آزادی کے حقیقی معنیٰ و مفہوم

مرسلہ: تابش سحر

 

ایک چڑیا کھلے آسمان میں اڑان بھرتی ہے، درخت کی جس ٹہنی پر چاہے بیٹھتی ہے، چہچہاتی ہے، بہار کے نغمے گنگناتی ہے اور اپنا آشیانہ اپنی مرضی سے تعمیر کرتی ہے تو وہیں دوسری چڑیا آہنی قفس میں قید و بند کی زندگی گزارتی ہے، کھلا آسمان، اونچی اڑان اور اپنا آشیانہ اس کے لیے ایک خواب کی حیثیت رکھتا ہے، بہار ہو کہ خزاں چھوٹا سا ایک پنجرہ ہی اس کا مسکن بلکہ سارا عالم ہوتا ہے جہاں اداسیوں کے بسیرے ہوتے ہیں، پہلی چڑیا کی زندگی کی تمام تر رونقیں آزادی کی مرہون منّت ہے اور دوسری چڑیا کی دکھ بھری داستان غلامی کا نتیجہ۔ لغت میں لفظ ’آزادی‘ کے معنیٰ خودمختاری، حرّیّت، رہائی، بےقیدی اور خلاصی ہیں، غلامی، آزادی کی ضد ہے۔ مذکورہ بالا معانی کے پیشِ نظر کسی آزاد ریاست کا ہر شعبہ بندشوں اور بھیدبھاؤ سے پاک ہونا چاہیے، کسی خاص طبقہ کو نشانہ بنایا جائے یا اسے دوسرے درجہ کا شہری سمجھا جائے تو وہ ریاست سب کچھ ہوسکتی ہے مگر آزاد ریاست کہلانے کی مستحق نہیں، آزادی فطرت کی عطا کردہ انمول نعمت ہے لیکن بدقسمتی سے اسی لفظ کو نعرہ بنا کر غلامی کے نئے نئے جالوں میں انسانوں کو پھنسایا گیا۔ آزاد انسان کبھی لات و منات کے بندے بنے تو کبھی نظریات کے غلام، انہوں نے کبھی وطنیت کے بُت کو سجدہ کیا تو کبھی الحاد کے رستے پر چل پڑے۔ محض خواہشات کی پیروی کو آزادی کا نام دے دیا جائے تو آزادی دو دھاری تلوار ہے کیوں کہ ابنِ آدم کی خواہشات اسے ہلاکت کے گڑھے میں بھی ڈال سکتی ہے، شراب و شباب کی مستی اسے جہنّم کا ایندھن بناسکتی ہے، انسان، جسے قرآن میں {ظلوم و جھول} ظالم اور جاہل کے الفاظ سے بھی یاد کیا گیا، اگر وہ آزادی کے حدود اربعہ طئے کرے تو یقیناً اپنے آپ پر ظلم کرے گا اور اپنی جہالت کا ثبوت پیش کرے گا مثال کے طور پر جمہوریت کو لیجیے، ریاست کا حال ’ہر طرف بولہب ہے مصطفیٰ کوئی نہیں‘ کے مصداق ہو تو ظاہر ہے بولہب کے حواری انتخابات کے ذریعہ اپنے ہی جیسے فاسد کو منتخب کریں گے اور تختۂِ اقتدار پر بٹھائیں گے پھر عدل و انصاف کو شرمسار کریں گے، عدالت رسوا ہوگی، امن رخصت ہوگا، خوشحالی معدوم ہوگی، ترقّی کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں ہوگا الغرض عوام کی اکثریت کی رائے پر قیادت کا فیصلہ کردیا جائے تو تعمیر نہیں تخریب کے دروازے کھلیں گے بایں وجہ آزادی کی دولت سے فیضیاب ہونے کے لیے انسانوں کو دنیا کے تمام نظام و نظریات کو ایک طرف رکھتے ہوے کسی ایسے دائرے میں رہتے ہوے زندگی گزارنی پڑے گی جو وسیع و عریض تو ہو مگر انسانیت کو نقصان پہونچانے والی کوئی ایک شئے بھی اس میں نہ پائی جاتی ہو اور وہ مقدّس و بےعیب دائرہ خدائی نظام {دینِ اسلام} ہے۔ دینِ اسلام سے پہلے انسان روایتوں کی بندشوں میں جکڑا ہوا تھا، توہمات کے دلدل میں دھنسا ہوا تھا، متکبر سرداروں کے آستانوں پر ماتھے ٹیکے جاتے، پتھر کی مورتیوں اور دیگر مخلوقات کو خدا سمجھا جاتا (جبکہ انسان کو خدا نے اپنی تمام مخلوقات پر فوقیت بخشی)عقل کی بنیاد پر ایسے ایسے قانون اور اصول وضع کیے گئے جو معاشرے کی تباہی کا سبب بن گئے اسی لیے تو ربعی بن عامر نے اہلِ فارس کے سامنے بلاجھجک یہ اعلان کیا کہ ’’ہم وہ لوگ ہیں جنہیں ﷲ تعالیٰ نے بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر ایک ﷲ کا پابند بنانے کے لیے بھیجا ہے۔‘‘ ہر شئے کا خالق و مالک ﷲ ہے آزادی اور خودمختاری کا دعویٰ کرکے کوئی خدا سے راہِ فرار اختیار نہیں کرسکتا بلکہ خدا سے راہِ فرار غلامی اور قید کا مقدّمہ ہے بقول اقبال
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
لیکن ترقی یافتہ دنیا کے نزدیک آزادی کا مطلب خدا سے بغاوت اور عقل و نفس کی حکمرانی ہے پھر آزادی کا بول بالا ہونے کے باوجود انسان غلام ہیں، ہر ملک میں یومِ آزادی دھوم دھام سے منائی جاتی ہے مگر اسی ملک میں ظلم و جبر کا بازار بھی گرم ہوتا ہے، سماج کا ایک طبقہ معاشرے کے دوسرے طبقہ کو اپنا غلام سمجھتا ہے۔ خردمند و دانشور آزادی کے جو چاہے معنیٰ بیان کرلیں ہمارے نزدیک آزادی کا مطلب بس یہی ہے ’’خدا کے بتائے ہوے حدود کا پاس و لحاظ کرتے ہوے خودمختاری کے ساتھ زندگی بسر کرنا۔‘‘ جب ایک آزاد ریاست کا قیام اسی سنہرے اصول پر اصول ہوگا تو انسانی معاشرہ میں عدل، مساوات، امن، ترقّی اور حقیقی آزادی کے جلوے نظر آئیں گے، ایک عام غریب بڑھیا وقت کے فرمانروا کو ٹوک سکے گی، ایک عام شہری قومی خزانے کے سلسلے میں استفسار کرسکے گا، ایک خاتون تن تنہا قادسیہ سے چلے گی اور عافیت و سلامتی کے ساتھ مکّہ پہونچے گی۔