تنازعات کے سلسلے میں قرآنی رہ نمائی
ڈاکٹر محمد سلمان مکرم
(اسلامی تعلیمات کی رو سے تنازعات میں الجھ کر ان کا حل ڈھونڈنے کے بجائے ان سے دوری بنائے رکھنا ہی دانش مندی ہے)
تنازعات کی سنگینی تسلیم شدہ ہے
جھگڑے یا تنازعات دراصل شیطان کے بہت کارگر ہتھیاروں میں سے ایک ہتھیار ہے جس سے اداروں، خاندانوں اور انجمنوں بلکہ ریاستوں اور قوموں کا بیڑہ غرق ہوجاتا ہے۔ طویل برسوں کی محنتیں لمحوں میں برباد ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح شخصیت، اوقات، صحت، سرمایہ، صلاحیتیں اور بسا اوقات تو پوری کی پوری زندگی کسی تنازعہ کی نذر ہوجاتی ہے۔
مندرجہ ذیل اعداد و شمار یقیناً تنازعات کے مسئلے کی اہمیت کو اجاگر کرنےمیں مددگار ثابت ہوں گے۔ یہ اعداد و شمار تو مغربی لٹریچر سے ماخوذ ہیں جو اپنی پیداواریت (productivity) کو لے کر انتہائى سنجیدہ ہوتے ہیں اگر ہم اپنا بے لاگ احتساب کریں تو شاید اپنی کارکردگی اور اپنے” زیرو پرابلم جماعت” والے نشانے کی اہمیت و افادیت کو زیادہ بہتر طور سے سمجھ سکیں گے۔
موجودہ مینجمنٹ کے لٹریچر میں کونفلکٹ مینجمنٹ کو ایک نمایاں ڈسپلن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس پر ہزاروں کی تعداد میں کتابیں، تحقیقی مقالے اور دسیوں ماڈل موجود ہیں۔
ویکیپیڈیا کے اعداد و شمار کے مطابق ایک مینیجر کا اوسطاً %25 وقت تنازعات کو نمٹانے میں گزرتا ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ کمپنیوں اور اداروں کی کارکردگی اور کام یابی کی اصل بنیاد ان کا کلچر ہوتا ہے اور تنازعات دراصل کسی بھی ادارے کی صحت اور تندرستی کی علامت ہوتے ہیں۔ جتنے کم تنازعات اتنی زیادہ پیداواریت، اور جتنے زیادہ تنازعات اتنی خراب کارکردگی۔
تنازعات سے بچنا ہی تنازعات کے ساتھ بہترین تعامل ہے
انسان جب انصاف کی ڈگر سے ہٹ کر نفسانی خواہشات، شیطانی اکساہٹوں اور خود غرضی کے جال میں پھنس جاتا ہے تو لازماً دوسروں کے حقوق پر دست درازی کرنے لگتا ہے اور اسی سے تنازعات اور جھگڑوں کی ابتدا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سلیم الطبع انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایسے جھگڑوں اور تنازعات سے اپنا دامن بچاکر گزر جائے۔
قرآن مجید اسے مومنین صالحین کی ایک نمایاں خوبی اور جنت کی ایک بیش بہا نعمت کے طورپر پیش کرتا ہے۔
قرآن مجید میں مومن کے کردار کی یہ بلندی دکھائی جاتی ہے کہ ایمان والے ان جھگڑوں کے قریب بھی نہیں پھٹکتے بلکہ ان جھگڑوں اور تنازعات سے دور رہنا ان کی ایک مستقل حکمت عملی اور ان کی شخصیت کا ایک نمایاں وصف ہوتا ہے۔
وَالَّذِيۡنَ هُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَۙ
جھگڑے اور دل آزاری کی باتوں سے دور رہتے ہیں (سورۃ المؤمنون۔ 3)
اہل ایمان معاشرے کے لیے سراپا خیر و سلامتی ہوتے ہیں ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ نادانستگی اور بھول چوک سے بھی ان کی ذات سے کسی کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔
اَنۡ تُصِيۡبُوۡا قَوۡمًا ۢ بِجَهَالَةٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰى مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِيۡنَ
کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو۔
