تب بابری مسجد مسمار ہوئی تھی اور اب انصاف
سیکولر طاقتوں کے سامنےفسطائیت کے بڑھتے قدموں کو روکنے کا چیلنج
ابھے کمار،دلی
بابری مسجد انہدام کیس کی کئی دہائیوں سے سماعت کرنے والی ملک کی ممتاز جانچ ایجنسی سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے ۳۰ ستمبر کو لکھنؤ میں ایک ایسا فیصلہ سنایا جس نے عوام کو بری طرح مایوس کیا ہے۔ تقریباً ۳۰ سال پرانے فوجداری مقدمے پر فیصلہ سناتے ہوئے، سی بی آئی کے خصوصی جج ایس کے یادو نے تمام ۳۲ ملزموں کو بری کر دیا ہے۔عدالت نے کہا کہ اس کے پاس ایسے شواہد موجود نہیں تھے جن کی بنیاد پر مسجد کو منہدم کرنے والے قصورواروں کی شناخت کی جا سکے۔ ۳۲ ملزموں کی فہرست میں بی جے پی کےسابق صدر اور مندر تحریک کے بڑے لیڈر لال کرشن اڈوانی، سابق مرکزی وزرا مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی اور سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ شامل ہیں۔
سب سے مایوس کن بات یہ ہے کہ دن کے اُجالے میں ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں مسمار کی گئی بابری مسجد کے بارے میں کورٹ نے کہا کہ یہ عمل پہلے سے منصوبہ بند نہیں تھا۔ یہ بات کسے نہیں معلوم کہ جب مسجد کو توڑا جا رہا تھا، تب سینکڑوں کی تعداد میں مقامی، قومی اور بین الاقوامی صحافی جائے واردات پر موجود تھے۔کچھ میڈیا نے اس کی رپورٹنگ براہ راست بھی کی اور اس پورے واقعہ کی ویڈیو بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ یہی نہیں ٦دسمبر اور اس کے آس پاس کے اخباروں کے اوراق چیخ چیخ کر گواہی دے رہے ہیں کہ بابری مسجد کا انہدام ایک بڑی سازش کا حصہ تھا۔ پھر بھی عدالت یہ کہ رہی ہےکہ اس کے پاس اس بات کےپختہ ثبوت نہیں ہیں کہ انہدام کا مرتکب کون ہے۔یہ بھی عجیب بات ہے کہ عدالت جہاں ایک طرف یہ کہ رہی ہےکہ مسجد گرانے کا عمل ’’سماج دشمن عناصر‘‘ نے انجام دیا، وہیں وہ یہ بھی بتلانے سے قاصر ہے کہ وہ عناصر کون ہیں۔یہی نہیں بلکہ کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ملزمین ہجوم کو روک رہے تھے نہ کہ انہیں مشتعل کر رہےتھے۔
عدالت کے فیصلے کو سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسجد بھلے ہی ۲۸ سال قبل شہید کی گئی تھی مگر اب انصاف کا قتل ہوا ہے۔اس فیصلے کے بعد عوام میں عدلیہ کے تئیں اعتماد کم ہو گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ آئین اور جمہوریت کا قتل ہے۔ ملک کی سیکولر جماعت میں اس بات کا شدید غصہ ہے کہ عدالت اس بات قبول کرتی ہے کہ بابری مسجد کو مسمار کرنا ایک مجرمانہ کارروائی تھی لیکن یہ بتلانے سے پیچھے ہٹ گئی کہ اس شدید جرم کا مجرم کون ہے۔جب معمولی سے معمولی کام کو انجام دینے کےلیے ایک پلاننگ کی ضرورت ہوتی ہے توبھلا یہ کیسے ممکن ہو گیا کہ ٦دسمبر ١٩٩٢ کے روز ایودھیا میں ہزاروں کی تعداد میں ہجوم یوں ہی اکھٹا ہو گیا ہو۔ یہ بات تو قابل قبول نہیں ہے کہ اتنا بڑا واقعہ اچانک رونما ہو گیا۔ جس چیز سے ہمیں اچانک سابقہ پیش آتا ہے اس کے بھی تار سابقہ واقعات سے جڑے ہوتےہیں۔ اگر کسی درخت کی جڑیں ہمیں زمین پر نظر نہیں آتیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہےکہ درخت بغیر جڑوں کے کھڑا ہے؟ یہ بات بہت سارے صحافیوں نے اپنے ذاتی تجربات سے کہی ہےکہ بابری مسجد انہدام کے لیے ایک لمبے وقت سے تیاری چل رہی تھی۔ جس دن بابری مسجد کو گرایا جا رہا تھا اس دن صحافیوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ بی جےپی، آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد کے لیڈر ”ایک دھکہ اور دو بابری مسجد توڑ دو“ جیسے نعرے لگاتے ہوئے ہجوم کو مسجد توڑنے کےلیے اُکسا رہے تھے۔ اگر یہ سب کچھ اچانک ہوا تو کیسے کارسیوک اسلحہ کے ساتھ وہاں پہنچے تھے؟ کیا بابری مسجد جیسی بڑی مضبوط عمارت کو توڑنا بچوں کا کھیل تھا؟ ہرگز نہیں۔
کوڑت کے فیصلے کےاگلےروز، ہندی میڈیا انصاف کی بات کرنےکےبجائے ہندوتوا کے ایجنڈے کے تحت ملزمین کی حمایت میں آ گیا اور سیکولر جماعتوں کو نشانہ بنانے لگا۔ ایک بڑے ہندی اخبار نے تو سارے صحافتی ضابطوں کو طاق پر رکھتے ہوئے ’جے شری رام‘ کے عنوان سے ایک اداریہ لکھا۔ایک دوسرے بڑے ہندی کے اخبار نےنہ صرف ملزمین کا دفاع کیا بلکہ سیکولر جماعتوں کو برا بھلا کہا کہ وہ کیسے بھگوان رام کی جائے ولادت پر سوال کھڑا کر سکتے ہیں۔ اس اداریہ میں اپوزیشن پارٹی کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ جو بات ان اخباروں کے صفحات سےغائب ہے وہ یہ ہےکہ کیسے کچھ لوگوں نے مندر مسجد کا جذباتی سوال اٹھا کر ملک کو فرقہ وارانہ تشدد کی آگ میں جھونکنے کا کام کیا۔ ہندی میڈیا کےکوریج کو دیکھ کر ایسا گمان ہوتا ہے کہ ملک کی جمہوری نظام پر خطرےکے بادل چھائے ہوئے ہیں۔
کیسے یقین کیا جا سکتا ہے کہ عدالت اور ہندی میڈیا کو بابری مسجد کو مسمار کرنے والے مجرموں کے بارے میں معلومات حاصل نہیں ہیں جبکہ بھگوا لیڈر خود پریس کے سامنے آکر یہ قبول کر رہے ہیں کہ انہوں نے بابری مسجد توڑی اور اس عمل پر انہیں ’فخر‘ ہے۔ پچھلے سال بی جے پی کی رکن پارلیمنت پرگیا سنگھ ٹھاکر نے خود قبول کیا ہے کہ وہ خود ٦ دسمبر کے روز ایودھیا میں موجود تھی اور مسجد کے انہدام میں حصہ لیا تھا۔ گزشتہ سال ہوئےعام انتخابات کے دواران3 ایک انٹرویو دیتے ہوئے ٹھاکر نے کہا تھا کہ ’’ ہم رام مندر بنائیں گے اور عالیشان بنائیں گے ہم مسجد توڑنے گئے تھے میں نے خود چڑھ کر اسے توڑا تھا اور اس پر مجھے زبردست فخر ہے۔۔۔ مجھے ایشور نے طاقت دی تھی کہ ہمیں ملک کی لعنت مٹانا ہے‘‘۔ اس بیان کے بعد الیکشن کمیشن نے انہیں انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے لیے نوٹس بھیجا مگر اس کے بعد بھی وہ خاموش نہیں رہیں اور کہا ’’میں اپنےبیان سے پیچھے نہیں ہٹ رہی ہوں۔ ڈھانچہ کو توڑا گیا جہاں ایک عالیشان مندر تعمیرکی جائے گی۔کوئی مجھے رام مندربنانے سے روک نہیں سکتا‘‘
