تعمیرپسندوں نےادب میں خواتین کوحقیقی مقام دیا

مردانہ قاہری کے ساتھ نسائی دلبری کا امتزاج فطرت کا معجزہ

سید احمد سالک ندوی ، بھٹکلی

’یوم خواتین‘ کی مناسبت سے اردو شعروادب کے ذخیرے سے کچھ نمونے
’’عورت کے متعلق جس نے بھی سوچا ٹھیک سوچا کہ عورت شاعر فطرت کا کہا ہوا ایک شعر ہے، شاعری کا شاہکار۔ شعر نہیں تو مصرع ضرور ہے۔ مصرع اول مرد سہی مصرع ثانی ضرور ہے اور غالباً مصرع طرح ۔‘‘ ( افشاں، مجموعہ نظم )
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اِسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
ہم میں سے اکثر لوگ بارہا یہ شعر پڑھ چکے ہوں گے۔ شاعر مشرق کے شعری دیوان خانے میں ایسے اور بھی اشعار ہیں جن میں معانی کے ایک سمندر کے ساتھ حقائق کی ایک دنیا دفن ہے۔ مذکورہ شعر بھی اسی قبیل سے ہے جس میں علامہ اقبال نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اور بھر پور شاعرانہ انداز میں دنیا میں خواتین کے وجود کی اہمیت اجا گر کی ہے۔ ہم میں سے اکثریت کو اس بات کا اقرار ہے کہ ’ہمارے معاشرے میں جو رنگینیاں، معاملات کی نرمی، خوش گفتاری، برداشت، صبر اور قربانی جیسے خوبصورت جذبے جب کہیں دیکھنے کو ملتے ہیں تو پورے یقین کے ساتھ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے پس پردہ کسی پردہ نشین کا ہاتھ ہے۔ سماج اور معاشرہ میں پائی جانے والی بہت سے ناہمواریوں میں جہاں لوگ عورت کو مورد الزام گردانتے ہیں وہیں اس بات کا بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ اس جہاں کی خوبصورتی کو نزاکت بخشنے میں خواتین کا ایک بڑا اور اہم حصہ ہے۔
مشہور سیرت نگار وادیب مولانا نعیم صدیقی نے اپنی کتاب افشاں کے پیش لفظ میں انسانی معاشرے کے لیے عورت کی ضرورت پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’مرد ایک ٹھوس حقیقت ہے اور بس۔ اگر مشیت نے محض مردوں سے ہی بزم حیات آراستہ کر دی ہوتی تو زندگی ایک بوجھل چٹان ہوتی جسے چار وناچار ہم سب سروں پر لادے لادے تاریخ کی راہ پر چلتے۔ قدم چار قدم۔ ایک فرسنگ، دس فرسنگ اور پھر باری باری دم توڑتے، گرتے اور ڈھیر ہو جاتے۔ لیکن فطرت نے فریضۂ حیات کو خوشگوار اور دلچسپ بنانے کے لیے مردوں کی سنگینی کا توڑ نسائیت کی لطافت سے کیا ہے۔ اس نے شیشہ وسنگ کو عجیب طرح سے متعلق کر دیا ہے۔ کمال یہ کہ یہ سنگ اس شیشہ کے سامنے پانی ہو جاتا ہے اور یہ شیشہ اس سنگ کو اس طرح کاٹ جاتا ہے جیسے مکھن کی ڈلی سے چھری گزر جائے پھول کی پتیوں نے ہمیشہ ہیرے کا جگر کاٹا ہے۔ مردانہ قاہری کے ساتھ نسائی دلبری کا امتزاج فطرت الہیہ کا عجیب معجزہ ہے۔ ساقی ازل نے حیات انسانی کی صہبا کو شعلہ وشبنم سے ایسے ترکیب دیا ہے کہ بے اختیار زبان پکار اٹھتی ہے
فتبارک اللہ احسن الخالقین ‘‘۔(سورۃ المؤمنون)