حضورنبی کریمﷺ نے حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا نہ کرنے والے کو جنت کی بشارت دی ہے۔
"انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جوشخص حق پر ہوتے ہوئے جھگڑا چھوڑ دے اس کے لیے جنت کے بیچ میں ایک مکان بنایا جائے گا اور جو شخص اپنے اخلاق اچھے بنائے اس کے لیے اعلیٰ جنت میں ایک مکان بنایا جائے گا۔ (جامع ترمذی)
تنازعات سے دوری بنائے رکھنے کے لیے ضروری باتیں:
نظر انداز کرنے کا فن
انسان کے اصلی اور ازلی دشمن شیطان (جن و انس) کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ انسانوں کے بیچ نفاق کا بیج ڈال دیں۔ اسی لیے ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ جو بات بھی زبان سے نکلے وہ بہترین ہو اور ایسی نہ ہو جو شیطان کے ڈالے ہوئے بیج کی آبیاری کرے۔
وَقُلْ لِّعِبَادِىۡ يَقُوۡلُوا الَّتِىۡ هِىَ اَحۡسَنُؕ اِنَّ الشَّيۡطٰنَ يَنۡزَغُ بَيۡنَهُمۡؕ اِنَّ الشَّيۡطٰنَ كَانَ لِلۡاِنۡسَانِ عَدُوًّا مُّبِيۡنًا
اور اے محمدﷺ، میرے بندوں سے کہہ دو کہ زبان سے وہ بات نکالا کریں جو بہترین ہو دراصل یہ شیطان ہے جو انسانوں کے درمیان فساد ڈلوانے کی کوشش کرتا ہے حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ (سورۃ الإسراء، 53)
ایک مومن کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ شیطان کی کوئی چال اور جاہلوں کی کوئی اوچھی حرکت انھیں جادۂ حق سے ہٹا نہ پائے۔
وَعِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِيۡنَ يَمۡشُوۡنَ عَلَى الۡاَرۡضِ هَوۡنًا وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الۡجٰهِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا۔
رحمان کے (اصلی) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل ان کے منہ کو آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام۔ (سورۃ الفرقان، 63)
اللّہ کے رسولﷺ کو آغاز دعوت ہی میں یہ نصیحت فرمائی گئی کہ آپﷺ جاہلوں کی اوچھی حرکتوں اور پروپیگنڈے سے ذرا متاثر ہوئے بغیر اپنے کام میں لگے رہیں اور ان کو خوبی کے ساتھ نظر انداز کریں۔
وَاصۡبِرۡ عَلٰى مَا يَقُوۡلُوۡنَ وَاهۡجُرۡهُمۡ هَجۡرًا جَمِيۡلًا
اور یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں اس پر صبر کرو اور ان کو خوب صورتی سے نظر انداز کرو۔(سورۃ المزمل۔ 10)
نظر انداز کرنے کا یہ نسخہ ایک زبردست حکمتِ عملی ہے جو اہلِ حق کو اپنے کام پر پوری طرح مرتکز کر دیتی ہے۔
ان کی ساری توجہ، وقت اور توانائیاں تعمیری کاموں اور منصوبوں پر صرف ہوتی ہیں۔
قولی گناہوں کی ہول ناکی
علقمہ بن وقاص کہتے ہیں کہ میں نے صحابی رسول بلال بن حارث مزنیؓ کو یہ کہتے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی ایسی بات بولتا ہے جس سے اللہ خوش ہوتا ہے، اور اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس بات کا اثر کیا ہوگا، لیکن اس بات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے حق میں قیامت تک کے لیے اپنی خوش نودی اور رضا مندی لکھ دیتا ہے، اور تم میں سے کوئی ایسی بات بولتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب ہوتی ہے، اور اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا کیا اثر ہوگا، لیکن اللہ تعالیٰ اس کے حق میں اپنی ناراضی اس دن تک کے لیے لکھ دیتا ہے جس دن وہ اس سے ملے گا۔ علقمہؓ کہتے: دیکھو افسوس ہے تم پر! تم کیا کہتے اور کیا بولتے ہو، کتنی ہی ایسی باتیں ہیں جنھیں بلال بن حارثؓ کی اس حدیث نے مجھے کہنے سے روک دیا ہے۔ (ابن ماجہ)