تضاد دیکھیے کہ سی اے اے کے خلاف پُرامن طریقے سےاحتجاج کرنے والے جہدکاروں کے خلاف ثبوت اکٹھا کرنے میں سیکوریٹی ایجنسی کو تھوڑا بھی وقت نہیں لگتا۔ حکومت وقت کی پالیسی پر تنقید کرنے والے سیکڑوں سماجی اور سیاسی کارکنانوں کو ملک مخالف اور دہشت گردی سےمتعلق دفعات میں ملزم بنایاجاتا ہےاور بہت سے لوگوں کو جیل میں بھی ڈال دیا جاتاہے۔ حکومت پر تنقید کو ملک مخالف اور دہشت گردی سے جوڑنے میں پولیس اور دیگر جانچ ایجینسیاں کافی سرگرم ہیں۔ اگرکوئی مسلمان نوجوان گرفتار کر لیا جاتا ہےتو کچھ ہی گھنٹوں میں پولیس اس کے خلاف تمام ثبوت جمع کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ مگر ۲۸ سال پرانے بابری مسجد انہدام کیس میں سی بی آئی پختہ ثبوت اکٹھا نہیں کر پائی۔ جس بابری مسجد کی شہادت پوری دنیا کی آنکھوں کےسامنے ہوئی اس کارروائی کا ثبوت ملک کی ’ممتاز‘ جانچ ایجنسی کو ٢٨ سال کی محنت کے باوجود نہیں ملا۔ کیا سی بی آئی عدالت پرگیا سنگھ ٹھاکرکابیان بابری مسجد کیس میں ثبوت کے طور پر استعمال نہیں کر سکتی تھی؟
سی بی آئی عدالت کے ذریعے بری کیے جانے والے ملزمین میں جے بھگوان گویل بھی شامل ہیں۔٦٢ سالہ گویل پہلے شیو سینا میں تھے مگر بعد میں وہ بی جے پی میں چلے گیے۔عدالت کے فیصلے کے فوراً بعد، گویل نے نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کوشش ہمیشہ سے تھی کہ بابری مسجد کو٦دسمبر ١٩٩٢کو منہدم کر دیا جائے۔ گویل کے مطابق مسجد توڑنے کی پہلی کوشش ١٩٩٠ میں کی گئی تھی مگر اسے اس وقت کےاتر پردیش کے وزیر علیٰ ملایم سنگھ نے ناکام کر دیا تھا۔ گویل نےمزید کہا کہ عزم مصمم کے ساتھ انہوں نے آخرکار ۱۹۹۲ میں کامیابی پالی۔اتنا ہی نہیں گویل نے یہ بھی کہا کہ آنے والے دنوں میں کاشی میں واقع مسجد توڑی جائے گی اور متھرا میں شاہی عید گاہ کو بھی مسمار کیا جائے گا۔ ونے کٹیار نے بھی جن کو ۳۲ ملزموں کے ساتھ بابری مسجد کیس میں بری کیا گیا ہے، کہا ہے کہ ہندو سنتوں کے ساتھ مشورہ کرکے متھرا میں بھی رام مندر کے طرز پر ایک تحریک چھیڑی جائے گی۔ ملک کے عدالتی نظام کے لیے اس سے بڑی شرمناک بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ ملزم خود پریس کے سامنے آ کر بڑے فخر کے ساتھ یہ کہ رہا ہے کہ مسجد اسی نے ڈھائی ہے اور ایسا قدم آگے بھی اٹھایا جائے گا۔ مگر کورٹ کو نہیں معلوم کہ مسجد کے انہدام کےمجرم کون ہیں۔
جسٹس منموہن سنگھ لبراہن نے جن کی قیادت میں سال ۱۹۹۲ میں بابری مسجد کیس کی تفتیس کےلیے ایک جانچ ٹیم تشکیل دی گئی تھی، صاف طور پر کہا تھا کہ بابری مسجد انہدام ایک منصوبہ بند کارروائی تھی۔’’میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ(بابری مسجد انہدام) ایک شہری سازش تھی۔ میں اس بات پراب بھی یقین کرتا ہوں۔میرے سامنے جو شواہد پیش کیےگیے اس سے یہ صاف ہو جاتا ہے کہ بابری مسجد کا انہدام باریک طریقے سے کی گئی منصوبہ بندی تھی۔