بی جے پی کی خطرناک حکمت عملی
عبدالباری مؤمن، بھیونڈی
بھارت میں یہ بات عام طور پر دیکھی گئی ہے کہ انتخابات کے موسم میں کسی نہ کسی طرح تشدد اور فرقہ واریت کی فضا پیدا کرکے اس سے انتخابی فائدے اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسی فضا پیدا کرکے ووٹوں کو تقسیم کرنے، حامی ووٹوں کو متحد کرنے اور مخالف پارٹی کے ووٹوں کو بکھیرنے کی بھر پور کوششیں کی جاتی ہیں۔ یقیناً یہ چیز بھارت کے جمہوری نظام پر ایک بدنما داغ ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ عمل مسلسل جاری ہے۔ اصل دھارے کی سیاسی پارٹیاں اب اس کو ٖضروری بھی سمجھنے لگی ہیں۔ بی جے پی کے اقتدار میں آجانے سے تو اس میں دن دونی رات چوگنی ترقی ہونے لگی ہے۔ اکیسویں صدی کے آغاز پر شاید عوام کو یہ سمجھ میں آنے لگا تھا کہ اس اشتعال انگیزی کی بھی ایک حد ہونی چاہیے۔ مقامی سطح کے انتخابات میں اس کی افادیت ہو تو ہو لیکن قومی سطح پر اب اس کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے۔ حقیقت کیا ہے یہ تو کچھ عرصہ بعد ہی سمجھ میں آئے گا لیکن ۲۰۰۲ء کے بعد کم و بیش دس سالوں تک تو اس طرح کے تشدد میں کمی دیکھی گئی تھی۔ لوگ شاید مطمئن ہو چکے تھے کہ یہ دوبارہ نہیں ابھریں گے اور فاشزم اپنی موت آپ مرجائے گا۔ لیکن ۲۰۲۰ء کے دہلی اسمبلی کے انتخابات نے ثابت کر دیا کہ یہ اطمینان وقتی تھا۔ تشدد اور فرقہ واریت کی فضا پھر سے پیدا ہونے لگی ہے سیاسی ہوا کا رُخ بدلنے لگا ہے۔ خاص طور پر اس وقت سے جب سے بی جے پی مرکزی اقتدار کی مسند پر بیٹھی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ بی جے پی کے دوسرے دور کے بعد انتخابات اور تشدد کے درمیان کی کیمسٹری میں بھی زبردست بدلاؤ آگیا ہے۔ اب وہ روایاتی منطق کہیں نظر نہیں آتی کہ صرف ووٹ بٹورنے کے لیے ہی تشدد اور فرقہ پرستی کا سہارا لیا جارہا ہو۔ اب تو بی جے پی نے تشدد کو اپنی آئیڈیالوجی اور پارٹی کی ساخت کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ بی جے پی انتخابات میں کامیاب نہیں ہونا چاہتی لیکن وہ دیکھ رہی کہ ہر انتخاب میں اس کی یہ حکمت عملی کامیاب ثابت نہیں ہو رہی ہے، دوسری طرف اسے اپنے کارکنوں کو پارٹی سے مستقل جوڑے رکھنے کا ایک ذریعہ بھی چاہیے۔ چنانچہ وہ اُن کو یہ سبق پڑھا رہی ہے کہ دیگر پارٹیاں تو اپنے مفادات کی خاطر انتخابات لڑنا اور کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہیں جبکہ صرف بی جے پی ہی ایک محب وطن پارٹی ہے جس نے دیش کی حفاظت اور دفاع کی ذمہ داری اپنے سر لی ہے۔ دوسری تمام پارٹیاں دیش کی غدار ہیں۔ اور بی جے پی ان غداروں سے دیش کو بچانے کے لیے عام طریقوں سے ہٹ کر کوئی بھی قدم اٹھانے کے لیے تیار ہے، یہاں تک کہ تشدد کرنے کے لیے بھی۔ وہ اپنے کارکنوں کو یہ سکھاتی ہے کہ ہمیشہ رعب اور دبدبہ کی زبان میں بات کریں۔ چنانچہ ہم اس کے مظاہرے آئے دن دیکھتے رہتے ہیں۔ دہلی کے حالیہ انتخابات میں امیت شاہ، یوگی، انوراگ ٹھاکر وغیرہ نے جس لہجے میں بات کی ہے، کیا وہ اسمبلی انتخابات میں کرنے کی باتیں تھیں؟ اور کیا اِن باتوں سے بی جے پی کو کوئی انتخابی جیت حاصل ہونے والی تھی؟ انہوں نے یہ سب باتیں اس لیے کیں تاکہ کارکنوں کا حوصلہ بلند رہے۔ وہ بالواسطہ طور سے ان کو جارحانہ مردانگی کا اظہار کرنا سکھا رہی ہے۔پارٹی ان کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ انتخابات کی ہار اور جیت اتنی اہم نہیں ہے جتنا اپنا دبدبہ قائم رکھنا اور اسی زبان میں ہمیشہ باتیں کرتے رہنا اہم ہے۔ ایسے ہزاروں نوجوان ہیں جو بی جے پی کی ان باتوں میں اپنے لیے کشش محسوس کرتے ہیں کیوں کہ انہیں اپنا کوئی مستقبل سامنے نظر نہیں آتا ہے۔ نہ ان کی اپنی کوئی عزت نفس باقی رہ گئی ہے۔ تقریروں اور گفتگوؤں میں تمام اخلاقی حدود کو پھلانگنا پارٹی سے وفاداری کا پیمانہ بن گیا ہے۔ آج یہی بی جے پی کے سچے ورکر کی پہچان بن گئی ہے۔ ایسے ہی لوگوں کو انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ پارٹی کا کوئی بھی لیڈر چاہے وہ کسی بھی پوزیشن پر کیوں نہ ہو تشدد کی زبان میں ہی بات کرتا ہے۔ ہمیشہ نہیں تو کسی نہ کسی وقت۔
بی جے پی اپنے اقتدار کے زعم میں اب ہر اس شخص کے خلاف براہ راست یا بالواسطہ تشدد پر اتر آتی ہے جو اس کی ذرا سی بھی مخالفت کرتا ہے۔ تشدد کے ساتھ دھمکی بھی ہوتی ہے۔ اگر اس سے کام نہیں چلتا تو کارکنوں سے کہا جاتا ہے کہ مخالف آواز اٹھانے والوں کو نظریاتی تشدد کا نشانہ بناؤ۔ خاص طور سے لیفٹ اور لِبرل نظریات رکھنے والوں کو نظریاتی تشدد کا شکار بنایا جاتا ہے۔ ان کو جُنونی قرار دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ وہ بی جے پی کی حکومت کو بدنام کرنے کے لیے خود اپنا سر تک پھوڑ سکتے ہیں۔ ایک مرتبہ کے تشدد سے اگر کوئی باز نہیں آتا تو کارکنوں سے کہا جاتا ہے کہ دیکھو یہ دیش دروہی خاموش ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں اس لیے ان کو اور مارو۔ کشمیر میں، یو پی میں اور دہلی میں بھی یہ طریقہ اپنایا گیا ہے۔
بی جے پی کی اپنے کارکنان کو سمجھانے کی منطق بالواسطہ ہوسکتی ہے، لیکن اس کی تربیت کے اثرات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ کبھی تشدد اور فرقہ واریت کے دائرے سے قدم باہر نکالنے کی بات سوچ بھی نہیں سکتے۔ کیا بی جے پی کے کسی عام کارکن میں یہ کہنے کی ہمت ہے کہ احتجاجیوں سے بات کرنی چاہیے۔ اگر بالفرض محال اس نے ایسا کہہ بھی دیا تو کیا اس کے بعد وہ بی جے پی کا ورکر رہ پائے گا۔ اگرچہ حال ہی میں بی جے پی کے ایک مرکزی وزیر نے یہ بات کہی ہے لیکن اس کے ساتھ اتنی شرطیں لگائی ہیں کہ کسی معقول اور سمجھدار انسان خصوصاً ان لوگوں کا ان شرائط سے اتفاق کرنا قریب قریب ناممکن ہے جو اس تحریک کو عوام میں لے کر چل رہے ہیں۔ کیا بی جے پی میں کوئی کارکن ایسا بھی ہے جس نے کبھی نہ کبھی اس بات کی حمایت نہ کی ہو کہ پارٹی کے ذمہ داروں سے اختلاف کرنے کا مطلب دراصل پارٹی سے بغاوت کرنا سمجھا جاتا ہے۔ پارٹی نے لِبرَل، اقلیتوں اور لیفٹ کے تعلق سے ایک مخصوص قسم کا فریم ورک بنا رکھا ہے۔ کیا پارٹی میں کوئی شخص ایسا ہے جو اس فریم ورک کی حدود سے باہر جا کر بھی سوچ سکتا ہو۔
