تمل ناڈو میں قومی سطح کی بڑی سیاسی جماعتیں حاشیے پر

علاقائی پارٹیوں میں کانٹے کی ٹکر ۔اسمبلی انتخابات ایک جائزہ

اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی، تمل ناڈو

تمل ناڈو اسمبلی انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے۔ موجودہ اسمبلی کی معیاد 24 مئی2021 کو ختم ہو رہی ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپریل کی 6تاریخ انتخابات کے لیے مقرر کی ہے۔ انتخابات کی گھما گھمی شروع ہو چکی ہے۔ یو پی اے یعنی کانگریس کے راہل گاندھی اپنی ساکھ بچانے کی جدوجہد میں ہر روز تمل ناڈو کے دورے پر آتے ہیں تو این ڈی اے یعنی بی جے پی کے بڑے بڑے لیڈر جنوبی ہندوستان کی اس اہم ریاست میں اپنے قدم جمانے کے لیے آئے دن کہیں نہ کہیں کبھی سیاسی جلسے کرتے یا خود وزیر اعظم مودی کسی پروجکٹ کا افتتاح کرتے نظر آرہے ہیں۔ لیکن یہاں اصل دنگل یو پی اے، این ڈی اے کے درمیان نہیں علاقائی دراوڑ پارٹیوں یعنی ڈی ایم کے اور اے آئی اے ڈی ایم کے درمیان ہے۔ ان پارٹیوں کے لیے بھی اپنے عوامی لیڈر آنجہانی کروناندھی اور آنجہانی جئے للیتا کے منظر نامے سے ہٹ جانے کے بعد یہ پہلا ریاستی الیکشن ہے جس میں انہیں اپنی عوامی مقبولیت ثابت کرنی ہے۔
کل 234 سیٹوں والے اس اسمبلی انتخابات میں جس میں اکثریت ثابت کرنے کے لیے 118سیٹوں کی ضرورت ہے۔ کل ووٹروں کی تعداد 62,674,446 ہے، جس میں مرد 30,838,473، عورتیں 31,828,726 اور 7,246 تھرڈ جنڈر ہے۔
وزیر اعلیٰ عہدہ کے امیدوار آنجہانی کروناندھی کے بیٹے یم کے اسٹالن کی قیادت میں ڈی ایم کے کے ساتھ کانگریس دونوں کمیونسٹ پارٹیاں اور کئی چھوٹی علاقائی پارٹیاں ہیں تو دوسری طرف اے آئی اے ڈی ایم کے جس کی قیادت موجودہ وزیر اعلیٰ پلنی سوامی کر رہے ہیں کے ساتھ بی جے پی، پی ایم کے اور کچھ علاقائی پارٹیاں ہیں۔
ان کے علاوہ ’نام تملر کٹچی‘ این ٹی کے، اپنے بانی شری سیمان کی قیادت میں، ’اماں مکل منیڑا کژگم‘ اے ایم ایم کے، شری دنا گرن جو آنجہانی جئے للیتا کی سہیلی ششی کلا کے بھانجے ہیں، ان کی قیادت میں اور ’مکل نیدی مئیم‘ ایم این ایم، جنوبی ہندوستان کے مشہور فلم ایکٹر کمل ہاسن کی قیادت میں اپنی اپنی قسمت آزمانے کے لیے میدان میں ہیں۔
تمل ناڈو کی سیاست ہمیشہ سے ملک کی دوسری ریاستوں کی سیاست سے الگ ہی رہی ہے۔ یہاں کانگریس کی مخالفت اس وقت شروع ہوئی جب کانگریس دوسری ریاستوں اور پورے ملک میں چھائی ہوئی تھی۔ انقلابی مصلح پریار(EV Ramasawami Periyar) کے زیر اثر جو ڈراوڑ تحریک اُبھری اس کے آگے بڑے بڑے کانگریسی لیڈر تنکوں کی طرح بکھر گئے تھے۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، تمل ناڈو میں دراوڑ تحریک سے جڑی پارٹیوں کے علاوہ کوئی بھی اقتدار تک نہیں پہنچ سکا۔
تمل ناڈو کا موجودہ سیاسی منظر نامہ اس لیے بھی دوسری ریاستوں سے الگ ہے کہ یہاں بہ نسبت دوسری ریاستوں کے انتخابات میں مذہب کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ یہاں کے عوام میں مذہب سے زیادہ زبان اور ذات اول حیثیت رکھتے ہیں۔ تمل زبان سے جنون کی حد تک لگاؤ رکھنے والے یہاں کے لوگ دوسری زبان بولنے والے لیڈروں کی قیادت کو بہت کم تسلیم کرتے ہیں۔ ملکی ایشوز سے زیادہ یہاں علاقائی ایشوز پر انتخابات لڑے اور جیتے جاتے ہیں۔اے آئی اے ڈی ایم کے کی موجودہ حکومت نے گزشتہ اسمبلی انتخابات اپنے انقلابی لیڈر جئے للیتاکی قیادت میں لڑ کر جیتا تھا۔ ان کی موت کے بعد ان کی سہیلی اور دست راست ششی کلا نے پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کی لیکن حیثیت سے زیادہ مال جمع کرنے کے جرم میں انہیں چار سال کی قید کی سزا ہو گئی تھی جس کی وجہ سے مجبوراً انہیں پلنی سوامی کے سر پر تاج رکھ کر جیل جانا پڑا۔ ان کے جیل جانے کے بعد سیاسی منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہو گیا اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ ششی کلا اور ان کے قریبی لوگوں کو پارٹی کی بنیادی رکنیت سے بھی خارج کر دیا گیا۔ ان کے بھانجے ٹی ٹی وی دناگرن کو دہلی کے تہاڑ جیل میں بھی کچھ عرصہ گزارنا پڑا۔ اس کے بعد دناگرن نے اپنی ایک الگ پارٹی بنالی اور جئے للیتا کی موت سے جو سیٹ خالی ہوئی تھی اس کے لیے ہوئے وسط مدتی انتخابات میں امیدوار بن کر شاندار جیت درج کی۔ اس کے بعد ہوئے ایک اور وسط مدتی انتخابات میں جو چند ایم ایل ایز کی ششی کلا اور دناگرن کی تائید میں بغاوت اور پارٹی سے خارج کیے جانے کی وجہ سے ہوئی۔ اے آئی اے ڈی ایم کے کی کارگردگی مایوس کن ہی رہی لیکن سرکار گرنے سے بچ گئی۔ ان سب کے باوجود گزشتہ چار سالوں سے پلنی سوامی وقتی طور پر سہی پارٹی کے اندر قیادت کا بحران پیدا ہونے دیے بغیر پارٹی میں اپنے حریف پنیر سیلوم کو نائب وزیر اعلیٰ کی کرسی سونپ کر کامیابی کے ساتھ حکومت کرتے آرہے ہیں۔ لیکن اس کے لیے انہیں کئی محاذوں پر مرکزی حکومت سے سمجھوتہ کرنا پڑا اور کئی متنازعہ بلوں پر مرکزی حکومت کی تائید کرنی پڑی جس کی وجہ سے ریاست میں ان کی ساکھ بہت متاثر ہوئی۔ عوام میں ان کی حکومت کو مرکزی حکومت کا ہی ایک حصہ سمجھا جانے لگا، جس کی وجہ سے عوام کے لیے کئی فائدہ مند منصوبے شروع کرنے اور انہیں زمینی سطح پر لاگو کرنے کے باوجود ان کو اس کا کوئی فائدہ نہیں مل سکا اور وہ انفرادی طور پر مقبول عام لیڈر کی حیثیت سے ابھر نہیں پائے۔
اس بار پلنی سوامی اور پنیر سیلوم کی مشترکہ قیادت میں اے آئی اے ڈی ایم کے 178سیٹوں پر، نزدیکی حلیف پی ایم کے 23 سیٹوں پر، بی جے پی 20 سیٹوں پر، ٹی ایم سی 6 سیٹوں پر اور باقی پر چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ مسلسل تیسری بار جیت کے لیے الیکشن کا سامنا کر رہی ہے۔
ڈی ایم کے، یم کے اسٹالن کی قیادت میں مقبول پارٹی کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئی ہے۔ عوامی ضرورتوں کو دھیان میں رکھ کر جاری کیے گئے انتخابی منشور کے وجہ سے عوام میں اس کی ساکھ اور مضبوط ہوئی ہے خاص کر سی اے اے اور این آر سی کے خلاف اسمبلی میں قرارداد لانے کے وعدے کے بعد ان کی کامیابی کے امکانات بڑھ گئے ہیں ۔ 234 سیٹوں میں ڈی ایم کے 174سیٹوں پر الیکشن لڑ رہی ہے جس میں لگ بھگ سو سیٹوں پر اس کا مقابلہ براہِ راست حریف انا ڈی ایم کے سے ہے۔ باقی 61 سیٹ اس نے اپنے اتحادیوں میں تقسیم کر دیے ہیں۔ کانگریس جو بڑی اتحادی ہے وہ 25 سیٹوں پر، وائیکو کی ایم ڈی ایم کے دونوں کمیونسٹ پارٹیاں، وی سی کے 6، 6 سیٹوں پر، آئی یو ایم یل تین سیٹوں پر ایم ایم کے دو سیٹوں پر، باقی پر دوسری پارٹیاں ڈی ایم کے کے شانہ بشانہ اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔
ٹی ٹی وی دناگرن اپنی قیادت میں ایک عوامی محاذ بنا کر جس میں ان کی پارٹی اے ایم ایم کے، وجے کانت کی ڈی ایم ڈی کے، اویسی کی اے آئی ایم آئی ایم، ایس ڈی پی آئی اور دیگر چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ کسی بھی طرح اس الیکشن میں اپنی موجودگی ثابت کرنے کے لیے پورے جوش و خروش کے ساتھ مسلسل کوشاں ہیں۔ ششی کلا کے بھانجے کو کتنی عوامی حمایت حاصل ہو گی یہ تو الیکشن کے نتائج کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ فلم اسٹار کمل ہاسن بھی اپنی دانست میں ایک مضبوط محاذ بنا کر مقابلے کے لیے الیکشن کے میدان میں لاؤ لشکر کے ساتھ داخل ہو چکے ہیں۔ اُن کی پارٹی ایم این ایم سے 154 امیدوار الیکشن کا سامنا کر رہے ہیں۔ ساتھ میں سرت کمار کی اے آئی ایس ایم کے 40 سیٹوں پر اور آئی جے کے 40 سیٹوں پر اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔جواں سال شعلہ بیان لیڈر سیمان کی قیادت میں ان کی قائم کردہ پارٹی این ٹی کے بھی تمام سیٹوں پر بغیر کسی پارٹی کے ساتھ اتحاد اور تائید کے عوامی اعتماد حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تمل ناڈو میں ان کی آبادی 5.86 فیصد ہے۔ لیکن یہ پورے صوبے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ سو کے قریب حلقوں میں ان کے ووٹ قابل ذکر ہیں اور تیس سے پینتیس حلقوں میں قابل اثر۔ ان قابل اثر حلقوں میں کچھ حلقے ایسے بھی ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی پچاس فیصد سے زائد ہے۔ انڈین یونین مسلم لیگ تمل ناڈو کی سب سے قدیم مسلم پارٹی ہے۔ پروفیسر جواہر اللہ کی ایم این ایم کے بھی گزشتہ بیس سالوں سے بحیثیت مسلم پارٹی اپنی ایک پہچان بنا چکی ہے۔ ان کے علاوہ دس سے زائد چھوٹی چھوٹی پارٹیاں بھی مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ وقتاً فوقتاً خاص کر الیکشن کے موقعوں پر کرتی رہتی ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے ملکی سطح کی مسلم پارٹیاں، ایس ڈی پی آئی، اے آئی ایم آئی ایم اور ڈبلیو پی آئی بھی تمل ناڈو کے مسلمانوں میں اپنا ایک حلقہ اثر بنانے میں کامیاب رہی ہیں۔ اس بار ڈی ایم کے اتحاد کے ساتھ آئی یو ایم یل تین سیٹوں پر اور ایم ایم کے دو سیٹوں پر انتخابات کا سامنا کر رہی ہیں۔ ڈبلیو پی آئی نے ڈی ایم کے الائنس کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ایس ڈی پی آئی اور اویسی کی اے آئی ایم آئی ایم، ٹی ٹی وی دناگرن کی پارٹی کے ساتھ گٹھ بندھن کر کے پانچ اور تین سیٹوں پر میدان میں ہیں۔ ان میں ایک حلقہ وانم باڑی میں آئی یو ایم ایل اور اویسی کی اے آئی ایم آئی ایم راست ٹکرا رہی ہیں۔ چونکہ یہاں مسلمانوں کی آبادی پچاس فیصد سے کچھ ہی زائد ہے ایسے میں اگر مسلم ووٹ میں بکھراؤ ہوا تو دونوں پارٹیوں کے ہارنے کا سو فیصدی امکان ہے۔ ان کے علاوہ بھی تمام پارٹیوں سے بہت سارے مسلم امیدوار میدان میں ہیں۔
الیکشن کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہو چکی ہیں۔ کرونا وائرس کے دوسرے دور کی آہٹ اور اس کے سائے میں ہونے والا یہ الیکشن کیا تمل ناڈو کی سیاسی تاریخ میں کوئی نئے باب کااضافہ کرے گا ؟ یہ سوال یہاں کے بہت سارے دانشوروں اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والوں کے ذہن میں ابھر رہا ہے۔ اس کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا اس سے پہلے دیکھنا یہ ہے کہ اپریل 6 تاریخ کو منعقد ہونے والے سولہویں تمل ناڈو اسمبلی کے انتخابات جس کے نتائج مئی 2 کو ظاہر ہوں گے، یہاں کے عوام کس کو اقتدار کا تاج پہناتے ہیں۔
[email protected]
***

تمل ناڈو کا موجودہ سیاسی منظر نامہ اس لیے بھی دوسری ریاستوں سے الگ ہے کہ یہاں بہ نسبت دوسری ریاستوں کے انتخابات میں مذہب کوئی اہمیت نہیں رکھتا یہاں کے عوام میں مذہب سے زیادہ زبان اور ذات اول حیثیت رکھتے ہیں۔ تمل زبان سے جنون کی حد تک لگاؤ رکھنے والے یہاں کے لوگ دوسری زبان بولنے والے لیڈروں کی قیادت کوبہت کم تسلیم کرتے ہیں۔ ملکی ایشوز سے زیادہ یہاں علاقائی ایشوز پر انتخابات لڑے اور جیتے جاتے ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 مارچ تا  3 اپریل 2021