مجھے یاد ہے اوما بھارتی نے صاف طور پراس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔مسجد کا انہدام غیبی طاقتوں نےنہیں کیا تھا، بلکہ اسے انسانوں نےانجام دیا تھا (انڈین ایکسپریس،یکم اکتوبر، 2020)۔ غور طلب ہے کہ لبراہن کمیشن کی تشکیل بابری مسجد انہدام کیس کی جانچ کرنے کےلیےسال ١٩٩٢میں کی گئی تھی٢٧ سال کے بعد کمیشن نےاپنی رپورٹ پچھلےسال جمع کی تھی جس میں اس نے سینئرآرایس ایس اور بے جےپی لیڈروں کو ملوث بتایا تھا۔اڈوانی،مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور تب کی کلیان سنگھ کی قیادت والی اتر پردیش کی بی جے پی حکومت کے رول کے بارے میں لبراہن کمیشن نے کہا کہ’’انہوں نے فعال اورغیرفعال دونوں طریقوں سے انہدام کی حمایت کی تھی۔لبراہن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا تھا کہ کارسیوکوں کا ہجوم اچانک سے جمع نہیں ہو گیا تھا اور نہ رضاکارانہ طور پر لوگ جمع ہو گئے تھے اس کےپیچھے منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ لبراہن کمیشن کی رپورٹ میں٦٠ افراد کو نامزد کیا گیا تھا جن میں اڈوانی، جوشی، بھارتی کے علاوہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری باجپئی، آرایس ایس اور وی ایچ پی کے رہنما اورنوکرشاہ شامل ہیں۔کمیشن نے کہا کہ ان لوگوں نے’’ملک کو فرقہ وارانہ غیر ہم آہنگی کے دہانے پر پہنچا دیا تھا‘‘جسٹس لبراہن نے سی بی آئی عدالت کے فیصلے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا لیکن یہ بات تسلیم کی کہ ’’اڈوانی، واجپئی سبھی میرےسامنے حاضر ہوئے۔ اومابھارتی نے صاف طور سے اس کی ذمہ داری لی۔۔۔اب اگر عدالت کہتی ہے کہ وہ اس کےلیے ذمہ دار نہیں ہے تو اس میں میں کیا کر سکتا ہوں‘‘ (انڈین ایکسپریس، یکم اکتوبر2020)۔
جس دن بابری مسجد توڑی جا رہی تھی اس دن جائے واردات پر سینئر صحافی سیما چشتی، مارک ٹَلی، پروین جین، روچرا گپتا اور سعید نقوی بھی موجود تھے۔ پچھلے سال دلی میں ایک پریس کانفرینس میں اپنی بات رکھتے ہوئے ان صحافیوں نے صاف طور پر کہا کہ مسجد گرانے کا منصوبہ پہلے ہی بن چکا تھا۔بابری مسجد انہدام کاآنکھوں دیکھا حال بیان کرتےہوئے ان صحافیوں نے کہا کہ جب وہ مسجد توڑ رہے کارسیوکوں کی تصویر لے رہے تھے تو ان پر حملے کیے گئے اور کچھ کےکیمرے بھی توڑ دیے گئے۔ ان صحافیوں نےیہ بھی کہا کہ جب انہوں نےموقع پر موجود اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی سے اس کےبارے میں شکایت کی تو انہوں نے اسےنظرانداز کر دیا۔
