توہینِ رسالت کا قضیہ

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
سکریٹری شریعہ کونسل، جماعت اسلامی ہند

 

تین ہفتے قبل 16؍ اکتوبر 2020 کی شام کو فرانس کے دار الحکومت پیرس کے شمال مغربی علاقے میں قتل کا ایک واقعہ پیش آیا۔ ایک اسکول ٹیچر کو ایک اسٹوڈنٹ نے چاقو سے حملہ کر کے قتل کر دیا۔ خبروں میں بتایا گیا کہ یہ ٹیچر اپنے اسٹوڈنٹس کو پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کے توہین آمیز خاکے دکھاتا تھا۔ اس کے اسٹوڈنٹس میں مسلمان بھی تھے۔ انہوں نے اعتراض کیا۔ ان کے سرپرستوں نے بھی اسکول انتظامیہ سے شکایت کی لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ بالآخر ایک طالب علم اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکا اور اس نے طیش میں آکر اس ٹیچر کا کام تمام کر دیا۔
یورپی ممالک میں خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی اہانت و تذلیل کی کارروائیاں عرصہ دراز سے جاری ہیں۔ صلیبی جنگوں میں ذلّت آمیز شکست کا بدلہ لینے کے لیے مستشرقین (Orientalists) کی پوری فوج میدان میں آگئی ہے۔ ان لوگوں نے سیرت کے موضوع پر ایسی کتابیں لکھیں جن میں پیغمبر اسلام کی پاکیزہ زندگی کو داغ دار کرنے اور شرم ناک انداز میں پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی گئی ہے۔ اس کے اثرات اب تک دکھائی دیتے ہیں۔ چنانچہ آئے دن امریکہ، فرانس، ڈنمارک، ناروے اور دیگر ممالک میں ایسی مذموم حرکتیں سامنے آتی رہتی ہیں جو مسلمانوں کے اشتعال کا باعث بنتی ہیں۔
پانچ برس قبل 2015 میں فرانس کے مشہور اخبار ’چارلی ہیبڈو‘ نے اس معاملے میں گستاخانہ جسارت کی تھی۔ اس نے پیغمبر اسلام کے اہانت آمیز کارٹونس شائع کیے تھے، جس پر پوری دنیا کے مسلمانوں نے غیظ و غضب کا اظہار کیا تھا۔ اس موقع پر اخبار کی عمارت پر حملہ بھی ہوا تھا جس میں تین حملہ آوروں سمیت ادارتی عملہ کے بارہ افراد مارے گئے تھے۔ اس وقت سے آئے دن یہ موضوع گرم رہتا ہے۔ مذکورہ اخبار کی جانب سے ان کارٹونس کی دوبارہ اشاعت کی بات کہی جاتی ہے۔ بعض شرپسند اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے ان کارٹونس کو ذریعہ بناتے ہیں اور ان کے ذریعہ سماج میں انارکی، ابتری اور انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 16؍ اکتوبر کو پیش آنے والا مذکورہ واقعہ بھی اسی قبیل سے تھا۔
فرانس کے صدر ایمانویل میکروں کی اسلام دشمنی جگ ظاہر ہے۔ وہ متعدد مواقع پر اسلام کے خلاف کھلّم کھلا بیانات دے چکے ہیں۔ انہوں نے مذکورہ واقعہ پر بھی اپنے سخت ردِّ عمل کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے پیغمبر اسلام کے متنازعہ اور تضحیکی خاکے بنانے کو ’اظہار ِرائے کی آزادی‘ قرار دیتے ہوئے اس کا دفاع کیا ہے اور تضحیکِ رسول میں ملوّث ٹیچر کے قتل کو ’اسلامی دہشت گردانہ حملہ‘ سے تعبیر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سخت گیر اسلام سے سب کو خطرہ ہے۔ فرانس میں بولنے، لکھنے، سوچنے اور خاکے بنانے کی سب کو آزادی ہے۔ اس پر قد نہیں لگائی جا سکتی۔
