ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب۔۔

قرآن کو خود پر منطبق کرنے کی عادت بنائیں

مولانا محمد یوسف اصلاحیؒ

اللہ تعالیٰ نے قرآن اس لیے نازل کیا ہے کہ اس کو سمجھ کر پڑھا جائے، اس میں غور کیا جائے اور اس سے نصیحت حاصل کی جائے۔ اللہ تعالیٰ  کا ارشاد ہے:
’’یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے محمدﷺ) ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں‘‘
بعض لوگ جو عربی زبان اور اس کی ادبی لطافتوں سے واقف ہیں وہ تو براہ راست اس میں غور کرتے ہیں اور بعض جو عربی زبان نہیں جانتے وہ ترجموں اور تفسیروں کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور بجا طر پر اپنے اس حسن عمل پر مسرور و شاداں ہوتے ہیں کہ ہم اللہ کی کتاب کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر ان میں سے اکثر لوگ بعض اوقات زبردست غلطی کرتے ہیں، شعوری طور پر کرتے ہیں یا غیر شعور طور پر ، یہ تو اللہ ہی جانتا ہے مگر اس غلطی کی وجہ سے وہ قرآن کے فیض سے محروم رہتے ہیں اور ہدایت کی کتاب پڑھنے کے باوجود ہدایت سے تہی رہتے ہیں۔
دراصل قرآن سمجھ کر پڑھنے والے یہ معلومات ضرور رکھتے ہیں یا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآن پاک جس وقت نازل ہورہا تھ، اس وقت قرآن کے بہت سے مخاطب گروہ تھے۔ مشرکین تھے، منافقین تھے۔ یہود و نصاریٰ تھے، اہل ایمان تھے اور کچھ وہ لوگ تھے جو اطاعت گزارا تو بن گئے تھے ۔ یہود و نصاریٰ تھے، اہل ایمان تھے اور کچھ وہ لوگ تھے جو اطاعت گزار تو بن گئے تھے لیکن ایمان سے خالی تھے۔ یہ معلومات بعض اوقات فائدہ بخش ہونے کے بجائے نقصان رساں ہوجاتی ہیں اور حق و ہدایت سے فیضیاب ہونے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں ’’اے روشنی طبع تو برمن بلاشدی‘‘ یہ معلومات رکھنے والا ان معلومات ہی کی وجہ سے ان ہدایات سے خود کو محروم کرلیتا ہے جن کو قرآن میں پڑھتا اور سمجھتا ہے۔ لیکن یہ سوچ کر اپنی ذات کو ان ہدایت سے اوٹ میں کرلیتا ہے کہ یہ آیت تو فلاں گروہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یہ آیت تو فلاں گروہ کی شان میں ہے، اس آیت میں تو مشرکین کا تذکرہ ہے، اس آیت میں تو منافقین کا حال بیان کیا گیا ہے، اس آیت میں تو فلاں گروہ کو تنبیہ کی گئی ہے، اس آیت میں تو منافقین کا حال بیان کیا گیا ہے، اس آیت میں تو فلاں گروہ کو تنبیہ کی گئی ہے، اس آیت میں فلاں گروہ کا انجام بیان کیاگیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح وہ قرآن کے بہت بڑے حصے کو اپنی ذات سے غیر متعلق کرکے اپنے لیے بے فیض بنا لینے کا زبردست جرم کرتا ہے۔ شعوری یا غیر شعوری طور پر وہ یہ جرم اور غلطی برابر کرتا رہتا ہے۔ مگر وہ اس خوش فہمی میں مبتلا رہتا ہے کہ وہ قرآن کو سمجھ کر پڑھتا ہے۔ مختلف ترجموں اور تفسیروں کی روشنی میں غور و تدبر بھی کررہا ہے اور بہرحال قرآن میں غور و تدبر مسلمان کے لیے زبردست سعادت ہے مگر یہ خوش فہمی اور زعم اس کے حق میں قرآن کریم سے فیضیابی کی راہ میں حجاب اکبر ثابت ہوتا ہے اور وہ پڑھنے سمجھنے کے باوجود ہدایت یابی سے محروم رہتا ہے۔