اللہ تعالی نے جب عورت کو پیدا کیا تو اس کے ساتھ ہی اس کے اندر ایک کشش بھی رکھ دی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ دنیا میں ہونے والی کسی بھی تبدیلی پر آپ غور کریں گے تو معلوم ہو گا کہ اس میں کسی نہ کسی حد تک عورت شامل رہتی ہے۔
اسی کشش کا نتیجہ ہے کہ یہ ہر زمانے میں موضوع بحث رہی۔ شعراء، ادبا، افسانہ نگار، مصور حضرات اور اسی طرح فنون لطیفہ کے تمام موضوعات پر عورت چھائی رہی۔ اقبال کو اسی لیے کہنا پڑا کہ
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
اقبال نے اس پر افسوس اس لیے کیا ہے کہ جس صدی کو علم اور ترقیات کی صدی کہا گیا اسی میں عورت کو کچھ عاقبت نااندیشوں نے محض جذبات کی تسکین کا ذریعہ سمجھ کر اسے سر بازار نیلام کیا اور نسلوں کی تربیت کے اصل دھارے سے ہٹا کر غیر ضروری مسائل میں اسے الجھا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جو کل تک ’خاتونِ خانہ‘ تھی اب منفی معنی میں اسے ’چراغ محفل‘ بنایا گیا۔
مولانا نعیم صدیقی نے عورت کے ساتھ معاشرے میں ہونے والے ظلم کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے ’’یہ پیکر حسن ولطافت اور سرچشمہٗ محبت ومودت ۔۔ یہ نسائی کردار پوری تاریخ انسانی میں (چند نورانی ادوار کے استثناء کے ساتھ) ہمیشہ مظلوم رہا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح بچے پھول توڑتے ہیں، سونگھتے ہیں پھر ان کی پتیاں نوچتے ہیں ان پتیوں کو پاؤں تلے مسل دیتے ہیں۔ میں جب بھی اپنے دل کا جائزہ لیتا ہوں اپنے اندر عورت کے لیے جذبہ رحم کے سوا اور کچھ نہیں پاتا۔ یہ جذبہ رحم کتنی ہی بار آنکھوں میں آنسو بن کر امڈ آیا ہے۔‘‘
سرسری طور پر جب ہم اردو شاعری کے ذخیرے پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہر دور میں شعرا نے عورت کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ متقدمین شعرا کے ساتھ متوسط دور کے شعرا نے بھی عورت کے مختلف رنگ وروپ کو اپنی شاعری میں دکھایا ہے۔ شرمناک بات یہ ہے کہ آخری دور میں ترقی پسندوں کے یہاں عورت کے لب ورخسار سے لیکر اس کی زلف کی لمبائی اور اس کی سراپا نگاری کر کے ادبی انداز میں اسے عریاں کیا گیا ہے۔ خوش قسمتی سے بیسویں صدی کے آخری کچھ دہوں میں تعمیر پسند شعرا نے عورت کو اس کا حقیقی منصب یاد دلایا۔ ماں، بیٹی اور بنیادی طور پر بنت حوا کی اہمیت اسلام کی تعلیمات کی
روشنی میں سماج پر اس انداز سے واضح کی کہ عورت کو اپنی نسوانیت پر ناز کرنے کا موقع حاصل ہوا۔ ماں ہونے کے لحاظ سے اس کے قدموں میں جنت رکھ کر، پاک دامن عورتوں کے لیے جنت کی بشارت سنا کر اور بیٹیوں کی حسن تربیت پر والد کو جنت کی خوشخبری دے کر در اصل عورت کا ہی مقام بلند وبالا کیا۔ ذیل میں اردو شاعری کے خزانے سے کچھ نمونے پیش ہیں۔
ساحر لدھیانوی کے نام سے آپ بخوبی واقف ہوں گے، وہ در اصل فلمی دنیا کے شاعر تھے۔ بے شمار فلموں کے لیے انہوں نے گیت لکھے۔ ان کے بارے میں آتا ہے انہوں نے سیاسی، رومانی، نفسیاتی اور انقلابی شاعری کی ہے جو تخلیقی طور پر ساحری کے زمرہ میں آتی ہے۔ ایک نظم میں ساحر نے عورت کے ساتھ زمانے کے ظلم پر تبصرہ کرتے ہوئے شاندار بات کہی ہے ۔
عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں نے اسے بازار دیا
جب جی چاہا مسلا کچلا، جب جی چاہا دھتکار دیا
تلتی ہے کہیں دیناروں میں بکتی ہے کہیں بازاروں میں
ننگی نچوائی جاتی ہے عیاشوں کے درباروں میں
مردوں کے لیے ہر ظلم روا عورت کے لیے رونا بھی خطا
مردوں کے لیے ہر عیش کا حق عورت کے لیے جینا بھی سزا
جن سینوں نے ان کو دودھ دیا ان سینوں کا بیوپار کیا
جس کوکھ میں ان کا جسم ڈھلا اس کوکھ کا کاروبار کیا
جس تن سے اگے کونپل بن کر اس تن کو ذلیل وخوار کیا
ترقی پسند شاعر اسرار الحق مجاز نے عورت کے آنچل کو دیکھا تو انہیں لگا کہ اس آنچل کو پرچم بنا کر مردوں کے شانہ بشانہ میدان میں آنا چاہیے۔ چونکہ آنچل کو پاک باز عورت کا زیور کہا جاتا ہے لیکن مجاز نے اپنی آزاد خیالی سے اس آنچل کو پرچم بنانے کی ترغیب دی۔ کہتے ہیں:
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
الطاف حسین حالی جدید شاعری کا اہم نام ہے۔ اپنی ایک مشہور نظم ’’چپ کی داد‘‘ میں حالی نے عورتوں سے خطاب کرتے ہوئے اس کی بڑی پاکیزہ تصویر کشی کی ہے۔ کہتے ہیں کہ
ائے ماؤں، بہنو بیٹیو، دنیا کی عزت تم سے ہے
ملکوں کی بستی ہو تمہیں قوموں کی عزت تم سے ہے
نیکی کی تم تصویر ہو، عفت کی تم تدبیر ہو
تم دین کی ہو پاسباں، ایمان سلامت تم سے ہے
جدید زمانے کے معتبر اور تعمیر پسند شعراء نے بھی عورت کو اسکا حقیقی مقام یاد دلانے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ پروفیسر رشید کوثر فاروقی مرحوم نے لکھا کہ
اسی سے آنک لو حوا کی بیٹیوں کا مقام
کہ اس جہان میں عورت نہیں تو کچھ بھی نہیں
اپنے ایک اور شعر میں کہتے ہیں
ماں کو کیسے چھوڑ دوں، پتنی کو کیسے تیاگ دوں
ایک چھت کی چاندنی اک روشنی آنگن کی ہے
تحریک اسلامی کے ممتاز شاعر حفیظ میرٹھی مرحوم بنت حیا کے تذکرے کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ
ایک بنت حیا کو یہ کہنا پڑا
میں نہیں ہوں تماشائیوں کے لیے
اس کے علاوہ بھی دوسرے شعراء نے اسلام اور اقامت دین کی راہ میں اپنی اپنی بیویوں سے بھی قربانی دینے اور اس راہ کا راہی بننے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے عورت کو مقصد حیات سے آگاہ کیا ہے ۔ مولانا نعیم صدیقی نے ایک نظم ’’ائے جان اگر تم ساتھ نہ دو‘‘ اپنی رفیقہ حیات سے خطاب کرتے ہوئے لکھی ہے جو نہایت پر اثر ہے ۔
یہ ان کی ایک طویل نظم ہے جس میں وہ اپنی شریک حیات سے کہتے ہیں کہ راہ حق میں وہ بھی ان کے ساتھ چل کر اسلام کی سر بلندی کے لیے تعاون کرے
ائے جان اگر تم ساتھ نہ دو تو تنہا مجھ سے کیا ہوگا
تن کا تو ساتھ نباہا ہے کیا من کا ساتھ نبھاؤ گی
تم نے تو مجھ کو چاہا ہے پر کیا حق بھی چاہو گی
اب آگے ایک دو راہا ہے اب راہ تمہاری کیا ہو گی
ائے اجن اگر تم ساتھ نہ دو تو تنہا مجھ سے کیا ہو گا
