروں کا کہنا ہے کہ اگر عدالت پرشانت بھوشن کو کوئی سزا دیتی ہے تو وہی سزا ان کو بھی دی جائے۔ اپیل کنندگان میں ارونا رائے، جینتی گھوش، شانتا سنہا، ای اے ایس شرما، پی سائی ناتھ، ٹی ایم کرشنا، جگدیپ ایس چھوکر، انجلی بھاردواج، پربھات پٹنائک، بیزوادا ولسن، نکھل ڈے، دیب مکھرجی، وجاہت حبیب اللہ اور سیدہ حمید جیسے مشہور سماجی کارکنان و اہم شخصیات شامل ہیں۔ ان سبھی نے اپنی پٹیشن میں عدالت کو عوامی مباحثے کی اجازت دینے کے لیے کہا تاکہ ملک میں جمہوریت کو پنپنے اور اختلاف رائے کو قبول کرنے کی صلاحیت بڑھے۔ لیکن اگر عدالت اور حکومت اختلاف رائے کو برداشت کرنے صلاحیت کھو چکی ہو تو کیا کیا جائے؟
اس بابت سپریم کورٹ کے سرکردہ وکیل اور معروف سماجی کارکن سنجے ہیگڑے نے عدلیہ پر حکومتی دباؤ کے بارے میں کہا کہ ’’میں کئی برس پہلے ہی یہ بات لکھ چکا ہوں کہ جس دن ملک میں اکثریت والی حکومت آجائے گی تو عدالتیں بھی اس کی تقلید میں ان کے موافق ہوجائیں گی۔ تو جیسے جیسے اکثریت بڑھتی گئی ماحول بھی اکثریت کی طرف بدلتا گیا اور آج عدالت اسی کی عکاس ہے‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آئین تو تحریر شدہ ہے ’’تاہم آئین کی تشریح ماحول کے حساب سے بدل دی جاتی ہے‘‘۔ سپریم کورٹ کے وکیل ایم آر شمشاد کے مطابق اس طرح کی ٹویٹ پر توہین عدالت کا کیس نہیں بنتا ہے۔ انہوں نے یہ بات تسلیم کی کہ چند برس قبل تک ’’جس طرح انسانی حقوق، حکومتی نظام اور لینچنگ جیسے معاملات پر عدالتیں موثر رد عمل ظاہر کیا کرتی تھیں اب ویسا نہیں ہے۔‘‘ محمود پراچہ کا بھی خیال ہے کہ اس وقت ملک کی عدالتیں حکومت کے دباؤ میں کام کر رہی ہیں۔
عدم برداشت اور ڈرانے دھمکانے کا یہ کھیل دلی تک محدود نہیں ہے بلکہ آسام تک میں کھیلا جارہا ہے۔ 10 اگست کو وہاں پولیس نے آسام یونیورسٹی، سلچر میں انگریزی کے اسسٹنٹ پروفیسر آنندیا سین کے خلاف دفعہ 294 (فحش الفاظ یا غلط عوامی الفاظ)، 295 اے (مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کی دانستہ اور بدنیتی پر مبنی کارروائی) اور 501 کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔ آر ایس ایس کی طلبا تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے رکن روہت چندا نے شکایت کی کہ آنندیا سین کی ایف بی پوسٹ نے اس کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ 5 اگست کو ایودھیا میں رام مندر کی سنگ بنیاد کی تقریب کے دن سین نے فیس بک پر ایک مختصر خیالی گفتگو پوسٹ کی تھی جو شکایت کنندہ چندا کے مطابق رام کی توہین ہے۔ تاہم سین کا کہنا ہےکہ ’’رامائن کے بہت سے ورژن ہیں۔ ان میں رام پر تنقید بھی کی گئی ہے۔ میں تنقید کی نشان دہی کرنے والا پہلا شخص نہیں ہوں۔ یہ کام پہلے بھی ہوچکا ہے‘‘۔ پروفیسر صاحب کی منطق درست ہے لیکن وہ اس وقت کی بات کر رہے ہیں جب حکومت میں قوتِ برداشت کا مادہ تھا اور عدالت انصاف کیا کرتی تھی۔
پرشانت بھوشن نے تو برملا کہا ہے کہ جج پر تنقید عدالت کی توہین نہیں ہے لیکن عدالتی نظام کی خامیوں پر انگشت نمائی بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 40 سالوں تک سپریم کورٹ کے جج سمیت مختلف اہم عہدوں پر خدمات انجام دینے والے معروف جسٹس دیپک گپتا نے اس سال 6 مئی کو اپنی ’’ورچوول‘‘ الوداعی تقریب میں ملک کے عدالتی نظام کی خامیوں کا برملا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا بھارت کا قانون اور عدالتی نظام دولت مند اور طاقتور لوگوں کی مٹھی میں قید ہے۔ کوئی امیر اور طاقتور شخص اگر سلاخوں کے پیچھے ہوتا ہے تو کسی نہ کسی طرح سے اپنے کیس کی تیزی سے سماعت کا حکم حاصل کروا ہی لیتا ہے اور اگر وہ ضمانت پر ہوتا ہے تو سماعت کو ٹالتا رہتا ہے۔ جسٹس گپتا کا کہنا تھا کہ اس کا خمیازہ غریب مدعا علیہ کو بھگتنا پڑتا ہے جس کے پاس عدالت پر دباؤ ڈالنے کے لیے وسائل نہیں ہوتے۔ اس کے مقدمے کی سماعت ٹلتی چلی جاتی ہے۔ امیر اور غریب کی اس لڑائی میں عدالت کے میزان کا جھکاؤ اگر محروموں کی جانب ہو تبھی انصاف کے پلڑے برابر ہو سکیں گے۔ جسٹس گپتا کی تعریف میں پرشانت بھوشن نے لکھا تھا انہوں نے آئین اور شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرنے کے عہد کو نبھایا اور کسی جانبداری اور کسی خوف کے بغیر انصاف کیا لیکن اب حالات بدل گئے بقول بہادر شاہ ظفر ؎
کوئی کیوں کسی کا لبھائے دل کوئی کیا کسی سے لگائے دل
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے
جسٹس گپتا نے کہا تھا کہ عدالت سے انصاف طلب کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ اس کی تائید میں نلسار یونیورسٹی آف لا کے وائس چانسلر فیضان مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ یہ سوال بہر حال اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ جسٹس گپتا جیسے ججوں کی باتوں کے بعد بھارت کے عدالتی نظام میں کوئی تبدیلی آتی ہے یا نہیں۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ اس طرح کی باتیں اگر جج اپنے فیصلوں میں درج کریں تو وہ باضابطہ ریکارڈ پر آسکیں گی۔ فیضان مصطفیٰ نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ مہاجر مزدوروں کے لیے راحت کا مطالبہ کرنے والی عرضی 15 اپریل کو دائر کی گئی مگر پہلی سماعت 27 اپریل کو ہو سکی جبکہ ارنب گوسوامی کی عرضی رات 8 بج کر سات منٹ پر دائر کی گئی اور سپریم کورٹ نے اس پر اگلے ہی روز صبح ساڑھے دس بجے سماعت کرنے کا وقت دے دیا۔ عدالتی میزان اگر اس طرح ایک طرف جھکا ہوا ہو تو انصاف کی توقع بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی 15 اگست کو یوم آزادی کے موقع پر ساتویں مرتبہ لال قلعہ کی فصیل پر ترنگا لہرا نے کی تیاری کررہے ہیں۔ ان کے بھکت خوش ہیں کہ وہ اس بار بھارتیہ جنتا پارٹی کے پہلے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی سے ایک قدم آگے بڑھ جائیں گے لیکن یہ آزادی اس طرح کا ریکارڈ توڑنے اور طول طویل تقریریں کرنے کے لیے نہیں حاصل کی گئی تھی۔ ملک میں اگر انصاف کا ترازو ڈانوا ڈول ہو اظہار رائے کی آزادی کو عدلیہ کے قدموں تلے کچلا جارہا ہو تو آزادی کا جشن بے معنیٰ ہوجاتا ہے۔ وزیر اعظم کے سارے بلند بانگ دعوؤں کی قلعی کھولنے کےلیے پرشانت بھوشن کی حالت زار کا ادراک کافی ہے۔ فی الحال سپریم کورٹ میں ظلم و جبر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والے اس نڈر اور باضمیر جہد کار پر سید نصر زیدی کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
عدل کی تو زنجیر ہلانے ہم بھی گئے دروازے تک
ہاتھ مگر زنجیر نہ آئی معتوبِ دربار ہوئے
***

فی زمانہ ملک میں علی الاعلان لوٹ مار کا کاروبار جاری و ساری ہے ۔ اپنے مخالفین کو قابو میں کرنے کے لیے خوف دہشت پھیلانا عصر حاضر کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اس وبا کے جراثیم سیاست سے نکل کر عدالت کی دہلیز پر پہنچ چکے ہیں ۔ ڈر کا کاروبار ایک دو دھاری تلوار ہے اس میں ڈرانے والا جب ناکام ہوتا ہے تو خود ڈر جاتا ہے۔ پرشانت بھوشن کے معاملے میں یہی ہوا کہ پہلے عدالت عظمیٰ نے انہیں ڈرانے کی کوشش کی لیکن جب وہ نہیں ڈرے تو عدالت خود ڈر گئی۔