بلاشبہ ہم مومن ہیں، مسلم ہیں۔ کفر ، شرک، نفاق و عصیان سے ہمیں نفرت ہے مگر جب قرآن میں کافرین اور مشرکین کے مشرکانہ اور کافرانہ اعمال کا تذکرہ ہورہا ہو، جب منافقین کی عہد شکنی اور منافقانہ اعمال کا تذکرہ ہورہا ہو، جب کسی گروہ کی نا فرمانی ، عصیان اور سرکشی کا بیان ہورہا ہو، جب منافقین کے انجام بد کا تذکرہ ہورہا ہو، جب جہنم میں لے جانے والے معاصی کا تذکرہ ہورہا ہو، جب ایسے گروہوں کو تنبیہ کی جارہی ہو جو حق کو پالینے کے بعد حق سے محروم ہورہے ہوں، یا حق کا دعویٰ کرنے کے باوجود آگے بڑھ کر حق کو قبول کرنے کے بجائے حق کی مخالفت کررہے ہوں، تو ان آیات کو مختلف گروہوں پر چسپاں کرکے اگے بڑھ جانے اور ذہن کو جھٹکا دے کر سوچنے اور جائزہ لینے کے بوجھ سے ہلکا کرلینے کی تباہ کن غلطی کرنے کے بجائے رک کر سنجیدگی سے ان برے اعمال اور برے کرداروں کے خد و خال پر غور کرنا چاہیے اور پھر اس آئینے میں بے لاگ انداز میں اپنے سراپا کا جائزہ لے کر خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہمیں اپنے عیوب سے واقف ہونے اور اپنے کردار کو پاک و صاف کرنے کا موقع ملا۔ یہ بالکل ناممکن ہے کہ ایک مومن اور مسلم اپنی غفلت، لاپروائی یا جذبات کے دباو اور نفس کی ہوا پرستی کے نتیجے میں ان اعمال کا ارتکاب کر بیٹھے جو کافرانہ ، مشرکانہ، منافقانہ اعمال ہیں اور جن کا کوئی جوڑ ایمان و اسلام سے نہیں ہے۔ اس طرح سوچنے کی اگر ہم عادت ڈالیں اور قرآن پر سوچنے کا یہ انداز اختیار کریں تو قرآن پاک کا کوئی حصہ اور کوئی آیت ہم سے غیر متعلق نہ ہوگی، ہر حصہ ہمارے لیے ہوگا اور ہر آیت کو ہم اپنا مخاطب سمجھیں گے اور پورے قرآن کا خطاب ہی ہم سے ہوگا۔
یہ زبردست نادانی، افلاس فکر اور بے بصیرتی اپنے نفس پر بدترین ظلم ہے کہ ہم قرآن کے بڑے حصے کو دوسروں پر منطبق کرکے خود کو اس کے فیض ہدایت سے محروم کرلیں اور جب پڑھنے اور سمجھنے بیٹھیں تو یہ کہتے چلے جائیں کہ یہ منافقین کے بارے میں ہے ، یہ مشرکین کے بارے میں ہے، یہ منافقوں کا بیان ہے، یہ یہود سے متعلق ہے اور یہ نصاریٰ سے ، یہ مدینے کے ان بدووں سے خطاب ہے۔ جن کے دلوں میں ابھی ایمان داخل نہیں ہوا تھا۔
سوال یہ ہے کہ قرآن کا ایک بہت بڑا حصہ جب دوسروں کے لیے ہے تو ہمارا تذکرہ کہاں ہے ، کن آیات کا تخاطب ہم سے ہے اور وہ کون سی آیات ہیں جو ہمارے لیے ہیں، کیا وہ آیات جہاں یہ ذکر ہے کہ اللہ کو ان مجاہدین پر پیار آتا ہے جو اس کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں، یا وہ آیات ہماری شان میںہیں جہاں کہا گیا ہے کہ راہ حق میں شہیدہونے والے خدا کے حضور خدا کے انعام و فضل پرخوش و خرم ہیں اور وہاں رزق پارہے ہیں، یا ان آیات میں ہمارا ذکر ہے جو راہ حق میں جان و مال قربان کرنے کے بعد خدا کی رضا کا پروان پاکر جنت کے سدا بہار باغوں میں مسندوں پر جلوہ افروز ہیں، آخر خدا کی اس کتاب میں کہاں ہمارا تذکرہ ہے۔ یا ہمارا تذکرہ ان آیتوں میں ہے جہاں ہمارے رب نے ہمیں پکار کر کچھ احکام دیے ہیں ، کیا ہمارارب وہ ہے جو صرف قانون اور احکام دینے والا ایک حکمراں ہے اور اس سے ہمارے تعلق کی بس یہی نوعیت ہے۔