اسی طرح بعض شعراء نے اردو شاعری بالخصوص اردو غزل میں ماں کا پاکیزہ روپ اور بیٹی کے مقدس رشتہ جیسے مضامین پر بھی خوب شعر کہے ہیں جو یقینا تعمیری ادب کا حصہ ہے۔ کچھ دہائیوں پہلے تک جو عورت اردو شاعری میں صرف ذہنی عیاشی کا ذریعہ بن رہی تھی وہی عورت ماں اور بیٹی کے روپ میں پاکیزگی کی عمدہ مثال بن کر نظر آنے لگی۔ اس میں تعمیر پسند شعرا کا بڑا حصہ ہے جنہوں نے کم از کم عریانیت کے ماحول میں حیا اور حجاب کی اہمیت اجاگر کی۔
ایک طرف عورت کے متعلق تعمیر پسند شعراء کا یہ خیال اور ان کی پاک دامنی اور عفت کا یہ لحاظ تھا تو دوسری جانب ہوس پرستوں کے یہاں اس عورت کی حیثیت کسی کھلونے سے کم نہیں تھی۔ عموما عورتوں کی سراپا نگاری نے عریانیت اور بے ہودہ گوئی کو فروغ دیا۔ ہم اشاعت فاحشہ کے گناہ سے بچنے کے لیے ایسے اشعار پیش کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
دنیا تو محض چند خاص تاریخوں میں ’یوم خواتین‘ منا کر خواتین کو ان کا حق دینے کا ڈھونگ رچاتی ہے جبکہ اسلام نے حیا اور پاک دامنی کو عورت کی کامیابی کی بنیاد قرار دے کر اسے خاص دائرے میں ہر قسم کی آزادی دی ہے۔ اس اعتبار سے ہر دن عورت کا دن ہے، اسے پڑھنے، آگے بڑھنے اور کام کرنے کی تمام آزادیاں حاصل ہیں لیکن دائرے میں رہ کر۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ وہ لوگ خواتین کو کیا مقام دیں گے جن کےنزدیک اس کی عزت وعفت کو ہی نیلام کیا جاتا ہے؟ اسلام مخالف طاقتوں نے اس کے چہرے سے نقاب اتار کر جس طرح اسے بازار کی نمائش کی چیز بنا دیا ہے وہ ہر کسی پر عیاں ہے۔ آج کے حیا سوز اشتہارات میں عورت کو جس طرح بے پیش کیا جا رہا ہے وہ انتہائی شرمناک ہے۔ خواتین کو پردے میں رکھ کر حفاظت اور اس کی آبرو کا جو خیال اسلام میں رکھا جاتا ہے در اصل وہی ایک عورت کا حقیقی سرمایہ ہے۔ عورتوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے ورنہ آزاد خیالی کے زعم میں مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کے شوق میں ان کا جو حال ہوا ہے اس کے لیے مردوں کو ذمہ دار ٹھہرانا کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ اپنی اس تباہی کے لیے عورت خود ذمہ دار ہے۔
***

 

***

 دنیا تو محض چند خاص تاریخوں میں ’یوم خواتین’ منا کر خواتین کو ان کا حق دینے کا ڈھونگ رچاتی ہے جبکہ اسلام نے حیا اور پاک دامنی کو عورت کی کامیابی کی بنیاد قرار دے کر اسے خاص دائرے میں ہر قسم کی آزادی دی ہے۔ اس اعتبار سے ہر دن عورت کا دن ہے، اسے پڑھنے، آگے بڑھنے اور کام کرنے کی تمام آزادیاں حاصل ہیں لیکن دائرے میں رہ کر۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ وہ لوگ خواتین کو کیا مقام دیں گے جن کےنزدیک اس کی عزت وعفت کو ہی نیلام کیا جاتا ہے؟ اسلام مخالف طاقتوں نے اس کے چہرے سے نقاب اتار کر جس طرح اسے بازار کی نمائش کی چیز بنا دیا ہے


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  6 تا 12 مارچ  2022