تمل ناڈو کے 430دلتوں کا قبول اسلام

سماجی انصافی کے شکار افراد کو دامنِ اسلام ميں پناہ مل گئی

تمل ناڈو کے نادر گاؤں ميں 430 دلتوں نے باضابطہ طور پر اسلام قبول کرليا ہے۔ يہ بات 12 فروری کو ايک اخبار کو ديے گئے انٹرويو ميں دلت قائد ايم الاوينل نے بتائی۔
تمل ناڈوميں کوئمبٹور کے نزديک ميٹپلايم کے نادر گاؤں ميں 2 دسمبر کو ايک اعليٰ ذات کے ذريعے بنائی گئی 20 فیٹ اونچی ديوار شديد بارش کی وجہ سے گرنے سے17 لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔ وہ ديوار دلتوں کے گھروں کے اوپر گری تھی۔ اس ديوار کو شيو سبرامنيم نام کے ايک شخص نے اپنے مکان کو دلتوں کے بستی سے الگ کرنے کے ليے بنايا تھا۔ اس واقعہ کے بعد 3000 دلتوں نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کيا تھا۔
تنظيم تمل پلگل کاچی کے جنرل سکريٹری ايم الاوينل نے گزشتہ دنوں انڈيا ٹوڈے کو بتايا کہ ’’430 دلتوں نے باضابطہ اسلام مذہب کو قبول کرليا ہے۔ ديگر کئی بھی اسلام قبول کرنے کے مراحل ميں ہيں۔‘‘
محمد ابوبکر جنھوں نے 2 دسمبر کے واقعہ کے بعد اسلام قبول کيا ہے کہتے ہيں ’’وہ اسلام ميں داخل ہوئے ہيں کيوں کہ ناانصافی، چھوت چھات سے پيچھا چھڑانا چاہتے ہيں۔ مثال کے طور پر دلت درگا کے مندر ميں داخل نہيں ہوسکتے، گورنمنٹ بس ميں اعليٰ ذات کے افراد کے ساتھ نہيں بيٹھ سکتے‘‘
2 دسمبر کے واقعہ کے بعد سے دلتوں ميں برہمی پائی جاتی ہے۔ اس واقعہ کے بعد تمل پلگل کاچی کے جنرل سکريٹری ايم الاوينل نے کہا’ہماری زندگی کی اس (ہندو) مذہب ميں کوئی اہميت نہيں ہے۔ اگر وہ دلت نہيں چاہتے ہيں تو ہميں بھی ان کی ضرورت نہيں ہے۔ ايک اخبار کے مطابق الاوينل نے کہا’شيو سبرامنيم نے دلتوں کے ساتھ امتيازی سلوک کرنے کے مقصد سے ديوار کی تعمير کی تھی۔ اس اونچی ديوار کو سہارا دينے کے ليے کھمبے بھی نہيں تھے۔ اس نے اس ديوار کو اپنے گھر کے پاس ميں رہنے والے دلتوں سے الگ کرنے کے ليے بنوائی تھی۔’ انہوں نے کہا’ہم نے حکام سے شيو سبرامنيم پر درج معاملے کو بدلنے اور ايس سي/ايس ٹی ايکٹ کے تحت معاملہ درج کرنے کا مطالبہ کيا تھا ليکن ہماری فرياد نہيں سنی گئی۔ ’الاوينل آگے کہتے ہيں’17 دلتوں کی موت کے ليے ذمہ دار شيو سبرامنيم کو 20 دن ميں ضمانت مل جاتی ہے اور جو اس کی مخالفت کرتے ہيں ان پر لاٹھی چارج کيا جاتا ہے۔ معاملے درج کيے جاتے ہيں اور جيل ميں ڈال ديا جاتا ہے’ ان کے پارٹی کے صدر نگائی تھرولون فی الحال جيل ميں ہيں۔ انہوں نے الزام لگايا کہ پوليس اور انتظاميہ ان کے ساتھ امتيازی سلوک کر رہا ہے۔ الاوينل نے دعويٰ کيا کہ ان کی پارٹی کے ممبروں کے ساتھ ساتھ نادر کے لوگوں نے اسلام اپنانے کا فیصلہ کيا ہے۔
مسلمانوں ميں ذات پات کا کوئی بھيد بھاؤ نہيں ہوتا، امير غريب سب کے سب ايک مسجد ميں جمع ہو کر ايک صف ميں کھڑے ہو کر نماز ادا کرتے ہيں، دين اسلام ميں وہی شخص بڑا ہوتا ہے جس کا تقويٰ بہتر ہو اور جو متقی و پرہيز گار ہو۔ اسلام نے ذات پات کے امتياز اور علاقائی عصبيت کو پسند نہيں کيا ہے۔ يہاں يہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ اس سے پہلے بھی تمل ناڈو ميں اس طرح کے واقعات پيش آچکے ہيں۔ قبل ازيں ٹاملناڈو کے علاقہ کوئمبتور کے ميٹو پالائم ميں رہنے والے کم از کم 400 دلتوں نے ناانصافی، امتيازی سلوک اور توہين و ذلت سے تنگ آکر دامن اسلام ميں پناہ لی ہے جس کے ساتھ ہی 19 فبروری 1981ء کو ٹاملناڈو کے ہی ضلع ترونلويلی کے ميناکشی پورم ميں بڑی تعداد ميں دلتوں کے اجتماعی طور پر اسلام قبول کرنے کی ياديں تازہ ہوگئيں۔ اس وقت دلتوں کے 300 خاندانوں نے جن ميں 600 مرد و خواتين شامل تھيں ذات پات کے بھيد بھاؤ اور اعليٰ ذات والوں کے توہين آميز رويہ سے تنگ آکر اسلام قبول کرليا تھا۔ جس کے ساتھ ہی اٹل بہاری واجپائی، ايل کے اڈوانی اور بی جے پی و سنگھ پريوار کے قائدين نے مناکشی پورم کا دورہ کرتے ہوئے مسلمان بننے والے ہندوؤں سے دوبارہ ہندو مذہب ميں لوٹ آنے کی اپيل کی تھی۔ اس دوران مناکشی پورم کا نام تبديل کر کے دلتوں نے رحمت نگر رکھ ديا تھا اور گاؤں کے داخل ہونے کے مقام پر ايک مسجد بھی تعمير کروائی تھی۔ ميناکشی پورم يا رحمت نگر ميں دين اسلام قبول کرنے والوں کا کہنا تھا کہ اعليٰ ذات کے ہندو انہيں انسان ہی نہيں سمجھتے۔ ان کی توہين کرتے ہيں اور انہيں سماجی انصاف سے محروم رکھتے ہيں۔ اب يہی باتيں ميٹوپالم کے دلت اور نو مسلم کر رہے ہيں۔