مغربی ممالک کی جانب سے اظہارِ رائے کی آزادی کا دعویٰ بالکل کھوکھلا ہے، جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اس معاملے میں مغرب کا رویّہ منافقانہ اور اس کی پالیسی دوغلی ہے۔ کسی شخص کی آزادی کے حدود وہاں تک ہیں جہاں کسی دوسرے کو اذیت نہ پہنچے۔ انگریزی کہاوت ہے کہ تمہیں اپنے ہاتھ فضا میں لہرانے کی اجازت ہے مگر دوسرے شخص کی ناک سے پہلے تک۔ جو مغربی ممالک عیسائیت کے پیرو ہیں وہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مذاق اڑانے کی اجازت نہیں۔ برطانیہ میں شاہی خاندان کا تمسخر ناقابلِ تعزیر جرم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دوسری جنگ ِعظیم کے دوران میں ہٹلر کی نازی افواج کے ہاتھوں لاکھوں یہودیوں کا قتل عام ہوا تھا جسے ’ہولو کاسٹ‘ (Holocaust) کہا جاتا ہے، اس کا انکار کرنا یا اسے مبالغہ آرائی قرار دینا جرم سمجھا جاتا ہے۔ پھر جس شخص سے دنیا کے ایک ارب ستّر کروڑ انسانوں کی محبت و عقیدت وابستہ ہو، اس کی اہانت کرکے انہیں اذیت پہنچانے کو آزادی اظہارِ رائے کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے؟
فرانس کے اس واقعے پر مختلف ردِّ عمل سامنے آئے ہیں۔ صدرِ ترکی رجب طیّب اردوان نے اپنے فرانسیسی ہم منصب کے بیان پر سخت نقد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں دماغی علاج کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور ایران کے حکم رانوں نے بھی احتجاجی بیانات دیے ہیں اور مذمّتی قرار دادیں منظور کی ہیں۔ لیکن دیگر مسلم ممالک کے حکم رانوں کی جانب سے جس ردِّ عمل کی توقع تھی وہی پوری نہیں ہوئی۔ انہوں نے خاموشی کو ترجیح دی۔ البتہ پوری دنیا میں مسلم عوام نے زبردست طریقے سے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے مختلف ممالک میں بڑے بڑے مظاہرے کیے اور جلوس نکالے جن میں پیغمبر اسلام کے توہین آمیز خاکوں پر اپنی شدید ناراضی اور آپؐ سے اپنی غیر معمولی محبت و عقیدت اور وابستگی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا یہ ردِّ عمل عین متوقع ہے۔ پیغمبر سے محبت ایمان کا جز ہے۔ حدیث میں ہے کہ ایک موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میری ذات اس کے نزدیک اس کے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائے‘‘ (بخاری: ۱۵) کوئی مسلمان چاہے دین کے تقاضوں پر عمل نہ کرتا ہو اور محض نام کا مسلمان ہو، لیکن اس کے سامنے پیغمبر کی توہین کی جائے اور آپؐ کا مذاق اڑایا جائے تو وہ اسے برداشت نہیں کر سکتا۔ اس موقع پر وہ ضرور غیظ و غضب سے بھر جائے گا اور اپنا آپا کھو بیٹھے گا۔
فرانس کے مذکورہ بالا واقعہ کے پس منظر میں مسلمانوں کی طرف سے مختلف رویّے سامنے آئے ہیں جو افراط و تفریط پر مبنی ہیں۔ انہیں قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ آئندہ سطور میں ان کی وضاحت کی جائے گی۔
۱۔ بعض مسلم دانش وروں کی طرف سے یہ بات کہی گئی ہے کہ اسلام کے مخالفین پیغمبر اسلام کے بارے میں چاہے جتنی بدزبانی کریں، آپؐ کی اہانت اور تضحیک کے چاہے جیسے طریقے اختیار کریں اور تمسخر کا جو بھی حربہ اپنائیں، اسلام کے ماننے والوں کو مکمل اعراض کی روش اختیار کرنی چاہیے۔ وہ اس طرح بالکل خاموش رہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ یہ مشورہ دینے والے اپنے مشورے میں چاہے جتنے سنجیدہ اور مخلص ہوں، لیکن یہ قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ یہ دینی غیرت و حمیّت، عدل و انصاف، تہذیب و شرافت اور عقل و فطرت کے خلاف ہے۔ انسان جس ہستی سے محبت کرتا ہے، اپنی نگاہوں کے سامنے اس کی بے توقیری دیکھے تو اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کر سکتا۔ رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی کا معاملہ تو یوں بھی بے انتہائی حسّاس ہے کہ ہر مسلمان آپؐ کی عزت و عظمت پر اپنی جان نچھاور کرنے کے لیے ہر دم تیار رہتا ہے۔