بی جے پی انتخابات لڑتی ہے اور جیتنا بھی چاہتی ہے۔ لیکن اس کا ایجنڈا صرف انتخابات اور معمول کی سیاسی سرگرمیوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ اس سے پَرے بھی اس کا ایک ایجنڈا ہے۔ اور وہ ایجنڈا ہے ہندوستان کا ’’کلچرل ٹرانسفارمیشن‘‘ یعنی تہذیبی قلبی ماہیت، سنسکرتی کے ڈھانچے کی مکمل تبدیلی۔ انتخابات تو آتے جاتے رہیں گے لیکن بی جے پی کی کامیابی کا پیمانہ طویل مدت تک باقی رہنے والا تہذیبی انقلاب ہے۔ تہذیبی قلبی ماہیت کا مطلب اس کے نزدیک یہ ہے کہ وہ ہندو اکثریت کا مکمل غلبہ چاہتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ وہ ہندوازم کے اس عام تصور کو بھی بدلنا چاہتی ہے جس میں روَاداری اور گوناگونی پائی جاتی ہے۔ وہ اس کو ایک نسلی شناخت دینا چاہتی ہے۔ کچھ لوگ ایسا سمجھ رہے ہیں کہ اگر ہم عوام کو صحیح ہندوازم سے واقف کراسکیں تو سیکولر سوچ کے ذریعہ پیدا کیا گیا مذہبی خلاء پُر ہوجائے گا لیکن یہ صرف ایک بھرم ہے اور کچھ نہیں۔ بی جے پی کسی گوشے میں بیٹھ کر اپنا کھیل نہیں کھیل رہی ہے۔ وہ اقدار، معیارات یا عمومی تہذیبی شناخت کی بات بھی نہیں کر رہی ہے۔ اس کا صرف ایک ہی نشانہ ہے (جو اس کا سببِ وجود بھی ہے) اور وہ ہے تمام ہندو آبادی کا ایک نسلی اور تہذیبی تشخص میں اِدغام۔ اس نشانے تک پہنچنے کے لیے اس کو ایک مستقل دشمن کی ضرورت ہے۔ دشمن کے بغیر وہ اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتی۔ عوام میں وہ ایک خطرے کے احساس کو مسلسل باقی رکھنا چاہتی ہے۔ اس کے پاس دیش کے لیے کوئی مثبت ایجنڈا نہیں ہے، اسی لیے وہ سیاسی داؤ پیچ اور فلسفیانہ نکات کے درمیان پنڈولم کی طرح ادھر سے اُدھر ڈولتی نہیں ہے۔ اسے ایک ایسا دشمن درکار ہے جس پر وہ تشدد کے عمل کو آزما سکے۔ اس دشمن کے وجود اور اس پر تشدد سے اس کی نفسیات کو تسکین ملتی ہے۔ اسی مقصد کے لیے آج وہ سی اے اے کے خلاف ہونے والے احتجاج کی مخالفت میں تشدد کے پینترے کو استعمال کر رہی ہے۔ تشدد کی حمایت کر رہی ہے۔ اپنے کیڈر کو تشدد پر اکسا رہی ہے۔ اس طرح وہ ان کی تربیت بھی کر رہی ہے اور اقلیتوں میں دوبارہ وہ خوف پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو شاید اقلیتوں کے دلوں سے زائل ہوچکا ہے۔ سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کی کھلے عام مخالفت اسی نڈر پن کی علامت ہے۔ اس سے قبل وہ انتخابات کے لیے اپنی مخصوص شناخت کو استعمال کرتی رہی ہے لیکن آج وہ دہلی اسمبلی کے اس انتخاب کو اپنی شناخت بنائے رکھنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ اسے اس بات کی فکر نہیں ہے کہ وہ الیکشن جیتتی ہے یا ہارجاتی ہے۔