حضرت علقمہ کا مقصد یہ تھا کہ بات کہنے میں احتیاط اور غور لازم ہے، یہ نہیں کہ جو منہ میں آیا کہہ دیا، غیر محتاط لوگوں کی زبان سے اکثر ایسی بات نکل جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو ناگوار ہوتی ہے، پس وہ ایک بات کی وجہ سے جہنمی ہوجاتا ہے۔ کہا گیا ہے: اللسان جسمہ صغیر وجرمہ کبیر وکثیر” زبان کا جثہ تو چھوٹا ہے مگر اس کے گناہ بڑے اور بہت ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ زبان کا زخم تلوار کے زخم سے زیادہ گہرا ہوتا ہے۔ تعلقات کو جتنا نقصان تلخ کلامی سے پہنچتا ہے اتنا کسی اور چیز سے نہیں پہنچتا۔
قرآن مجید میں انسان کو اپنے ہر قول کا جواب دہ ٹھہرایا گیا ہے
مَا يَلۡفِظُ مِنۡ قَوۡلٍ اِلَّا لَدَيۡهِ رَقِيۡبٌ عَتِيۡدٌ
کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود نہ ہو۔ (سورۃ ق۔ 18)
ایک مومن کو اپنے قول کے تئیں انتہائى ہوش مند اور سنجیدہ ہونا چاہیے، بلکہ ان کو سرگوشی پر بھی متنبہ کیا گیا ہے۔
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا تَنَاجَيۡتُمۡ فَلَا تَـتَـنَاجَوۡا بِالۡاِثۡمِ وَالۡعُدۡوَانِ وَمَعۡصِيَتِ الرَّسُوۡلِ وَتَنَاجَوۡا بِالۡبِرِّ وَالتَّقۡوٰىؕ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم آپس میں پوشیدہ بات کرو تو گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی باتیں نہیں بلکہ نیکی اور تقویٰ کی باتیں کرو۔ ( سورۃ المجادلة۔ 9)
واقعہ یہ ہے کہ تنازعات خود اتنے بڑے نہیں ہوتے جتنا بڑا انھیں غیر ذمہ دارانہ گفتگو اور فحش گوئی بنادیتی ہے۔
الله تعالی معاملات میں نرم خوئی اختیار کرنے پر وہ کچھ عطا فرماتے ہیں جو دوسری کسی چیز پر عطا نہیں فرماتے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! اللہ نرمی ( اور خوش خلقی) کو پسند فرماتا ہے اور خود بھی نرم ہے اور دیتا ہے نرمی پر جو نہیں دیتا سختی پر اور نہ کسی چیز پر۔ (صحیح مسلم)
مشاورت کا اصول اختلاف پیدا ہونے کی گنجائش کو کم سے کم کر دیتا ہے
بہت سے اختلافات دراصل موقف کا اختلاف ہوتے ہیں۔ موقف تشکیل پاتا ہے انسان کی سوچ، اس کے میلانات و رجحانات اور اس کی ضروریات اور ترجیحات سے۔ اسی لیے انسانی معاملات میں موقف اور آرا کا اختلاف کوئی غیر متوقع چیز نہیں ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک ہی چیز کے مختلف پہلو ہوتے ہیں۔ اور عموماً انسان کسی ایک ہی پہلو سے امور و معاملات کو دیكھتا ہے جس سے دوسرے گوشے تشنہ اور اس کی نظروں سے اوجھل رہ جاتے ہیں۔
اسی لیے قرآن مجید میں تفکر و تدبر کی غیر معمولی تاکید ہمیں نظر آتی ہے۔ انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی۔ اجتماعی سطح پر جب یہ عمل انجام دیا جاتا ہے تو مشاورت کہلاتا ہے۔ اور قرآن مجید اس کو ایک فریضہ قرار دیتا ہے اور اہل ایمان سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے تمام معاملات مشاورت سے چلائیں۔
وَالَّذِيۡنَ اسۡتَجَابُوا لِرَبِّهِمۡ وَاَقَامُوۡا الصَّلٰوةَۖ وَاَمۡرُهُمۡ شُوۡرٰى بَيۡنَهُمۡۖ وَمِمَّا رَزَقۡنٰهُمۡ يُنۡفِقُوۡنَۚ
جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں، ہم نے جو کچھ بھی رزق انھیں دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔(سورۃ الشورى۔38)
مشاورت کے عمل میں مختلف ذہنی شاکلے (mindset) اور صلاحیتوں کے افراد کی شرکت سے معاملے کے گوناگوں پہلو زیر بحث آتے ہیں، ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے سمجھانے کا بھرپور موقع ملتا ہے اور کوئی قابل لحاظ اور اہم بات چھوٹ جانے کا خدشہ کم سے کم رہ جاتا ہے۔
مشاورت سے موقف عقلی اعتبار سے جامع اور اخلاقی اعتبار سے مبنی بر عدل موقف بن جاتا ہے۔ مختلف دماغوں کی شرکت سے جہاں موقف ہمہ گیر بن جاتا ہے وہیں مختلف طبائع کی شرکت خود غرضانہ رویے سے بچاتی ہے۔
مشاورت کا یہ اصول معاملے کے ہر مرحلے میں بیش قیمت رہ نمائی فراہم کرتا ہے۔ معاملے کی شروعات میں مشاورت سے جہاں ایک متناسب اور متوازن موقف قائم کرنے میں مدد ملتی ہے جو تمام ہی شرکا کے لیے قابل قبول اور باعث اطمینان ہوتا ہے وہیں یہ اصول اختلافات کے پیدا ہونے کی گنجائش کو کم سے کم کردیتا ہے۔
اختلاف پیدا ہوجانے کی صورت میں مشاورت معاملے کی راہ کو مسدود ہونے سے بچاتی ہے۔ مشاورت کا مستقل عمل اس نازک مرحلے میں آپسی گفت وشنید سے معاملے کو آگے بڑھانے کی نئی راہیں سجھاتا ہے۔ مشاورت کے ذریعے معاملات میں داخل ہونے والوں کے لیے راہیں دراصل ہمیشہ موجود ہوتی ہیں۔ اصل مسئلہ باہمی مشاورت کا رک جانا ہے۔ اور یہ دراصل یا تو ذہنی کبر کا نتیجہ ہوتا ہے یا اخلاقی پستی اور حق تلفی کا۔
معاملات کے خاتمے پر مشاورت مبنی بر اِنصاف حل تک پہنچنے اور معاملے کو افراط و تفریط سے بچاتی ہے۔ مشاورت کے نتیجے میں معاملات کا اختتام خیر سگالی کے ساتھ آپسی صلح کی شکل میں انجام پاتا ہے۔
معاہدات میں شبہات کا ازالہ اور انصاف کا نظر آنا بھی ضروری
قرآن مجید لین دین میں معاہدات کو پوری تفصیل سے ریکارڈ کرنے کی تاکید کرتا ہے تاکہ انصاف صرف تسلی اور خواہش نہ ہو بلکہ انصاف ایسا ہو جو معاہدات میں نظر بھی آتا ہو اور جس کو شہادتوں کی دیواروں سے محفوظ بھی کیا گیا ہو۔
گواہ اس لائق ہوں جو نزاع کی صورت میں حق کی گواہی دینے والے ہوں یا جن کا کوئی مفاد فریقین معاملہ سے وابستہ نہ ہو۔
وَّاَشۡهِدُوۡا ذَوَىۡ عَدۡلٍ مِّنۡكُمۡ وَاَقِيۡمُوا الشَّهَادَةَ لِلّٰهِؕ
اور دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنا لو جو تم میں سے صاحب عدل ہوں۔(سورۃ الطلاق۔ 2)
ان تفصیلات سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ معاہدات پوری تفصيلات اور گواہوں کی موجودگی میں اس طرح طے ہوں کہ اشتباہ کی کوئی گنجائش نہ رہے نیز جس سے ہر دیکھنے والی آنکھ کو حق اور انصاف نظر آتا ہو۔
الله تعالٰی کی حدود میں رہنا انسان کو اپنی حد میں رکھتا ہے
ورنہ دنیا کے تمام قوانین اس بااختیار مخلوق کو اپنی حد میں رکھنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
مومنانہ زندگی کی سب سے بڑی فکر یہ ہوتی ہے کہ دنیا کے امتحان کی یہ مہلت آخرت کی تیاری میں صرف ہو اور جہنم کے عذاب سے گلو خلاصی مل جائے۔ مومن کی زندگی کا کوئی ورق اور کوئی منصوبہ اس فکر سے خالی نہیں ہوسکتا۔
وَالَّذِيۡنَ هُمۡ مِّنۡ عَذَابِ رَبِّهِمۡ مُّشۡفِقُوۡنَۚ
جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔ (سورۃ المعارج۔ 27)
