تلوک چند محروم کی حمدیہ شاعری
ڈاکٹرمحمدکلیم محی الدین
تلوک چند محروم اردو کے مشہورشاعر ہیں۔ ان کی پیدائش یکم جولائی 1887 کوضلع میاں والی (پنجاب ، پاکستان ) میں ہوئی۔ بی ، اے تک تعلیم حاصل کی اور پھر مختلف مقامات پر درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے رہے ۔ ملک کی تقسیم کے وقت بھڑک اٹھنے والے فسادات کی بنا پر راولپنڈی سے دہلی ہجرت کر گئے ۔محروم کے یہاں شاعری کا جذبہ بہت فطری تھا وہ بہت چھوٹی سی عمر ہی سے شعر کہنے لگے تھے ۔ ۱۹۰۱ میں جب مڈل اسکول کے طالب علم تھے تو ملکہ وکٹوریہ کا مرثیہ لکھا ۔ ہائی اسکول کی طالب علمی کے دور میں رسالہ ’ زمانہ ‘ اور ’ مخزن ‘ میں ان کی نظمیں شائع ہونے لگی تھیں ۔ تلوک نے تمام اصناف میں طبع آزمائی کی ۔ ان کی نظموں میں قومی جذبات بہت شدت کے ساتھ موجود ہیں۔ محروم نے بچوں کے لیے بھی لکھا ، بچوں کے لیے لکھی گئی ان کی نظمیں بچوں میں قومی جذبات کو ابھارنے اور ان کو زندگی کی مثالی اقدار سے متعارف کرانے کے لیے مؤثر ہیں ۔زندگی کی بے ثباتی پر ان کا یہ شعرکافی مشہور ہے۔
اے ہم نفس نہ پوچھ جوانی کا ماجرا
موج نسیم تھی ادھر آئی ادھر گئی
گنج معانی ، رباعیات ، کاروان وطن ، نیرنگ معانی ، بچوں کی دنیا ، بہار طفلی ، ان کے شعری مجموعے ہیں ۔6 جنوری 1966 کو دہلی میں انتقال ہوا ۔
تلوک چند محروم نے خدا کی حمد میں بھی شاعری کی ہے۔ غیر مسلم حمد و نعت گو شعرا میں ان کا نام شامل ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں صرف تبرکاً ہی نہیں بلکہ کافی تعداد میں حمدیہ اشعار کہے ہیں۔ ان کے دیوان میں تقریباً چار پانچ حمد شامل ہیں۔ جو مختصر غزل کی شکل میں نہیں بلکہ 6 اشعار کے ایک بند کی شکل میں لکھی گئی ہے اور کئی کئی بند پر حمد مشتمل ہے۔ انہوں نے خدائے واحد کی مختلف صفات کو بڑے پُراثر انداز میں پیش کیا ہے۔
تلوک چند محروم نے زمزمہ ٔ توحید کے عنوان سے حمد میں ربِ کائنات کی توصیف بیان کی ہے ۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
ہر ذرہ میں ہے ظہور تیرا
ہے برق و شرر میں نور تیرا
افسانہ تیرا جہاں نہاں ہے
چرچا ہے قریب و دور تیرا
ہر ذرہ خاک میں ہے لمعاں
مخصوص نہیں ہے طور تیرا
محتاج شراب و جام کب ہے
جس کو ہوا سرور تیرا
گاتے ہیں سحر ہوا میں کیا کیا
دم بھرتے ہیں سب طیور تیرا
تو جلوہ فگن کہاں نہیں ہے
وہ جا نہیں تو جہاں نہیں ہے
(زمزمہ توحید ،گنج معانی محروم ،ناشر ، محروم میموریل لٹریری سوسائٹی ،صفحہ35، نئی دہلی )
تلوک چند محروم نے ’’ترانہ ٔ وحدت‘‘ کے عنوان سے مناظر قدرت کو پیش کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور حمد وثنا پیش کی ہے۔
ایک جھلک ملاحظہ کیجیے
ہے نظارہ محو حیرت کہ جہاں میں تو ہی تو ہے