ہمیشہ سے یہ سمجھا جا رہا ہے کہ بھارت کی سیاست میں قومی ایجنڈے پر ذات پات، برادری واد، زبان، علاقائیت حاوی رہے ہیں۔ یعنی سیاست کسی ایک نقطہ پر مرکوز نہیں رہی ہے بلکہ ہمیشہ غیر مرکوز رہی ہے۔ لیکن اب یہ سب آہستہ آہستہ بدل رہا ہے۔ غیر مرکوزیت، بی جے پی کے ایجنڈے کے خلاف کوئی حفاظتی دیوار ثابت نہیں ہو رہی ہے۔اس کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ چنانچہ اب تشدد کی منطق چلائی جا رہی ہے۔ پرانے فریم ورک کے مطابق ہم سوچ سکتے تھے کہ کیا دہلی کے الیکشن میں تشدد اور اشتعال انگیزی سے سیاسی فائدہ حاصل ہوگا؟ کیا تشدد کے ذریعے ووٹ حاصل کرنا ایک بہتر حکمت عملی ثابت ہو سکتی ہے؟ شاید نہیں۔ لیکن آج کی صورت حال میں خصوصاً بی جے پی کے لیے ان سوالوں کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کے نزدیک صرف سیاسی فائدہ یعنی ووٹ بٹور کر اقتدار حاصل کرنا آخری مقصد نہیں ہے۔ وہ اگر الیکشن ہار بھی جاتی ہے (جیسا کہ دہلی الیکشن میں ہوا) تب بھی اسے اس کا احساس ہے کہ اس حکمت عملی کا فائدہ اسے مستقبل میں کبھی نہ کبھی ضرور حاصل ہوگا۔ وہ خیال کرتی ہے کہ ہندتوا کے مرکزی ایجنڈے پر پوری ہندو نسل ضرور اکٹھا ہوگی، چاہے کسی اور مقام پر ہو یا پورے ملک کی سطح پر ہو۔ دہلی اسمبلی کے اس انتخاب میں وہ جتنی شدت سے اپنے ایجنڈے کا اظہار کر رہی ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ وہ کسی اور مقام پر اپنے ایجنڈے کو نافذ کرنے اور اس کے ذریعے عوام کو قریب لانے کی تیاری کر رہی ہے۔ آج عوام سی اے اے کی مخالفت میں اپنا احتجاج درج کرانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ اسی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ صرف بھارت ہی نہیں دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اس کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ پڑھا لکھا طبقہ اور دانش مند افراد ہی نہیں بلکہ ایک عام سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی آسانی کے ساتھ اس قانون کے دستور مخالف ہونے کو محسوس کر رہا ہے۔ لیکن بی جے پی ٹس سے مَس نہیں ہو رہی ہے۔ اسے بظاہر تو کوئی انتخابی فائدہ بھی حاصل نہیں ہو رہا ہے لیکن اسے یقین ہے کہ دہلی میں نہ سہی کسی اور ریاست مثلاً راجستھان میں یا پھر اتر پردیش میں اس کے حق میں اور احتجاج کے خلاف ہندتوا کی قوتیں مرتکز ہوں گی اور جب ہندوستان میں اس کی مطلوبہ تبدیلی کا احساس ہوگا تو یہ چیز نمایاں ہوکر سب کے سامنے آجائے گی۔ ہندوستان ایک ایسا ملک بن جائے گا جہاں تشدد کے سیاسی استعمال کو جواز مل جائے گا جو عارضی نہیں بلکہ مستقل ہوگا۔ وہ تشدد کے ذریعے عوام کو مسلسل خوف کی حالت میں رکھ کر ان پر حکومت کرنا چاہتی ہے۔ دہلی الیکشن مہم کے دوران رو بہ عمل لائی گئی یہ حکمت عملی طویل مدت کے بعد اپنے ثمرات ظاہر کرے گی۔ بی جے پی کے لیے آج کا ایک چھوٹا خسارہ (دہلی میں ناکامی) کل ایک بڑے فائدے (تشدد اور نفرت کے ماحول کی آبیاری) کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔٭٭٭