تقوی کی یہی کیفیت دراصل انسان کو ہر حال میں چاہے وہ صاحب اختیار ہو یا زیردست اپنی حد میں رکھتی ہے ورنہ اختیارات کا ذرا سا چسکا انسانوں کو اپنی اور دنیا کی حقیقت بھلا دیتا ہے اور کم زور فریق کے حقوق دبانے میں انھیں کوئی باک نہیں ہوتا۔ اس کے برخلاف اہل تقوی کا دامن ہر طرح کے ظلم اور ناانصافی سے پاک ہوتا ہے۔ اور جو کوئی اللّہ کے حدود سے تجاوز کرتا ہے وہ دراصل خود اپنے اوپر ظلم کرتا ہے اور ظالم کو بہرحال اپنے ظلم کا حساب دینا ہے۔
وَمَنۡ يَّتَعَدَّ حُدُوۡدَ اللّٰهِ فَقَدۡ ظَلَمَ نَفۡسَهٗ
” اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اوپر خود ظلم کرے گا”۔ (سورۃ الطلاق۔ 1)
اسی معنی میں وہ حدیث بھی ہے جس میں حضورﷺنے فرمایا ہے:
تم اپنے طرز عمل کو لوگوں کے طرز عمل کا تابع بنا کر نہ رکھو۔ یہ کہنا غلط ہے کہ اگر لوگ بھلائی کریں گے تو ہم بھلائی کریں گے اور لوگ ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے۔ تم اپنے نفس کو ایک قاعدے کا پابند بناؤ۔ اگر لوگ نیکی کریں تو نیکی کرو۔ اور اگر لوگ تم سے بدسلوکی کریں تو تم ظلم نہ کرو۔
ایسے ہی متقین کے لیے اللّہ تعالٰی کا وعدہ ہے کہ وہ ان کے لیے آسانیاں پیدا کرے گا اور ان کو ایسے طور پر رزق پہنچائے گا جہاں سے ان کو گمان بھی نہ ہو۔
وَمَنۡ يَّـتَّـقِ اللّٰهَ يَجۡعَلْ لَّهٗ مَخۡرَجًا۔ وَّيَرۡزُقۡهُ مِنۡ حَيۡثُ لَا يَحۡتَسِبُ وَمَنۡ يَّتَوَكَّلۡ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسۡبُهٗ اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمۡرِهٖ قَدۡ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَىۡءٍ قَدۡرًا۔
‘‘جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اُس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اُس کا گمان بھی نہ جاتا ہو جو اللہ پر بھروسا کرے اس کے لیے وہ کافی ہے اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے” (سورۃ الطلاق۔ 2 اور 3)
اول بھلائی آخر بھلائی کا اصول
آپسی نزاع اور اختلاف کو حل کرنے میں اسلامی تعلیمات یہ زریں اصول پیش کرتی ہیں کہ اول آخر ہر صورت میں بھلا طریقہ ہی اختیار کرنا چاہیے۔
اس اصول کی روشنی میں اختلاف کے کسی مرحلے میں کسی صورت میں بھی قطع تعلق، قطع کلامی اور بائیکاٹ کا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ آپسی گفتگو کا بند ہو جانا اختلافات کے سیکڑوں نئے دروازے کھول دیتا ہے۔
اسی لیے اسلامی تعلیمات معاملات کو فیصل کرنے میں آپسی گفتگو کی غیر معمولی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں اور معاملات کو باہمی گفت وشنید کے ساتھ دونوں فریقین کی بات کو سننے اور ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھانے کی پرزور تائید کرتی ہیں۔
چاہے فیصلہ توقع کے مطابق ہو یا خلاف توقع ہر صورت معروف اور بھلا راستہ ہی اختیار کیا جانا چاہیے۔
فَاِذَا بَلَغۡنَ اَجَلَهُنَّ فَاَمۡسِكُوۡهُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ فَارِقُوۡهُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ
پھر جب وہ اپنی (عدت کی) مدت کے خاتمہ پر پہنچیں تو یا انھیں بھلے طریقے سے (اپنے میں ) روک ر کھو، یا بھلے طریقے پر اُن سے جدا ہو جاؤ۔ (سورۃ الطلاق 2)