اگر ہمارا خیال یہ ہے کہ جن آیات میں خدا نے تقویٰ کا حق ادا کرنے والوں، اس کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح صف بستہ جہاد کرنے والوں اور جان و مال سب کچھ قربان کرنے والوں کی فدا کاری کا اعتراف اور تعریف کی ہے ، وہ ہمارا ہی تذکرہ ہے اور کوئی ایک آیت بھی ایسی نہیں جس کو ہم بس دوسروں پر منطبق کرکے مطمئن ہوجائیں کہ ہم نے قرآن کا حق ادا کردیا۔ خدا کا ارشاد ہے:
لوگو ! ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے کیا تم سمجھتے نہیں ہو‘‘۔
یعنی اس میں تمہار ہی حال بیان کیا گیا ہے تمہاری ہی معاملات حیات، تمہاری ہی فطرت ، مزاج ، ساخت اور آغاز و انجام پر گفتگو ہے، انسانی نفسیات ، سیرت و کردار اور اخلاق کے اچھے اور برے پہلو بیان کیے گئے ہیں اور ہر جگہ تمہیں مخاطب کرکے اچھے کردار اپنانے اور برے کردار اور بد انجامی سے بچنے کی تاکید وہ وصیت کی گئی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے کیا اچھی بات کہی ہے۔
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
دراصل ایمان و اسلام کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ ایک آدمی زبان سے کہہ دے کہ میں مومن اور مسلم ہوں اور بس پھر جو چاہے کرے وہ مومن و مسلم ہے، مومن اور مسلم دو نام نہیں ہیں کہ رکھ لیے جائیں بلکہ یہ کرنے کے کام ہیں۔ ایمان لانا پڑتا ہے اسلام لانا ہوتا ہے اور بار بار ہر لمحہ یہ تقاضا سامنے آتا ہے کہ اسلام لاو۔ اسلام لانے والے کو قدم قدم پر فیصلہ کرنا ہوگا کہ میں کیا کروں کیا نہ کروں؟ کیا کروں کہ میں اسلام لانے والے مسلموں میں شمار کیا جاوں اور کیا کروں کہ میرا اسلام محفوظ رہے، ہر لمحہ یہ فکر، یہ اضطراب، یہ فیصلہ، یہ انتخاب یہ اقدام، یہ اجتناب اور یہ تر و اختیار ناگزیر ہے۔ اسلام پر باقی رہنے اور غیر اسلام سے بچنے کے لیے اور ہر آنے والی گھڑی میں یا آپ اسلام کے رخ پر بڑھ رہے ہیں، یا کفر و نفاس کے رخ پر، اس لیے کہ زندگی نام ہے مسلسل حرکت کا یا اجتناب کا، ترک و اختیار کا، رد یا قبول کا اور یہی عملی فیصلے طے کرتے ہیں کہ آپ اسلام لارہے ہیں یا غیر اسلام کی طرف جارہے ہیں۔
