ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی
کرکٹ ایک زمانے تک روزی کمانے کی طرح ایک بہت سیدھا سادہ کھیل ہوا کرتا تھا۔ لوگ محنت مشقت کرکے جائز ذرائع سے اپنا پیٹ بھرتے تھے ۔ سفید پوش کھلاڑی پانچ دنوں تک صبرو ضبط کے ساتھ میچ کھیلتے تھے۔ اس پر بھی کبھی کبھار بغیر کسی نتیجے کے کھیل برابری پر چھوٹ جاتا تھا ۔ نہ کسی کی ہار ہوتی اور نہ کوئی کامیاب ہوتا تھا یعنی تجارت میں نہ کوئی فائدہ اور نہ نقصان ، حساب برابر ۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ کھیل کے دوران ہر ٹیم کو ایک بار غلطی کرنے کے بعد دوبارہ اسے سدھارنے کا موقع ملتا تھا۔ اس طرح اکثر ہارنے والی ٹیم اپنے آپ کو بچانے میں کامیاب ہوجاتی تھی۔ آگے چل کراس کھیل میں ڈرامہ بازی اور جلد بازی داخل ہوگئی۔ کھلاڑی رنگ برنگے لباس زیب تن کرنے لگے اور شائقین ایک دن کے اندر نتیجہ چاہنے لگے اور ایک دن کا معاملہ آدھے دن میں سمٹ گیا 100کے بجائے چالیس اوورس کی دھما چوکڑی میں کھیل ختم پیسہ ہضم ہونے لگا۔معیشت کی دنیا میں بھی اسی طرح کی تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔ انسان کے اندر خوشحال ہونے کے خواہش ہمیشہ سے تھی لیکن وہ اس کے لیے صبرو ضبط کے ساتھ محنت و مشقت کرنے کا قائل تھا ۔ وہ صحیح یا غلط کا فرق بہت حد تک سمجھتا اور اس کا پاس و لحاظ بھی کرتا تھا۔ امیر کبیر بن جانے کی ایسی جلدی شاید بنی نوع انسان کو پہلے کبھی نہیں تھی ۔اس جلد بازی نے عصرِ حاضر کے انسان کو تمام اخلاقی اقدار سے بے نیاز کردیا ہے۔حریص و خدا بیزار سرمایہ دار ایک وحشی درندہ بن گیا ہے۔ عوام کے استحصال کو ایک قابلِ تحسین فن قرار دے کر اس کی پذیرائی کی جارہی ہے ۔کرکٹ کی مذکورہ تبدیلیوں کے اثرات بلے بازوں پر یہ ہوئے کہ وہ آو دیکھا نہ تاو میدان میں آتے ہی بلّا گھمانے اور گیند اچھالنے لگے اور ان کی خوب تعریف و توصیف ہونے لگی ۔ رن بن رہے ہوں تو اس کے لیے باونڈری سے باہر جانے والے ہر شاٹ پر تالیاں بجنے لگیں ۔ پہلے زمانے میں فاسٹ بولر تیزی کے ساتھ گیند پھینکتے تھے اور اسپنرس دھیمی گیند کو ادھر اُدھر گھما دیا کرتے تھے ۔ اس کے بعد فاسٹ بولرس نے اپنی گیند میں تھوڑا سا اسپن شامل کیا تو اسے سوینگ کا نام دیا گیا اور پھر اس میں مزید تنوع پیدا کرکے ریورس سوینگ کو ایجاد کیا گیا۔ راتوں رات امیر بننے کے چکر میں پہلے تو لوگ ٹیکس چراتے تھے ۔ اس کے بعد وہ غبن کرنے لگے۔ انا ہزارے نے بدعنوانی کے خلاف تحریک چلائی ۔ مودی جی نے اس کی تائید میں ’نہ کھاوں گا اور نہ کھانے دوں گا ‘ کا فلک شگاف نعرہ لگایا اور وزیر اعظم بن گئے ۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ گھپلے باز سرمایہ دار بنکوں سے لوٹ مار کر کے مال سمیت ملک سے نکل کر بھاگنے لگے ۔ اس کی ابتداء بی جے پی کی مدد سے ایوان بالا کے رکن بننے والے وجئے مالیہ نے کی اور پھر تو نیرو مودی اور میہول چوکسی جیسے وزیر اعظم کے ہمنوا بھی بدعنوانی کرکے بھاگ کھڑے ہوئے ۔ مودی جی ان کا بال بیکا نہیں کرسکے۔وزیر اعظم مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد اپریل 2018 تک ایسے 31 سرمایہ دار 40 ہزار کروڑ روپے بنکوں سے ادھار لے کر فرار ہوچکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ دسمبر 2018 میں ان مفرور سرمایہ داروں کے جائیداد کی قرقی کا قانون بنانا پڑا۔ اس آئینی ترمیم سے قبل ایوان زیریں میں ریاستی وزیر برائے امور خارجہ (سبکدوش جنرل) وی کے سنگھ نے مفرور بدعنوانوں کی ایک فہرست پیش کی ۔ اس کے مطابق سی بی آئی کو 29 اور انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کو 42 بھگوڑوں کی تلاش تھی حالانکہ ان کی جانب سے توجہ ہٹانے کے لیے زر خرید ذرائع ابلاغ صرف داؤد ابراہیم اور ڈاکٹر ذاکر نائک کا نام اچھال رہا تھا۔ ڈی آر آئی کو بھی اس وقت 5 لوگ مطلوب تھے ۔ اس کھیل میں سوئنگ کے بعد ریورس سوئنگ کا یہ اضافہ ہوا کہ امارات سے ڈاکٹر بی آرشیٹی نامی بھگوڑا غبن کرکے مودی جی کے شرن میں ہندوستان آدھمکا ۔باہر لوٹ مار کر کے گھر واپسی ۲۰۱۹ کے بعد والے نئے ہندوستان کا عظیم کارنامہ ہے۔
