تلنگانہ ‘گورنر و حکومت میں دوریاں
میں نے لیا ہے جائزہ خود اپنا بار بار کیا ہے وفا؟ یہ پھر سے سمجھنا پڑا مجھے تلنگانہ میں تلنگانہ راشٹرا سمیتی کی کے سی آر حکومت اور گورنر ڈاکٹر ٹی سوندرا راجن کے درمیان ایسا لگتا ہے کہ دوریاں بڑھتی جا رہی ہیں ۔ حکومت کی جانب سے بالواسطہ طور پر گورنر کو نظرانداز کرنے کے اقدامات کا الزام عائد کیا جا رہا ہے تو حکومت کا بھی یہ الزام ہے کہ گورنر مبینہ طور پر ریاست کے کام کاج میں دخل اندازی کرنا چاہتی ہیں۔ اسی وجہ سے ریاستی حکومت اور گورنر کے مابین دوریوں میں اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ جس وقت کے چندر شیکھر راؤ کی کابینہ نے کوشک ریڈی کو قانون ساز کونسل کے لیے نامزد کرنے کی قرار داد منظور کرتے ہوئے گورنر کو روانہ کی تھی اس وقت گورنر نے اس فیصلے کو قبول کرنے سے گریز کیا تھا ۔ اسی وقت سے حکومت اور گورنر کے درمیان دوریاں اور اختلافات پیدا ہوتے دکھائی دے رہے تھے ۔ حکومت کو یہ فکر لاحق ہونے لگی ہے کہ گورنر کی جانب سے ریاست کے کام کاج میں مداخلت ہونے لگی ہے اور آئندہ وقتوں میں اس میں مزید اضافہ بھی ہوسکتا ہے ۔ ریاستی اور مرکزی حکومت کے مابین اختلافات اور سیاسی رسہ کشی میں اضافہ کے بعد گورنر اور ریاستی حکومت میں دوریاں اور اختلافات ریاست کے لیے اچھی علامت نہیں کہے جاسکتے ۔ حکومت کو جو تشویش لاحق ہے اس کو گورنر سے رجوع کرتے ہوئے یکسوئی کی جاسکتی ہے ۔ گورنر ریاست کے سربراہ حکومت ہوتے ہیں اور چیف منسٹر یا ریاستی کابینہ گورنر کو رپورٹ پیش کرنے کی عملا پابند بھی ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ گورنر کی جانب سے مختلف امور میں مداخلت کی جہاں تک شکایت کی جا رہی ہے اگر یہ درست ہے تو اس معاملے میں بھی جو مروجہ روایات ہیں انہیں کے تابع رہتے ہوئے اور دستوری گنجائش کے مطابق کام کیا جانا چاہئے ۔ اب اختلافات اور دوریوں کو مزید فروغ دیتے ہوئے ریاستی حکومت نے تلنگانہ اسمبلی کے بجٹ سشن کا گورنر کے خطبہ کے بغیر آغاز کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کو ایک سیاسی اور تکنیکی نوعیت کا فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے ۔ حکومت اس الزام کو مسترد کر رہی ہے کہ اس نے گورنر کے رتبہ کے احترام کو گھٹانے کی کوشش کی ہے ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے ۔ حکومت کے دعووں سے قطع نظر یہ روایت رہی ہے کہ گورنر کے اسمبلی اور کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب سے سشن کا آغاز ہوتا ہے ۔ ان کے خطاب میں حکومت کی اسکیمات اور ترقیاتی پروگرامس وغیرہ کی تفصیل ہوتی ہے تو مستقبل کے منصوبوں کو بھی اس میں پیش کیا جاتا ہے ۔ گورنر کے خطبہ پر ایوان میں تحریک تشکر پیش کی جاتی ہے جس میں اپوزیشن ارکان کو حکومت کی اسکیمات کی خامیوں اور نقائص کو پیش کرنے کا موقع ملتا ہے ۔ اپوزیشن کی صفوں سے حکومت کو تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔ حکومت کی اسکیمات اور پروگراموں میں ترامیم کی تجاویز پیش کی جاتی ہیں اور حکومت پھر اس پر اپنا جواب دیتی ہے ۔ یہ ایک جمہوری عمل ہے جس میں حکومت کے کام کاج کی ایک طرح سے تنقیح ہوتی ہے ۔ ٹی آر ایس حکومت نے جہاں گورنر کے خطبہ کے بغیر سشن کے آعاز کا فیصلہ کیا ہے تو اس کے نتیجہ میں تحریک تشکر کے مباحث بھی نہیں ہوں گے اور اپوزیشن ارکان کو حکومت کی اسکیمات پر ناقدانہ رائے پیش کرنے کا جو موقع ملتا رہا تھا وہ بھی ختم ہوجائے گا ۔ حالانکہ حکومت کا کہنا ہے کہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا ہے کہ گورنر کے خطبہ کے بغیر سشن کا آغاز ہو رہا ہو۔ ماضی کی دو بار کی مثالیں پیش کی جا رہی ہیں لیکن حکومت کے فیصلے کی مخالفت کرنے والوں کا یہ استدلال ہے کہ ماضی میں جب ایسا ہوا تھا اس وقت ہنگامی نوعیت کے حالات تھے جن کا تقاضہ تھا کہ گورنر کے خطبہ کے بغیر سشن کا آغاز کیا جائے ۔ تاہم اب اس طرح کے حالات بالکل بھی نہیں ہیں۔ ریاستی حکومت اور گورنر کے مابین اختلافات اور دوریوں کا ریاست کی سیاست پر بھی اثر مرتب ہونا طے کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس مسئلہ پر بھی بی جے پی ریاستی حکومت کو مسلسل تنقیدوں کا نشانہ بنائے گی ۔ بی جے پی کی جانب سے حکومت کے خلاف پہلے ہی جارحانہ تیور اختیار کئے گئے ہیں اور مسلسل تنقیدیں کی جا رہی ہیں۔ حکومت بھی بی جے پی کا جواب دینے میں کسی طرح کا پس و پیش نہیں کر رہی ہے ۔ ایسے میں حکومت کی جانب سے کیے گئے فیصلے کے بعد ریاست کی سیاست پر اس کے اثرات دکھائی دے سکتے ہیں حالانکہ گورنر کا عہدہ دستوری عہدہ ہے اور اسے سیاست کا حصہ بنانے سے سبھی گوشوں کو گریز کرنا چاہئے ۔ اداریہ : روزنامہ سیاست حیدر آباد،مورخہ2 مارچ 2022
یہ بھی پڑھیں
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 13 تا 19 مارچ 2022