اور سوچیں کہ نفاس کا یہ روگ آپ کے ایمان و اسلام کے خلاف خاموش یلغار تو نہیں کررہا ہے۔ آپ کے فکر و عمل میں کوئی ایسی برائی تو پیدا نہیں ہوگئی ہے اور پھر کوشش میں لگ جائیں کہ آپ کا ایمان نفاق کے روگ سے محفوظ رہے۔ نفاق ایمان کا بدترین دشمن ہے، دبے پاوں آتا ہے اور نہایت عیاری سے وار کرتا ہے۔ آدمی ک واحساس نہیں ہوتا مگر وہ اس ظالم کا شکار ہوچکا ہوتا ہے۔ فکر و عمل کے بہت سے پہلووں میں اسی کی نمائندگی کررہا ہوتا ہے۔ لیکن زبان سے نفاق کی برائی کرتے نہیں تھکتا۔ اس چھپے دشمن کے حملوں کے اثرات کا بصیرت کی خورد بین سے جائزہ لینا چاہیے اور اپنے ساتھ خیر خواہی کرتے ہوئے اپنی ذات اور اپنے خاندان و معاشرے پر فکر و تشویش کی نگاہ ڈالنی چاہیے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ آپ بہت سی منافقانہ خصلتوں کو لاپرواہی سے برداشت کررہے ہوں، بہت سی برائیوں سے سمجھوتاکر رکھا ہو اور بہت سی برائیوں کو تاویلوں اور بہانوں سے ناخوب کی فہرست سے خارج کرکے بتدریج خوب بنالیا ہو، قول و عمل کا تضاد، نفاق کی ایک ابھری ہوئی بیماری ہے۔ برائیوں پر اکسانا، برائیوں کو رواج دینا اور بھلائیوں کی راہ مارنا منافقین کا محبوب مشغلہ ہے، ان کے معاشرے میں ایک دوسرے سے دل پھٹے ہوتے ہیں۔ یہ بغض و کدورت اور ایک دوسرے کے خلاف نفرت و تحقیر کے جذبات کے روگی ہوتے ہیں۔ بڑھ بڑھ کر دعوے کرتے ہیں مگر وقت آنے پر دین کی راہ میں کوئی خرچ کرتے ہوئے ان کا دل بیٹھنے لگتا ہے اور کوئی پھانس برداشت کرنے کی ہمت و حوصلہ نہیں ہوتا، یہ خدا اور رسول کا نام تو لیتے ہیں لیکن تعلقات اور مالی معاملات میں خاص طور پر یہ اپنے نفس اور خواہشات کے بندے ہوتے ہیں، یہ دین کا نام تو لیتے ہیں لیکن دنیوی امور میں بدترین دنیا داروں سے بہت آگے ہوتے ہیں۔ بطور مثال یہ چند موٹی موٹی خرابیاں قرآن کی روشنی میں یہاں سامنے لائی گئی ہیں، بے لاگ جائزہ لیجیے اپنا بھی، اپنے خاندان کا بھی اور اپنے مسلمان معاشرے کا بھی، آپ کس مقام پر کھڑے ہیں اور پھر سوچیے کہ منافقین کے اعمال و اخلاق پر تبصرہ کرنے والی آیات آپ سے خطاب کررہی ہیں یا نہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ قرآن کے ہر ہر حصے کا خود کو مخاطب بنائے بغیر آپ قرآن پڑھیں گے تو نہ قرآن کے ساتھ انصاف کرسکیں گے اور نہ اپنے ساتھ اور قرآن میں غور و تدبر کا یہ انداز آپ کو قرآن سے دور توکرسکتا ہے، قریب نہیں کرسکتا اور ہر گز اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ آپ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کا حق ادا کررہے ہیں۔ آپ قرآن فہمی کی چاشنی ہرگز نہیں پاسکتے۔
قرآن کو پڑھنے، سمجھنے اور اس سے ہدایت پانے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ ہر ایک آیت کو اپنے سے متعلق سمجھیں، ہرآیت کا مخاطب اپنی دات کو نائیں اور یہ تصور کریں کہ اللہ نے یہ آیت میرے لیے ہی نازل کی ہے اور دوسروں پر منطبق کرکے سکون محسوس کرنے کی عادت چھوڑ کر اس کو اپنی ذات پر منطبق کرنے کی عادت ڈالیں، تو آپ دیکھیں گے کہ کہیں مومنین کا سراپا بیان کیا جارہا ہے، اپنا جائزہ لیں اور قرآن کے دیے ہوئے سانچے میں خود کو ڈھالنے کے لیے ذوق و شوق اور ولولے کے ساتھ لگ جائیں ۔ کہیں رذائل اخلاق اور ہل جہنم کے کرتوت بیان کیے جارہے ہیں گے۔ اللہ اسے توبہ کریں ، اس کی پناہ ڈھونڈیں، باریک بینی سے اپنا بے لاگ جائزہ لیں اور اس قسم کا کوئی بھی داغ دھبہ اپنے دامن ایمان و اسلام میں پائیں تو اس کو صاف کرنے میں لگ جائیں اور اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کی عادت ڈالیں۔ دنیا والوں کو تو آدمی حیلوں اور تاویلوں سے بھی مطمئن کردیتا ہے ۔ کہیں اہل کفر و شرک کے انجام بد اور ان کے عذات کا لرزہ خیز نقشہ کھینچا جارہا ہوگا ایسے موقع پر آپ کا دل لرزنے لگے، آنکھیں اشک بار ہوجائیں، چہرے پر خدا کی ہیئت و جلال کے آثار و نمایاں ہوں اور آپ اپنے رب کے حضور گڑگڑائیں کہ پروردگارتو اس انجام بد سے مجھے محفوظ رکھ، کہیں مومنین صادقین کے نیک انجام اور آخرت کی ابدی اور بے مثال نعمتوں اور آسائشوں کا ذکر ہوگا۔ آپ رک کر خدا سے دل کی گہرائیوں سے دعا مانگیں کہ پروردگار مجھے ان میں شامل فرما۔ کہیں یا ایہا الذین آمنو کہہ کر پکارا جارہا ہوگا، آپ یوں ہی آگے نہ بڑھ جائیں بلکہ رک کر سوچیں کہ کون پکار رہا ہے میرا رب، شہنشاہ کائنات، مالک کل پکار رہا ہے، مجھے پکار رہا ہے اور مجھے پکار رہا ہے اور مجھے ایمان والا کہہ کر پکار رہا ہے، خوشی سے جھوم اٹھیں اور دل کی زبان سے رب کو جواب دیں پروردگار تو مجھے ایمان والا کہہ کر پکار رہا ہے، تجھے میرے ایمان کا اعتراف ہے، تو اگر مجھے ایمان والا مان لے تو یہی تو میری معراج ہے، یہی تو میری متنہائے تمنا ہے، مجھے تو سب کچھ حاصل ہوگیا۔ تو نے مجھے ایمان والا تسلیم کیا ہے تو اب میں دل و جان سے ایمان کا ہر تقاضا پورا کروں گا اور میں ہرگز ان لوگوں میں سے ن ہہوں گا جو بڑھ چڑھ کر دعوے تو کرتے ہیں لیکن عمل میں بودے ثابت ہوتے ہیں۔ کہیں منافقین کا کردار ، ان کے رذائل اخلاق کا بیان ہوگا، آپ سنجیدگی سے اپنے اخلاق و معاملات اور شب و روز کا جائزہ لیں اور اک ایک روگ کو دشمن کی طرح پکڑ کر تہہ تیغ کرنے کی کوشش کریں۔ منافقین کا لفظ پڑھ کر بے پروائی سے آگے نہ بڑھیں بلکہ ایک ایک برائی کو رک رک کر پڑھیں۔ قرآن میں بار بار مختلف انداز اور مختلف پیکروں میں حق و باطل، نیکی اور بدی ، کفر و اسلام، اخلاص و نفاق ، توحید و شرک، اتباع و سرکشی، خود شناسی اور خود فراموشی، احسان مندی اور نا شکری ، خدا شناسی اور خدا بیزاری ، آخرت پسندی اور آخرت فراموشی، رذائل اخلاق اور فضائل اخلاق، حسن معاملہ اور بد معاملگی ، حسن کردار اور بد کرداری، پاکیزگی اور گندگی، عالی ظرفی اور رذالت اور دیانت و خیانت ان ہی اعمال او راقدار کا باہمی ٹکراو ، کشاکش اور آویزش نظر آئے گی اور جب تک آپ کے سینوں میں دل دھڑک رہے ہیں، آنکھوں میں دم ہے، دماغ میں سوچنے سمجھنے کی توانائی ہے اور جسم میں ترک و اختیار کی قوت و قدرت ہے، ہر ہر قدم او رہر ہر موڑ پر آپ کے ایمان و اسلام کی آزمائش ہے اور اس ازلی جنگ میں تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور رہتی دنیا تک جاری رہے گی۔ آپ برابر امتحان گاہ میں ہیں اور آپ کو شعور ہو یا نہ ہو، آپ اپنا رول ادا کررہے ہیں اور عالم الغیب و الشہادۃ برابر آپ کے بارے میں صادر فرمارہے ہیں اور آپ کی تگ و دو کو نگاہ میں رکھ کر مختار کل آپ کے دل کو اپنی چٹکی سے اپنے علم و حکمت کے تحت برابر ادھر پھیر رہا ہے اور قلب کے یہ انقلابات آپ کی زندگی اور آپ کی روح اور دماغ پر اثر انداز ہورہے ہیں۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے نبی ﷺ اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے۔
یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک
’’اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر جمادے‘‘
تو ہم لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ہم آپ پر یمان لائے او رجو دین آپ لے کر آئے اس پر ایمان لائے کیا آپ کو ہمارے باےر میں بھی خوف ہے (کہ ہم پھر جائیں گے) ارشاد فرمایا
’’جی ہاں! بلاشبہ انسانی قلوب رحمن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں میں ہیں وہ جدھر چاہتا ہے ان کو پھیرتا رہتا ہے‘‘۔
یعنی ہر انسان اور ایمان و اسلام کا دعویٰ کرنے والا ہر شخص اس نازک موڑ پر کھڑا ہے کہ اس کے افکار و جذبات، اعمال و حرکات اور شب و روز کی تگ و دو کے پیش نظر خدا تعالیٰ اس کے بارے میں اپنے فیصلے صادر فرماتا رہتا ہے اور یہ فیصلہ اس کے فکر و عمل کے لحاظ سے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس نازک ترین مقام پر ہونے کا احساس و شعور رکھنے والا کیا آسانی کے ساتھ مطالعہ قرآن کے دوران یہ کہتے ہوئے بیباکانہ آگے بڑھ سکتا ہے کہ فلاں آیت فلاں گروہ کے بارے میں اور فلاں آیت فلاں گروہ کے بارے میں اور فلاں آیت فلاں گروہ کی شان میں ہے اور فلاں آیت میں فلاں گروہ کا انجام بد بیان کیاگیا ہے۔ فلاں آیت میں یہود و نصاریٰ کی بد عنوانیاں بیان کی گئی ہیں اور فلاں آیت میں نصار کی گمراہیاں، یا اسے سب سے زیادہ اپنی فکر دامن گیر ہوگی۔
دراصل قرآن میں جس جس کردار کا بھی ذکر ہے اور کردار کی جس جس خامی اور برائی یا اچھائی اور بھلائی کا تذکرہ ہے یہ کردار بھی اور کردار کی یہ برائی اور اچھائی بھی ہر دور میں پائی گئی ہے اور پائی جاتی رہے گی کوئی کردار یا کردار کی کوئی برائی کسی دور کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ ہر کردار ہر دور میں پایا جاتا ہے اور کردار کی ہر برائی ہر دور میں پائی جاتی ہے اسی طرح کردار کی ہر بھلائی ہر دور میں پائی جاتی ہے او آدمی تادم واپسیں برابر امتحان گاہ میں ہے۔ اس تصور اور یقین کے ساتھ قرآن کا مطالعہ اور قرآن میں غور و فکر ہی کے ذریعے انسان قرآن سے فیض ہدایت پاسکتا ہے اور ایسے مطالعہ ہی سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ آدمی قرآن سے وہ نور حق پاسکے گا جس کے لیے قرآن کا نزول ہوا ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  22 تا 28 مئی  2022