تلنگانہ حکومت کے جی او 111 کی منسوخی کے مضمرات

عثمان ساگر اور حمایت ساگر کا تحفظ ضروری ۔ علاقہ میں کئی غیرقانونی تعمیرات

ڈاکٹر محمد کلیم محی الدین

بہتر ماحولیات کے لیے جدوجہد ضروری۔ سماجی و سائنسی ماہرین اور اعلیٰ عہدیداروں کے تاثرات
پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ پانی کے حصول کے لیے بارش ایک اہم ذریعہ ہے۔بارش کے پانی کو تالابوں کے ذریعہ جمع کرکے پینے کے قابل بنایا جاتا ہے۔ یہ تالاب سیلاب اور قحط سے بچاتے ہیں۔ ماحول دوست ہوتے ہیں اور انسانی زندگی کی بقاء کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ملک اور ریاست تلنگانہ میں تالابوں کے تحفظ کی باتیں ہوتی رہتی ہیں لیکن اب چندر شیکھر راو کی حکومت کی جانب سے جی او 111 کو کالعدم کرنے کی وجہ سے تلنگانہ سرخیوں میں ہے۔
واضح رہے کہ 8 مارچ 1996 کو اس وقت متحدہ آندھرا پردیش کی تیلگو دیشم حکومت نے جی او 111 جاری کیا تھا جس کے مطابق عثمان ساگر اور حمایت ساگر ذخائر آب کے اطراف دس کیلومیٹر تک کا علاقہ تعمیراتی سرگرمیوں کے لیے ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی ان علاقوں میں تعمیری سرگرمیاں مسدود ہیں۔ اس علاقہ میں 84 مواضعات اور تقریبا 1,32,000 ایکر اراضیات شامل ہیں۔ اس جی او کا مقصد دونوں ذخائر آپ کے آبگیر علاقوں کی حفاظت کرتے ہوئے عثمان ساگر اور حمایت ساگر کا تحفظ کرنا تھا۔ اس علاقہ میں تعمیرات کی وجہ سے یہاں کا ماحولیاتی نظام درہم برہم ہو سکتا ہے نیز زیر زمین پانی کی سطح میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ یہ دونوں ذخائر آب حیدرآباد کے لیے پینے کے پانی کے اہم ذرائع ہیں۔ کئی گوشوں سے اس جی او کی منسوخی کی مذمت کی جا رہی ہے جب کہ حکومت تلنگانہ اس جی او کی برخاستگی کو درست قرار دے رہی ہے۔
حکومت نے جی او 111 کو منسوخ کرتے ہوئے ان تمام تحدیدات کو برخاست کرنے کے لیے تازہ جی او 69 جاری کیا ہے۔ اس نئے جی او کے مطابق آب گیر علاقوں میں تعمیراتی سرگرمیوں کی اجازت رہے گی۔ عثمان ساگر اور حمایت ساگر کے آب گیر علاقوں میں تعمیرات کی اجازت نے کئی سماجی و سائنسی ماہرین کو تشویش میں ڈال دیا ہے۔
سماجی جہد کار ڈاکٹر لبنی ثروت نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ 1908 میں سیلاب آنے والے سیلاب جس کے بعد نظام حکومت نے حیدرآباد کی حفاظت کے لیے بھارت کے نامور و ماہر سیول انجینئر ایم ویشیوریا سے مشورہ کیا جنہوں نے شہر کے باہر ڈیمس بنانے کا مشورہ دیا جسے نظام نے قبول کرلیا چنانچہ عثمان ساگر (1912 تا 1917) اور حمایت ساگر (1917 تا 1921 ) تعمیر کیے گئے۔ تب سے یہ دونوں تالاب زائد از سو برسوں سے مسلسل ہمیں سیلاب سے روک رہے ہیں اور پانی جمع کر کے ہمیں پانی مہیا کر رہے ہیں۔ 2020 اور 2021 میں شہریوں کو سیلاب سے بچانے اور زمین کی زرخیزی کو قائم رکھے میں ان تالابوں کا بڑا دخل رہا ہے۔ ان تالابوں کے تحفظ کے لیے 1996 میں جی او 111 جاری کیا گیا تھا۔