یہ بیش قیمت اصول ہمیشہ پیش نظر رہے کہ نزاع کے ہر مرحلے میں حدود اللّہ کا لحاظ مقدم ہو اور معروف کے دائرے میں رہ کر ہی معاملہ اختتام پذیر ہو۔
عفو و درگزر اور مصالحت پسندی توکل علی اللّہ کے ثمرات
توکل علی اللّہ ایک طرز زندگی اور بیش قیمت حکمت عملی ہے جو ایک طرف تو انسان کو مطمئن کرتی ہے تو دوسری طرف ایک بہترین اور کام یاب زندگی گذارنے کا نسخہ کیمیا ہے۔
ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: طاقتور مومن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کم زور مومن سے بہتر اور پیارا ہے۔ دونوں میں سے ہر ایک میں خیر ہے، ہر اس چیز کی حرص کرو جو تمہیں نفع دے، اور اللہ سے مدد طلب کرو، دل ہار کر نہ بیٹھ جاؤ، اگر تمھیں کوئی نقصان پہنچے تو یہ نہ کہو: کاش کہ میں نے ایسا ویسا کیا ہوتا تو ایسا ہوتا، بلکہ یہ کہو: جو اللہ نے مقدر کیا تھا اور جو اس نے چاہا کیا، اس لیے کہ اگر مگر شیطان کے عمل کے لیے راستہ کھول دیتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ)
اس کائنات میں کوئی تدبیر اللّہ کی مشیت و مرضی کے بغیر کام یاب نہیں ہو سکتی۔
انسان کو جو بھی نفع یا نقصان پہنچتا ہے وہ اللّہ کے اذن کے بغیر نہیں پہنچتا۔ اور اللّہ تعالی کا کوئی کام بھی علم و حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ اور مومن کے لیے ہر دو صورتوں میں خیر ہی ہوتا ہے۔ نقصان ہونے پر بندہ مومن صبر کرتا ہے، اپنا احتساب کرتا ہے، اپنی کم زوریوں اور کوتاہیوں کا ازالہ کرتا ہے اور اللہ تعالی سے توبہ و انابت کے ذریعے اپنا تعلق مزید مضبوط و مستحکم کرتا ہے اور آخرت کے دائمی اجر کا متمنی ہوتا ہے۔
اگر نفع ہو تو اللّہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہے، احسان کرتا ہے اور نعمت کو اللّہ تعالی کی ہدایات کے مطابق استعمال کرتا ہے۔
نفع نقصان کا سارا اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ مومن سوائے اللہ کے کسی سے نہیں ڈرتا، لوگوں کے مکر و فریب اور چالوں کو وہ خاطر میں نہیں لاتا۔ وہ خواہ مخواہ کے اندیشوں اور فکروں میں مبتلا نہیں ہوتا۔ ایک مومن کی اصل طاقت توکل علی اللّہ ہوتی ہے کسی کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللّہ نہ چاہے۔
وَتَوَكَّلۡ عَلَى اللّٰهِ وَكَفٰى بِاللّٰهِ وَكِيۡلًا۔
اور اللہ پر بھروسا رکھو اور اللہ بھروسا کے لیے کافی ہے۔ (سورۃ النساء۔ 81)
جن کا دل توکل کی نعمت سے خالی ہوتا ہے ان کے لیے مصالحت اور دوسروں کے قصوروں کو معاف کردینا کسی پہاڑ چڑھنے سے کم نہیں ہوتا اور یہ چیز خود ان کے اپنے لیے ایک مسلسل درد سر اور مستقل تناؤ کا سبب ہوتی ہے اور اس سے ان کی زندگی جمود اور ٹھیراؤ کا شکار ہوجاتی ہے۔
اور جن کے دل توکل کی نعمت سے مالا مال ہوتے ہیں، وہ لوگوں کو معاف کردیتے ہیں اور مصالحت کے قدردان ہوتے ہیں۔ اور زندگی میں نیکی کے راستے پر رواں دواں رہتے ہیں۔ وہ ایسی فضول چیزوں کو اپنے پیروں کی بیڑیاں نہیں بننے دیتے۔ اپنے دل کو کشادہ کرتے ہیں اور لوگوں کے قصوروں کو معاف کرکے آگے بڑھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ توکل زندگی کو بہت آسان بنادیتا ہے۔
وَاِنۡ جَنَحُوۡا لِلسَّلۡمِ فَاجۡنَحۡ لَهَا وَتَوَكَّلۡ عَلَى اللّٰهِؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ۔