۲۔ بہت سے مسلمانوں کی جانب سے اس موقع پر اپنے بپھرے ہوئے جذبات کے اظہار کے لیے ناشائستہ اور غیر اخلاقی طریقے اختیار کیے گئے ہیں مثلاً، سوشل میڈیا پر صدرِ فرانس کے لیے گھٹیا زبان استعمال کی گئی ہے، بھدّی گالیاں تحریر کی گئی ہیں، ایسے کارٹون بنائے گئے ہیں جس میں انسانی جسم پر کتّے کا سر لگا دیا گیا ہے۔ یہ اور اس طرح کی دیگر حرکتیں مسلم امّت کی اخلاقی زبوں حالی پر دلالت کرتی ہیں۔ قرآن مجید میں اہلِ ایمان کو مشرکوں کے معبودوں تک کا تذکرہ برے اور ناشائستہ الفاظ میں کرنے سے منع کیا گیا ہے۔(الانعام:۱۰۸) اللہ کے رسول ﷺ کی حیاتِ طیّبہ میں آپؐ کے ساتھ کیسی کیسی نازیبا حرکتیں کی گئیں لیکن آپؐ نے کبھی اپنے مخالفوں کے لیے گندے الفاظ کا استعمال نہیں کیا۔ عبد اللہ بن ابی کی منافقانہ سرگرمیوں سے آپؐ چھی طرح واقف تھے، لیکن اسے اس کے لقب سے پکارتے تھے جو احترام پر دلالت کرتا ہے۔
۳۔ مسلمانوں کی طرف سے اب تک جو ردِّ عمل سامنے آیا ہے اس پر جذباتیت غالب نظر آتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ان کی اپنے پیغمبر سے محبت جذباتی ہے لیکن ساتھ ہی اس محبت کو شعوری بھی ہونا چاہیے۔ کسی شخص کو جس سے محبت ہوتی ہے اس کا بے دام غلام ہوتا ہے، اس کے اشاروں پر چلتا ہے اور اس کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن مسلمانوں کی اپنے پیغمبر سے یہ کیسی محبت ہے جو انہیں اس کی اطاعت پر آمادہ نہیں کرتی اور اپنی زندگیوں میں اس کی بتائی ہوئی تعلیمات کو نافذ کرنے پر نہیں ابھارتی۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:’’ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہو جائیں۔‘‘( شرح السنۃ) اگر مسلمان اپنے احتجاجوں اور مظاہروں کے ذریعے اپنے رسول سے بے انتہا محبت کا اظہار کریں ، لیکن ان کی زندگیوں میں اطاعتِ رسول کا جذبہ مفقود نظر آئے تو انہیں ضرور اپنا احتساب کرنا چاہیے۔
۴۔ پیغمبر اسلام کی توہین و تضحیک کے یہ واقعات مسلمانوں کو اپنے رب کی طرف پلٹنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ چھوٹے بچے کو چوٹ لگ جائے، کوئی تکلیف پہنچ جائے یا کوئی دوسرا بچہ اسے مار دے تو وہ فوراً بھاگ کر اپنی ماں کے پاس جاتا ہے اور اس کی آغوش میں پناہ لیتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح مسلمانوں کے دین و ایمان پر حملے ہوں، ان کے شعائر، عقائد اور اقدار کا مذاق اڑایا جائے، یا ان کے محبوب پیغمبر کی اہانت کی جائے تو انہیں بھی فوراً اپنے رب کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ لیکن اس کے مظاہر مسلمانوں کی زندگیوں میں نظر نہیں آتے۔ قرآن مجید میں اسی کی تعلیم دی گئی ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے:’’پس (اے نبی !) جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان پر صبر کرو اور اپنے رب کی حمد و ثنا کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔‘‘(طہ:۱۳۰،ق:۳۹)
۵۔ کسی بھی ناگفتہ بہ صورت حال پیش آنے پر مسلمانوں کا مطلوبہ رویّہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ آپے سے باہر نہ ہوں اور صبر کا مظاہرہ کریں۔ عہدِ نبوی میں کفار و مشرکین اللہ کے رسول ﷺ کی مخالفت میں بہت پُر جوش تھے۔ وہ طرح طرح کی سازشیں کرتے، منصوبے بناتے اور ان کو نافذ کرنے کی کوشش کرتے۔ ان کی یاوہ گوئیاں بھی بہت زیادہ بڑھی ہوئی تھیں۔ ہر موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو صبر کا دامن تھامے رکھنے کی تاکید کی:’’ پس (اے نبی!) جس چیز کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے اسے ہانکے پکارے کہہ دو اور شرک کرنے والوں کی پروا نہ کرو۔ تمہاری طرف سے ہم ان مذاق اڑانے والوں کی خبر لینے کے لیے کافی ہیں۔