اننت گری ہلز سے میر عالم تالاب میں جو پانی آ رہا ہے اس سے لاکھوں لوگ استفادہ کر رہے ہیں۔ عثمان ساگر 3.5 ٹی ایم سی پینے کے پانی کا ذخیرہ کرتا ہے جب کہ حمایت ساگر 2.7 ٹی ایم سی پینے کے پانی کا ذخیرہ کرتا ہے۔ تالابوں کے اطراف کا علاقہ ماحولیاتی طور پر حساس (Eco-Sensitivity) ہوتا ہے اس لیے اس کی حفاظت کرنا چاہیے۔ آب گیر علاقوں میں کئی جگہ غیر قانونی تعمیرات بھی جاری ہیں جنہیں فوری روکنا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے اس علاقہ میں تعمیرات کی درخواست کا جائزہ لینے کے لیے تین کمیٹیاں تشکیل دیں اور ان کے اخذ کردہ نتائج کی بنیاد پر کہا کہ یہاں پر کوئی بھی صنعت قائم نہیں ہونی چاہیے اور جی او 111 میں کوئی سقم نہیں ہے۔
سیلاب سے تحفظ کے لیے کیا کیا جائے گا اس تعلق سے کچھ کہا نہیں جا رہا ہے۔ محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ بہت سارا پانی شہروں میں داخل ہو سکتا ہے۔ 2000 کے سپریم کورٹ کے حکم کو نہ مانتے ہوئے ہائی کورٹ نے ابھی جو فیصلہ دیا ہے اس نے حیدرآباد اور خاص کر جنوبی حیدرآباد کے شہریوں کی جانوں کو جوکھم میں ڈال دیا ہے۔ اس کے لیے نیشنل گرین ٹریبونل، ہائی کورٹ اور وزیر اعلیٰ کے سی آر حکومت بھی ذمہ دار ہیں۔ 1,32,000 ایکر زمین کا کیا کریں گے؟ انہوں نے کہا ’’میں نے 2019 سے مسلسل حکومت تلنگانہ کو لکھا ہے، میں نے خود آبی ذخائر کا معائنہ کیا ہے وہاں پر غیر قانونی دخل اندازی ہو رہی ہے۔ ان قبضوں کو برخاست کیا جانا چاہیے۔ذخائر آب کی صفائی بھی ضروری ہے۔ چند لوگوں کے مفاد کے لیے سارے شہر کو خطرے میں ڈالا نہیں جا سکتا‘‘
جی او 111 کا جائزہ لینے کے لیے تین ممبران پر مشتمل پیوپلز کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو ڈاکٹر بابو راو موظف سائنٹسٹ IICT Hyd، ساگر دھارا، سابق UNEP کنسلٹنٹ اور کو کنوینر ساؤتھ ایشیا پیوپلز ایکشن اگینز کلائمنٹ کرائسیس، ڈاکٹر راما لینگیشور راو موظف چیف سائنٹسٹ نیشنل جیوگرافک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ این جی آر آئی حیدرآباد پر مشتمل ہے۔ یہ کمیٹی جلد ہی اپنی رپورٹ پیش کردے گی۔
تلنگانہ میں سطح زمین پر موجود پانی کی کمی کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ ایسے میں جی او 111 کی منسوخی سے ماحولیاتی تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔ ضلع رنگاریڈی کا اس جی او سے راست تعلق ہے۔ رنگاریڈی ڈسٹرکٹ گراؤنڈ واٹر آفیسر پی رگھوپتی ریڈی نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ سطح زمین پر پانی کی موجودگی زیر زمین پانی کی موجودگی کے لیے ضروری ہے۔ بارش کے پانی کو زمین میں جذب کرنے کے علاوہ تالابوں کے ذریعے زیر زمین پانی کی سطح کو کم ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ جی او 111 کے تناظر میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو سالوں میں مناسب بارش کے باوجود جی او 111 کے تحت آنے والے بعض علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح میں گراوٹ درج کی گئی ہے جن میں شنکر پلی، راجندرنگر اور حمایت نگر شامل ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے ڈپارٹمنٹ کے ذریعے تکنیکی مدد فراہم کی جاتی ہے زیر زمین پانی کی تلاش اور اس کے حصول میں تعاون کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ زیر زمین پانی کی سطح میں اضافہ کے لیے مفید مشورے بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔ روڈ اور بلڈنگس کی وجہ سے زمین میں پانی داخل ہونے نہیں پاتا۔ جدید تعمیرات میں بارش کے پانی کو زمین میں جذب کرنے کے لیے ’’رین واٹر ہارویسٹنگ‘‘ پلانٹ لازمی طور پر بنوانا چاہیے تاکہ بارش کا پانی زمین میں پہنچ کر زیر زمین پانی کی سطح گھٹنے سے روک سکے۔
آل انڈیا دلت مسلم او بی سی ویلفیر اسوسی ایشن کے قومی صدر محمد رفیق نے بتایا کہ ملک بھر میں ماحولیات کے تحفظ کی سخت ضرورت ہے۔ خاص طور پر شہر حیدرآباد کو سیلاب اور قحط سے بچانا ہے تو عثمان ساگر اور حمایت ساگر کے اطراف کے علاقوں کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ ان علاقوں میں غیر قانونی تعمیرات اور قبضے جاری ہیں انہیں فوری ہٹانا چاہیے۔ حکومت سے اپیل ہے کہ وہ فوری جی او 111 کی منسوخی کے فیصلے کو واپس لے اور اس علاقہ کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے۔ عوام کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا اور مفاد پرستوں کو سہولتیں فراہم کرنا انسان دوستی نہیں ہے۔
تلنگانہ میں جی او 111 کی منسوخی کے خلاف احتجاج کو دیکھتے ہوئے حکومت نے اپنے موقف کی وضاحت کی۔ چیف سکریٹری تلنگانہ حکومت سومیش کمار نے بتایا کہ ان ذخائر آب کے اطراف دس کیلو میٹر تک تعمیرات پر جو پابندی لگائی گئی تھی اس میں 84 مواضعات اور تقریبا 1,32,000 ایکر اراضیات شامل تھیں اس کا مقصد دونوں ذخائر آپ کے آبگیر علاقوں کا تحفظ کرتے ہوئے عثمان ساگر اور حمایت ساگر کا تحفظ کرنا تھا۔ جس وقت تحدیدات نافذ کی گئی تھیں اس وقت عثمان ساگر اور حمایت ساگر جو سربراہی آب کا اہم ذریعہ تھے ان میں پانی کے ذخیرہ اندوزی کی صلاحیت صرف 27.59 فیصد تھی۔ اس دوران حیدرآباد میں پینے کے پانی کی طلب 145 ایم جی ڈی سے بڑھ کر 602 ایم جی ڈی ہو گئی۔ 1344 ایم جی ڈی پانی کی سربراہی کا عمل زیر دوران ہے اس لیے عثمان ساگر اور حمایت ساگر ذخائر آب پر صرف 1.25 فیصد پانی کا انحصار کیا جا رہا ہے اور یہ دونوں ذخائر آب اب شہر حیدرآباد کے لیے پینے کے پانی کا واحد ذریعہ نہیں رہے اس لیے حکومت نے جی او 111 مورخہ 8 مارچ 1996 کو برخاست کر دیا ہے لیکن یہ شرط رکھی ہے کہ دونوں ذخائر آب کے پانی کے معیار میں کوئی فرق نہیں آنا چاہیے اور کسی بھی صورت میں دونوں ذخائر آب پر کوئی اثر نہیں پڑنا چاہیے۔ اس تعلق سے تازہ جی او 69 جاری کیا گیا ہے۔