بی بی سی کے لیے کام کرنے والے ممتاز مارک ٹَلی نےاس سیاہ دن کو یاد کرتے ہویے کہا کہ ’’بڑی تعداد میں نام نہاد کارسیوک آ پہنچے اور صحافیوں پرحملہ کر دیا۔ ان کےکیمرے توڑ دیے گئے۔۔۔اچانک میں نے دیکھا کہ بڑی تعداد میں لوگ مسجد کی طرف بڑھنےلگے، پولیس کی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی۔۔۔ جو بات خاص طور سے ذلت آمیز تھی وہ یہ کہ اس دن انتظامیہ اور حکومت پوری طرح سے گر پڑی تھی۔ در اصل اس دن کوئی حکومت وجود میں نہیں تھی‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہاں موجود مرکزی سیکورٹی فورسیز نے بھی ہجوم کےخلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ یہی نہیں مسلمانوں کے خلاف فحش نعرے بھی لگائے گئے(دی وائر ٧ دسمبر، ٢٠٢٠)۔
٦ دسمبر کے سیاہ دن صحافی سعید نقوی بھی ایودھیا میں موجود تھے۔انہوں نے کہا کہ جائے واردات پرمسلم اور پاکستان مخالف نعرے لگائے جا رہے تھے۔’اب یہ پرچم لہرائے گا پاکستان پر‘، ’بم گرےگا پاکستان پر‘، ’ابھی ہمیں راولپنڈی جانا ہے،ابھی ہمیں لاہور جانا ہے‘۔ نقوی نے کہا کہ اس دن بھگوان رام کےبارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا۔ سب کچھ پاکستان کے بارے میں تھا۔ کارسیوک ایسا محسوس کر رہے تھے کہ انہوں نے مغلوں کو ہرا دیا ہے جیسا کہ نریندر مودی نے ہزار سال کی غلامی کی بات کہی ہے۔ اس وقت ’ورلڈ رپورٹ‘ کے لیے کام کرنے والےنقوی نے بابری مسجد انہدام کےلیے کانگریس کو بھی ذمہ دار قرار دیا ۔ایک واقعہ کا ذکر کرتےہوئے نقوی نے کہا کہ مسجد منہدم ہونے سے قبل جب وہ سابق کانگریس لیڈر اور مرکزی وزیر ارجن سنگھ سےملے تو انہوں نے کہا تھا کہ مسجد منہدم کی جاسکتی ہے۔ارجن سنگھ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ان کی پارٹی اس لیے کچھ نہیں کر پائی کیونکہ اس مسئلے پر پارٹی کے اندر زبرست اختلاف تھا۔نامورفوٹو جرنلسٹ پروین جین بابری مسجد گرائے جانے کے ایک روز پہلے وی ایچ پی کے ذریعے منعقد ’ڈریس ریہرسل‘ کو اپنے کیمرے میں قید کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ پروین جین وی ایچ پی کے ایک لیڈر کی مدد سے اندر داخل ہوئے اور وہاں جو کچھ انہوں نے دیکھا وہ ان سارے دلائل کو خارج کر دیتا ہے کہ بابری مسجد انہدام ایک غیرمنصوبہ بندعمل تھا۔ جین اس دن کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’وی ایچ پی لیڈر بی ایل شرما پریم نے مجھے ریہرسل کو دیکھنے کا موقع دیا۔ وہاں تک پہنچنے کےلیےمجھے وی ایچ پی کا شناختی کارڈ دیا گیا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ لوگوں کو مسجد گرانےکےلیے پیشہ وارانہ طریقے سے تربیت دی جا رہی تھی۔ ان کےپاس مشین اور ہتھیار بھی تھے۔ وہاں گنبد کی شکل کا ایک ڈھانچہ بھی کھڑا کیا گیا تھا اورلوگوں کو رسی کی مدد سے اور مختلف آلات تھامے ہوئےچڑھنےکی ٹریننگ بھی دی جا رہی تھی۔ بعد میں پریم نے مجھ سےکہا کہ اسی طریقے سے مسجد گرائی جائے گی۔ میڈیا میں اس وقت کسی نے بھی میری باتوں پر یقین نہیں کیا تھا۔ پروین جین نے کہا کہ اس دن ہندوتوا قوتوں نے فوٹو جرنلسٹ کو خاص کر نشانہ بنایا۔ بلڈنگ کے اوپر سے ان لوگوں نے ہمارے کیمروں کو چھین لیا۔ جب میرےاوپرحملہ کیا گیا تب میں اڈوانی کے پاس پہنچا اور ان سےمدد مانگی مگر انہوں نے مدد کرنے سےانکار کردیا۔ سارے لیڈران اس وقت منہدم کی جارہی مسجد کاتماشہ دیکھ رہےتھے۔ ان لوگوں نے ہجوم سے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کی ہدایت کااحترام کریں، مگر ان کےان الفاظ کا کوئی اثر نہیں ہوا اور لوگ ہنس پڑے‘‘(دی وائر، ٧ دسمبر،٢٠٢٠)