‘‘( الحجر:۹۴۔۹۵)’’(اے نبی!) صبر سے کام کیے جاؤ اور تمہارا یہ صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے۔ ان لوگوں کی حرکات پر رنج نہ کرو اور نہ ان کی چال بازیوں پر دل تنگ ہو۔‘‘(النحل:۱۲۷) ’’اور جو باتیں لوگ بنا رہے ہیں ان پر صبر کرو اور شرافت کے ساتھ ان سے الگ ہوجاؤ۔‘‘(المزمل:۱۰) یہی حکم اہلِ ایمان کو بھی دیا گیا ہے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: ’’(اے لوگو جو ایمان لائے ہو) تمہیں مال و جان دونوں کی آزمائشیں آکر رہیں گی اور تم اہل کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے۔ اگر ان سب حالات میں تم صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہو تو یہ بڑے حوصلے کا کام ہے۔‘‘(آل عمران: ۱۸۶)
یہ واضح رہے کہ صبر کا مطلب عاجزی، تن آسانی، بے بسی اور نامرادی نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے موقف پر جما رہے اور مخالفین کی پروا کیے بغیر اپنے مشن سے جڑا رہے۔۶۔ پیغمبر اسلام کی پاکیزہ شخصیت پر جو تہمتیں لگائی جائیں اور دریدہ دہنی کے ساتھ جو غلط باتیں منسوب کی جائیں، مسلم اصحابِ علم کی ذمے داری ہے کہ ان کا شریفانہ اسلوب میں جواب دیں اور آپؐ کی تصویر کو مصفّیٰ و مجلّیٰ اندازمیں پیش کریں۔ قرآن مجید نے یہی تعلیم دی ہے۔اللہ کے رسول ﷺ کو شاعر کہا گہا، کاہن کا لقب دیا گیا، اس کے جواب میں غیظ و غضب اور اشتعال پر مبنی اسلوب اختیار کرنے کے بجائے پوری سنجیدگی، متانت اور شائستگی کے ساتھ کہا گیا: ’’یہ ایک رسولِ کریم کا قول ہے، کسی شاعر کا قول نہیں ہے، تم لوگ کم ہی ایمان لاتے ہو، اور نہ یہ کسی کاہن کا قول ہے، تم لوگ کم ہی غور کرتے ہو۔ یہ رب العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہے۔‘‘( الحاقۃ:۴۰۔۴۳) کفارِ مکہ نے لوگوں کو قرآن سننے سے روکنے کے لیے مختلف کھیل تماشے ایجاد کیے اور گانے بجانے والی عورتوں کو استعمال کیا۔ اس کے جواب میں اہلِ ایمان کو نصیحت کی گئی کہ وہ قرآن کا پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے مختلف تدابیر اختیار کریں۔ دشمنوں نے اللہ کے رسولﷺ کی توہین و تضحیک کے لیے ہجویہ شاعری کا سہارا لیا تو حضرت حسّان بن ثابت، حضرت عبد اللہ بن رواحہ اور دیگر شعرا صحابہ میدان میں آئے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی مدح و توصیف پر مبنی شاعری کی، جس سے فنِ نعت کی بنیاد پڑی۔ آج اگر ایسی کتابیں لکھی جا رہی ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ کی پاکیزہ سیرت کو مسخ کرکے پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو اہلِ اسلام کو ایسی کتابیں بڑی تعداد میں پیش کرنی چاہئیں جن میں آپؐ کی ذاتِ گرامی کا صحیح تعارف کرایا گیا ہو۔ آج اگر رسول اللہ ﷺ کی توہین و تضحیک کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا جا رہا ہے تو مسلمانوں کو بھی اسلام اور پیغمبر اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع کو اختیار کرنا چاہیے ۔
۷۔ فرانس کے خلاف مسلمانوں کے ردِّ عمل کا اظہار یوں بھی ہوا ہے کہ اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی اپیلیں کی گئی ہیں۔ یہ اپیلیں بعض مسلم حکم رانوں، دینی تنظیموں کے سربراہوں اور نمایاں مذہبی شخصیات کی طرف سے کی گئی ہیں، اگرچہ انہیں قبولِ عام نہیں مل سکا ہے۔ اگر کسی ملک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے اس پر دباؤ ڈالا جا سکتا ہو تو اس حکمتِ عملی کو اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن موجودہ دور میں مختلف ممالک اور ان کی تجارتی کمپنیاں ایسے باہمی معاہدوں سے جڑی ہوتی ہیں جن کی موجودگی میں بائیکاٹ کو دباؤ ڈالنے کے لیے مؤثر تدبیر نہیں قرار دیا جا سکتا اور اس کی کام یابی کے امکانات بھی کم سے کم ہوتے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ کی سیرت میں ہمیں دونوں طرح کے نمونے ملتے ہیں۔ ہجرتِ مدینہ کے کچھ عرصے کے بعد آپ نے کفارِ مکہ کی معاشی سرگرمیوں پر قدغن لگانے کے لیے ان کے تجارتی قافلے پر حملے کا منصوبہ بنایا جس کے نتیجے میں غزوۂ بدر پیش آیا۔ دوسری طرف غزوۂ موتہ میں خاصا جانی نقصان ہونے کے باوجود آپؐ نے شام، جس کی عمل داری میں مؤتہ کا علاقہ آتا تھا، کے معاشی مقاطعہ کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی ۔
۸۔ آخری اور سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ فرانس میں توہینِ رسول کا ارتکاب کرنے والے ٹیچر کے قتل کے واقعہ کو بہت سے مسلمانوں نے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے اور قاتل طالب علم کے بارے میں تحسین و توصیف کے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ یہ صحیح اسلامی رویّہ نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ توہینِ رسالت قابلِ تعزیر جرم ہے۔ اسلامی ریاست میں رہنے والے کسی شخص کو خواہ وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ پیغمبر اسلام کی توہین کرے اور آپؐ کے بارے میں نازیبا اور غیر شائستہ کلمات کا اظہار کرے۔ اگر ایسا شخص نادانستہ طور پر اس حرکت کا ارتکاب کرتا ہے تو اسے سمجھایا بجھایا جائے گا اور اس سے باز آنے کے لیے کہا جائے گا۔ اگروہ اپنے اس گھناؤنے عمل پر اصرار کرے تو اس کا معاملہ عدالت میں لے جایا جائے گا اور مکمل عدالتی کارروائی کے بعد جرم ثابت ہونے پر اسے قتل کر دیا جائے گا۔ لیکن اس معاملے میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ سزا نافذ کرنا ریاست کا حق ہے۔ کسی شخص کو اپنے طور پر قانون کو ہاتھ میں لینے کا حق نہیں ہے۔ اسے یہ اختیار ہرگز نہیں دیا جا سکتا کہ جس شخص کو اپنی دانست میں توہینِ رسالت کا مرتکب سمجھے اسے اپنے ہاتھ سے قتل کردے۔ یہ عمل انارکی پیدا کرنے والا ہوگا۔ ایسا شخص چاہے جتنے پاکیزہ جذبات کے ساتھ یہ غیر قانونی عمل انجام دے، اسے قانون کے حوالے کیا جائے گا اور اسے قتل کی سزا دی جائے گی۔ بعض حضرات نے عہدِ نبوی کی کچھ مثالیں پیش کی ہیں اور ان کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کی توہین کرنے والے متعدد افراد کو قتل کیا گیا۔ ان واقعات کے بارے میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ وہ قتل اللہ کے رسول ﷺ کی ہدایت پر یا دوسرے الفاظ میں ریاست کے حکم سے کیے گئے۔ اکّا دُکّا واقعات جن میں بعض صحابہ نے مشتعل ہوکر رسول اللہ ﷺ کی توہین کرنے والوں کو قتل کردیا تھا، آپؐ نے ان کی تحقیق کروائی اور جرم ثابت ہونے پر ان کا خون رائیگاں قرار دیا۔ ان استثنائی مثالوں کو عمومی رنگ نہیں دیا جا سکتا۔
توہینِ رسالت کے واقعات پر مسلمانوں کو مشتعل ہو کر اپنا ردِّ عمل ظاہر کرنے کے بجائے صبر و تحمّل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اپنے تمام اعمال میں قرآن و سنّت سے رہ نمائی حاصل کرنی چاہیے کہ یہی مطلوب ہے اور یہی ان کے دین و ایمان کا تقاضا ہے۔

اگر مسلمان اپنے احتجاجوں اور مظاہروں کے ذریعے اپنے رسول سے بے انتہا محبت کا اظہار کریں ، لیکن ان کی زندگیوں میں اطاعتِ رسول کا جذبہ مفقود نظر آئے تو انہیں ضرور اپنا احتساب کرنا چاہیے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020