اور اگر وہ مصالحت کی طرف جھکیں تو تم بھی اس کے لیے جھک جاؤ اور اللہ پر بھروسا رکھو، بیشک وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔(سورۃ الأنفال۔ 61)
قرآن مجید مومن کی زندگی کا اتنا بلند اور پاکیزہ نقشہ پیش کرتا ہے کہ ہر خیر پسند طبیعت اور سعید روح بے ساختہ اس کی طرف کھنچتی اور اس پاکیزگی اور بلندی کی آرزو کرنے لگتی ہے۔ یہ اس کو اپنی فطرت سے ہم آہنگ اور اپنے دل کی آواز محسوس ہوتی ہے۔ اس کو لگتا ہے کہ وہ اسی کا متلاشی اور اسی کے لیے سرگرداں تھی۔ اس کے مل جانے پر ڈھیروں سکون و اطمینان اس کے اندر اتر جاتا ہے۔
تعلقات جیت جائیں اور خودغرضی ہار جائے
قرآن مجید اجتماعی معاملات میں مصالحت پسندی اور "الصلح خیر” کا اصول دیتا ہے۔ اس اصول کا تقاضا ہے کہ تعلقات اور مفادات میں جب بھی کشمکش ہو اس میں ہمیشہ تعلقات جیت جائیں اور خودغرضی ہار جائے۔
تعلقات اور رشتوں کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش اور قیمت دی جائے۔ یہاں تک کہ اگر تعلقات برقرار رکھنے کے لیے اپنے جائز حقوق سے دستبردار ہوجانا پڑے تو دونوں فریقین تعلقات کو بچانے کے لیے جہاں تک ممکن ہو اپنے حقوق کی قربانی دینے کے لیے تیار رہیں۔
قرآن مجید میں صلح اور مصالحت پسندی کی ایسی بلندی نظر آتی ہے جو صرف ہمارے عظیم و اعلیٰ رب کے کلام ہی کہ شایان شان ہے کہ اگر دوسرا فریق شح نفس, تنگ دلی اور خودغرضی کا شکار بھی ہوجائے پھر بھی ایک مومن صالح اپنی طرف سے احسان اور فیاضی سے کام لے اور صلح و آشتی کا رویہ اختیار کرے۔ اپنے عظیم رب کی خاطر جو قربانی اور فیاضی بندہ مومن انجام دے گا رب علیم و خبیر اس کی کوششوں سے بے خبر نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کی قربانی رائیگاں جائے گی بلکہ اللّہ تعالٰی اس کا بہترین بدل اور اجر دے گا۔
وَالصُّلۡحُ خَيۡرٌ وَاُحۡضِرَتِ الۡاَنۡفُسُ الشُّحَّ وَاِنۡ تُحۡسِنُوۡا وَتَتَّقُوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرًا۔
‘‘صلح بہرحال بہتر ہے نفس تنگ دلی کے طرف جلدی مائل ہوجاتے ہیں، لیکن اگر تم لوگ احسان سے پیش آؤ اور خدا ترسی سے کام لو تو یقین رکھو کہ اللہ تمہارے اس طرز عمل سے بے خبر نہ ہوگا۔’’ (سورۃ النساء۔ 128)۔
تعلقات کی یہ بلندی کوئی یوٹوپیا اور خواب نہیں ہے۔ بلکہ قرآن مجید کی روشنی میں رسول اکرمﷺ نے جس معاشرے کی تشکیل فرمائی تھی جس کی عظمتوں اور برکتوں کا تاریخ انسانی نے اپنے سر کی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں افراد اپنی ضروریات پر دوسرے کی ضروریات کو ترجیح دیتے ہوں۔ جہاں خود غرضی کے بجائے ایثار کی مضبوط بنیادوں پر تعلقات قائم ہوں۔ (ملاحظہ ہو سورۃ الحشر میں مہاجرین وانصار کا تذکرہ۔)
شح نفس یعنی خود غرضی تنازعات کو جنم دیتی ہے، جب کہ صلح یعنی اپنے حق سے دست برداری تنازعات کو ختم کرتی ہے۔ ایسا انسانی گروہ ہی دراصل اپنی توانائیوں کو بچاتا ہے اور اپنے مقصد اور نصب العین پر پوری طرح متوجہ ہوتا ہے۔
ایسے معاشرے کو حقیقی معاشی ترقی اور پائیداری اور عمومی خوشحالی حاصل ہوتی ہے۔ انسانی صلاحیتیں اپنا صحیح مقام پاتی ہیں اور پورا معاشرہ دینی و دنیاوی برکتوں سے مالا مال ہوجاتا ہے۔
اور ان کی قربانیوں اور صبر کا بھرپور اجر کل روز قیامت جنت نعیم کی شکل میں محفوظ اور ان کا منتظر ہے۔■