صحافی روچرا گپتا بھی اس وقت جائے واردات پر موجود تھیں ۔ تب ان کے اوپرجنسی حملے ہوئے۔’’اُس وقت کے سارےنعرے زہریلے، مردانہ فخر کے جذبات سےنکل رہے تھے، جو جارحیت کی علامت تھے۔ سادھوی رتھمبرا اور اوما بھارتی مختلف اوقات میں مردوں سے یہ پوچھ رہی تھیں کہ کیا انہوں نے چوڑیاں پہن رکھی ہیں۔ میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں مسجد کے اندر جاؤں گی۔ مسجد کے اندر ہندتواکے کارکنان بھرے پڑے تھے۔ میں نے بڑی مشکل سے ان کے درمیان سے نکلنے کی کوشش کی، تبھی کسی نے میری طرف دیکھتے ہوئے ’مسلمان‘ کہہ کر چلایا۔ موت سے میں بالکل کچھ ہی پل دور تھی۔ اسی دوران کچھ لوگ زبردستی میرےبدن کو چھونےلگے۔انہوں نے میری چھاتی اور کمرمیں انگلی گھسائی۔ وہ سب کچھ بہت ڈراؤنا تھا۔اس دوران میں زور زور سے چیختی رہی کہ میں ہندوں ہوں‘‘۔ روچرا گپتا نےکہا کہ جس شخص کا انہوں نے ایک روز قبل انٹرویو لیا تھا اس نے ان کو بچایا اور اڈوانی تک پہنچانے میں مدد کی‘‘ جب اس پریشان حالت میں میں نے اڈوانی سےکہا کہ وہ لوگوں کو منع کریں کہ وہ صحافیوں پر حملہ نہ کریں تو اڈوانی نے کہا ’آپ کے ساتھ جو ہوا اسے بھول جاؤ دیکھو کہ کتنا تاریخی دن ہے۔۔۔ آپ کچھ میٹھا کھاؤ‘۔ پھر ان کے ایک سکیوریٹی گارڈ نے میری طرف چینی بڑھائی اور اڈوانی نے اپنا دوربین مجھے تھما دیا۔ جب میں نےکہا کہ میں ابھی کچھ نہیں دیکھنا چاہتی تب انہوں نےکہا ’’دیکھو! مسلمان خود اپنے گھروں کو معاوضہ پانےکےلیے جلا رہےہیں‘‘(دی وائر، 7 دسمبر، 2020)۔
بابری مسجد انہدام کےاگلے روز اخباروں نے بھی انہدام کی زبردست تنقید کی اور شک کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔ مثال کےطور پر ٧ دسمبر، ١٩٩٢ کے روز ’نا قابل معافی‘ کے عنوان سے’دی ہندو‘نے ایک اداریہ لکھا اور کہا کہ ’’اتر پردیش کی بی جے پی حکومت کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اقتدار میں رہے کیونکہ اس نے بڑی بے شرمی سےاپنی آئینی ذمہ داری کو نبھانے سے کوتاہی برتی‘‘۔
اگرہم سیاست اور صحافت سے دور ہٹ کر بھی اس پورے معاملہ کو دیکھیں تب بھی یہ بات صاف ہو جاتی ہےکہ بابری مسجد انہدام اوراسی مقام پر رام مندر کی تعمیرکا ایجنڈا ایک سیاسی عمل تھا۔ بغیر منصوبہ بندی اور سازش کےاتنی بڑی عمارت نہیں گرائی جاسکتی تھی۔ بغیرحکومت اور انتظامیہ اور پولیس کی مدد سے لاکھوں لوگوں کو وہاں جمع نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس بات کی طرف کوئی اور نہیں بلکہ ایودھیا کا ایک ہندو پجاری لال داس اشارہ کرتا ہے۔ ”آج تک جو پورےہندوستان کےاندر فرقہ وارانہ دنگے پھیلائے گئے، وہ پیسے اور کرسی کےلیے پھیلائےگئے۔ میں تو رام کا پجاری ہوں،میں بالکل حقیقت بیان کر رہا ہوں کہ آج تک وشو ہندو پریشد کے لوگوں نے وہاں گل پوشی بھی نہیں کی ہے۔ بھگوان کی پوجا تک نہیں کروائی۔۔اس دوران کچھ کرایہ کےسادھو خریدے گئے اور رام مندر کی اینٹیں گھمائی گئیں اور ان اینٹوں سے انہوں نے اپنا کمرہ اور مکان بنانا شروع کیا۔ انہوں نےعوام کے جذبات کا استحصال کر کے بڑی بڑی عمارتیں بنا لیں۔ انہوں نےکروڑوں روپیےاکھٹا کیے اور مختلف بینکوں میں جمع کروایا اور لاکھوں روپیے انہوں نے اپنےنجی اکاونٹ میں ڈالے۔لوگوں کا قتل ہو جائے اس سے ان کو کوئی مطلب نہیں۔ انہیں فقط پیسہ اور کرسی چاہیے۔ یہاں جو لوگ ہندو راشٹر کی بات کرتے ہیں، رام کےنام پرکشیدگی پھیلاتےہیں،تشدد کرتے ہیں، یہ سبھی اعلیٰ ذات کےلوگ ہیں اور سب کے سب آرام پسند ہیں، ان میں تیاگ اور عوام کی بھلائی کا جذبہ نہیں ہے۔ یہ صرف مذہبی جذبات کو ابھار کرخود کےلیے سُکھ اور سہولتیں پانا چاہتے ہیں۔ یہ عوام کی فلاح کی بات کر ہی نہیں سکتے‘‘(حوالہ: آنند پٹوردھن کی ڈاکومنٹری ’رام کی نام سے‘) ۔ ایک سال بعد پجاری لال داس کا قتل ہوجاتا ہے اور وی ایچ پی کے ایک بڑے ناقد کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا جاتا ہے۔ مگر جو بات پجاری لال داس نے سالوں پہلے کہی تھی وہ سو فی صد آج بھی صحیح ثابت ہوئی ہے۔اگر مندر تحریک کی مدد سے ہندتوا طاقتوں نےلوگوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم نہیں کیا ہوتا تو بھگوا سیاسی جماعت شاید دلی کےاقتدارتک نہیں پہنچ پاتی۔ یہی وجہ ہے کہ بھگوا طاقتیں مندر مسجد کے مسئلےکو حل کرنے سےزیادہ سیاست کرنا چاہتی تھیں۔ ان کا بابری مسجد کا تجربہ اب بنارس اور متھرا میں دہرایا جا سکتا ہے۔ بھگوا طاقتوں کو یہ سب کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کیوں کہ حکومت کے پاس گرتی معیشت اور بے روزگاری کا کوئی حل نہیں ہے۔ کاشی اور متھرا میں مندر مسجد کا نیا جھگڑا پیدا کر کے ہندوتوا طاقتیں نہ صرف روزی روٹی کے سوالات سے عوام کا دھیان ہٹانا چاہتی ہیں، بلکہ اپنی سیاسی زمین بھی بڑھانا چاہتی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ سیکولر طاقتیں اس کا مقابلہ کیسے کرتی ہیں؟
(ابھے کمارجے این یو سے پی ایچ ڈی ہیں۔ وہ اقلیتی حقوق اور سماجی انصاف سے متعلق مسائل میں دلچسپی رکھتے ہیں۔)
[email protected]
***
اگر مندر تحریک کی مدد سے ہندتوا طاقتوں نےلوگوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم نہیں کیا ہوتا تو بھگوا سیاسی جماعت شاید دلی کےاقتدارتک نہیں پہنچ پاتی۔ یہی وجہ ہے کہ بھگوا طاقتیں مندر مسجد کے مسئلےکو حل کرنے سےزیادہ سیاست کرنا چاہتی تھیں۔
ان کا بابری مسجد کا تجربہ اب بنارس اور متھرا میں دہرایا جا سکتا ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11-17 اکتوبر، 2020