تلنگانہ کے وزیر بلدی نظم و نسق کے ٹی راما راؤ نے کہا کہ ریاستی حکومت آئندہ 18 ماہ میں حیدرآباد کے لیے ایک نئے ماسٹر پلان کی تیاری کے لیے عالمی معیار کی ایجنسی کی خدمات حاصل کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ چونکہ جی او 111 کو برخاست کر دیا گیا ہے اس لیے شہر کے لیے ایک نئے ماسٹر پلان کی ضرورت ہے۔ اس نئے ماسٹر پلان کی تیاری تمام تر ماحولیاتی اُصول و قواعد پر عمل کرتے ہوئے کی جائے گی۔ ترقی اور ڈیولپمنٹ کے لیے 1.32 لاکھ ایکرس کا ایک بہت بڑا علاقہ کھلا ہے۔ ریاستی حکومت نے ایک گرین بجٹ بھی شروع کیا ہے۔ گرین کور میں سات فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ مسلسل دو سال حیدرآباد کو ’’ٹری سٹی آف انڈیا‘‘ کا رینک دیا گیا ہے۔ جب ہم گرینری اور ماحولیات کے لیے بہتر اقدامات کو بہت زیادہ ترجیح دے رہے ہیں تو پھر جی او 111 کی منسوخی کے بعد بھی ہم ماحولیات میں کیوں خلل پیدا کریں گے؟ حتی کہ منسوخ کیے گئے جی او کی زد میں آنے والے 84 مواضعات کے لوگ بھی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں کیوں کہ انہیں اپنا مستقبل روشن نظر آرہا ہے۔
بعض مفاد پرستوں نے جی او 111 کی منسوخی کے بعد خوشی سے جشن منایا اور وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھرراؤ کے فیلکسیز کو دودھ سے نہلایا۔ جب کہ محکمہ پنچایت راج کے سروے میں 11,887 غیر مجاز تعمیرات ہونے کا انکشاف ہوا ہے ۔
مرکزی حکومت آبی تحفظ اور زیر زمین پانی کی سطح کی برقراری کے لیے کام کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ جل شکتی کی وزارت کے تحت اٹل بھوجل یوجنا، جل شکتی ابھیان (جے ایس اے) نیشنل ایکویفر میپنگ اینڈ مینجمنٹ (این اے کیو یو آئی ایم) پروگرام، نیشنل پراسپیکٹیو پلان، پردھان منتری کرشی سینچائی یوجنا (پی ایم کے ایس وائی) کمانڈ ایریا ڈیولپمنٹ اینڈ واٹر مینجمنٹ (سی اے ڈی ڈبلیو ایم) پروگرام، آبی ذخائر کی زندگی کی نگرانی، کارکردگی کا تجزیہ اور پانی کے استعمال کی اثر انگیزی سے متعلق بڑے اور اوسط درجے کے آبپاشی کے پروجیکٹوں جیسی مختلف اسکیموں کے ذریعے عوام کی حصے داری کے ساتھ پانی کے تحفظ سے متعلق متعدد قدم اٹھائے ہیں۔ اس کے باوجود آبی ذخائر کم اور زیر زمین پانی کی سطح گھٹ رہی ہے۔
ماحولیات کو بہتر بنائے رکھنے میں تالاب اہم رول ادا کرتے ہیں۔ انہیں صاف ستھرا رکھنا چاہیے۔ ان کے اطراف تعمیرات سے اگرچہ کہ زمینات کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا لیکن تالابوں کی سطح آب میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ بارش کا پانی سیلاب کی شکل میں شہر میں داخل ہو سکتا ہے۔ گرمی کے بڑھ جانے کا بھی امکان ہے۔ قحط اور خشک سالی بھی واقع ہو سکتی ہے۔ ان سارے امکانات کے درمیان حکومت کو جی او 111 کے متعلق دوبارہ غور و خوض کرنا چاہیے۔ اندھا دھند شہریانے کے بجائے منظم انداز میں تعمیرات ہونی چاہئیں۔ جنگلات اور آب گیر علاقوں کا تحفظ بھی ضروری ہے۔ تب ہی ریاست اور ملک قدرتی آفات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  22 تا 28 مئی  2022