کہیں آب ہے گہر میں، کہیں گل میں رنگ و بو ہے
مہ و مہر میں درخشاں تونجوم میں ہے توباں
ترا نور ہر طرف ہے ترا جلوہ چارسو ہے
(ترانہ وحدت ،گنج معانی محروم ،ناشر ، محروم میموریل لٹریری سوسائٹی ،صفحہ39، نئی دہلی )
ایک حمد انہوں نے ’’تو ہی تو ہے‘‘ کے عنوان سے لکھی ہے۔ اس میں تضمین بھی ہے۔ ’’جدھردیکھتا ہو ں ادھر تُو ہی تُوہے‘‘ اس مصرعے کو انہوں نے اپنی حمد میں بطورتضمین استعمال کیا ہے۔ چھوٹی بحر اور قافیہ ،ردیف کابہترین استعمال کیا ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ کیجیے
نہ دل میں وہ ہنگامۂ آرزو ہے
نہ آنکھوں میں بیتابی جستجو ہے
نہ لب پر غم ہجر کی گفتگو ہے
نہ وحشت نہ وہ شورش ہا و ہُو ہے
جدھر دیکھتاہوں ادھر تو ہی تو ہے
مذکورہ بالا اشعار میں دل کی کیفیت بیان کرنے کے بعد انہوں نے اسی حمد میں گلستان اوربرگ و بہارکاخوبصورت نقشہ پیش کیا ہے۔ دیکھیے
شجر میں حجر میں گل و خار میں تُو
گلستاں میں تُو، برگ اور بار میں تُو
بیابان و صحراوگلزار میں تُو
عیاں وادی و دشت و کہسارمیں تُو
جدھر دیکھتا ہوں، ادھر تو ہی تو ہے
(توہی تو ہے ،گنج معانی محروم ،ناشر ، محروم میموریل لٹریری سوسائٹی ،صفحہ40 نئی دہلی )
مذکورہ اشعار میں انہوں نے دلی جذبات کے اظہار اور خدا کی شان کااظہار کیا ہے۔
انہوں نے ’’یہ کس کے جلوے ہیں سارے‘‘ کے عنوان سے ایک حمد لکھی ہے۔ اس میں انہوں نے خدا کی نشانیاں دکھائی ہیں ۔ ملاحظہ کیجیے
فلک پہ مہرومہ پُر ضیا کے جلوے ہیں
زمین پہ لالہ و گل کی ادا کے جلوے ہیں
بُتانِ مہر وش و مہ لقا کے جلوے ہیں
قسم خدا کی، غضب کے بلا کے جلوے
یہ سارے جلوے ہیں کس کے؟ خدا کے جلوے ہیں
(یہ سارے جلوے ہیں سارے ،گنج معانی محروم ،ناشر ، محروم میموریل لٹریری سوسائٹی ،صفحہ42، نئی دہلی )
زمین و لالہ و گل کے علاوہ انہوں نے اس حمد میں مختلف مناظر کو پیش کیا ہے ذیل میں دیکھیے
چاندنی تیرے لیے اس نے بنائی
خاک کے فرش پہ چادر یہ بچھائی کیسی
چرخ پر ماہ کی ہے جلوہ نمائی کیسی
رخ پر نور میں اس کے ہے صفائی کیسی
دیکھ!صانع نے یہ صنعت ہے دکھائی کیسی
اب بھی شاداں نہ ہو اے دل! توخطا کس کی ہے
ایک اور جگہ تلوک چند محروم نے حمد کے مقطع میں لکھا ہے:
روز محرومؔ یہی درس پڑھاتا ہے تجھے
سیکھنے کی ہیں جو باتیں وہ سکھاتا ہے تجھے
لے کے ہر روز جو ویرانے میں جاتا ہے تجھے
مرحلے راہ حقیقت کے دکھاتا ہے تجھے
الغرض تلوک چند محروم نےاپنے دیوان میںجہاں سبھی طرح کی اصناف شعرمیں طبع آزمائی کی ہے وہیں پر انھوں حمدیہ اور نعتیہ شاعری کے بھی بہترین نمونے بعدوالوںکے لیے چھوڑے ہیں۔ اردو شاعری کے حمدیہ شعرا میں تلوک چند محروم کانام ہمیشہ سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔
***