متحدہ عرب امارات (یعنی دبئی، ابوظبی اور شارجہ وغیرہ) میں رہنے والا شاید ہی کوئی ہندوستانی ایسا ہوگا کہ جس نے این ایم سی اسپتال کا نام نہ سنا ہو اور یو اے ای ایکسچینج سے اپنے گھر یا دوست و احباب کو پیسے نہ بھیجے ہوں ۔ ابوظبی کورنیش پر واقع انڈین کلچرل سینٹر کی شاندار عمارت بھی اس کے صدر ڈاکٹر بی آر شیٹی کے مرہونِ منت ہے۔ دنیا کی بلند ترین عمارت برج خلیفہ میں ۱۰۱ نمبر مکان کا مالک یہی ڈاکٹر شیٹی ہے۔ ووڈ لینڈ ہوٹل میں کھانا اور نیو فارما نامی کمپنی کی دوائی ہر کسی نے جانے انجانے میں استعمال کی ہے ۔ کئی سال قبل اسلامک کلچرل سینٹر کی ایک عام سی افطار پارٹی میں ڈاکتر شیٹی نے یہ کہہ کر اس میں شریک روزے داروں کا من موہ لیا تھا کہ وہ ہر سال پورے مہینے روزے رکھتے ہیں ۔ایسا کرنا انہیں بہت اچھا لگتا ہے۔ لیکن یہ رمضان اپنی آمد سے قبل یہ چونکانے والی خبر لے کر آیا کہ موصوف امارات سے فرار ہو کر ہندوستان آ چکے ہیں۔
42 سال قبل 33 سال کی عمرمیں بی آر شیٹی ایک میڈیکل ریپریزنٹیٹیو کے طور پر امارات پہنچے ۔ 1973 میں وہ ابوظبی کے پہلے ایم آر تھے۔ اس وقت کون سوچ سکتا تھا کہ یہ شخص ایک دن یو اے ای کی سب سے بڑی دوائی بنانے والی کمپنی کا مالک ہوگا؟ دو سال بعد اس نے سستا علاج مہیا کرنے کی خاطر نیو میڈیکل سنٹر نامی مطب کی داغ بیل ڈالی جس میں برسوں تک صرف ان کی اہلیہ ڈاکٹر چندرا کماری شیٹی مریضوں کا علاج کیا کرتی تھی۔ آج اس دواخانے کی 8 ممالک کے 12 شہروں میں 45 شاخیں ہیں۔ ان ممالک کی فہرست میں مشرق وسطیٰ کے علاوہ اسپین، اٹلی ، ڈنمارک، کولمبیا اور برازیل بھی شامل ہیں۔ ان اسپتالوں میں سالانہ 40 لاکھ مریضوں کا علاج کرنے کے لیے 19 ممالک کے 2000 ڈاکٹرس اور 20,000 کی تعداد میں طبی عملہ تعینات ہے۔ جی سی سی سے تعلق رکھنے والی یہ پہلی صحت عامہ کی کمپنی ہے جس کو لندن کے اسٹاک ایکسچینج میں درج ہونے کا شرف حاصل ہوا۔طبی دنیا سے آگے بڑھ کر بی آر شیٹی نے 1980 میں تارکین وطن کی اولین ضرورت اپنے گھر والوں کو روپیہ پہنچانے کی سہولت فراہم کرنے کے لیے یو اے ای ایکسچینج نامی کمپنی قائم کی ۔ 40 سالوں کے اندر اس کے 31 ممالک میں 800 دفاتر قائم ہوگئے اور 2014 میں اس نے 5 ہزار کروڑ ڈالر کی ترسیل کی۔ اسی سال شیٹی نے ٹراویلیکس نامی کمپنی کو خریدا جس کے 27 ممالک میں 1500 مراکز اور 1300 اے ٹی ایم موجود ہیں ۔ 2003 میں شیٹی نے اپنی ادویات بنانے والی کمپنی کا افتتاح کرنے کی خاطر صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام کو دعوت دی۔ آج یہ کمپنی مرک، فائزر، اسٹرا اور بوٹس جیسی عالمی کمپنیوں کی دوائی بناتی ہے۔ اس عروج پر پہنچنے کے بعد جب یہ خبر ملتی ہے کہ ڈاکٹر شیٹی کو امسال فروری میں این ایم سی کی چیرمین شپ سے ہٹا دیا گیا ہے، امارات کے سب سے بڑے اسپتال کو برطانیہ کی عدالت کے زیر نگرانی کر دیا گیا ہے اور کورٹ ان دواخانوں کو چلانے کے لیے انتظامیہ کا تقرر کرنے جا رہا ہے، لندن کے اسٹاک ایکسچینج نے این ایم سی کو اپنی فہرست سے خارج کر دیا ہے تو تعجب ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کے بغیر ہی یہ سب ہو گیا۔ اس ناقابلِ یقین سانحہ کی سُن گنُ گزشتہ سال ایک امریکی ادارہ مڈی واٹرس نے دی ۔ اس نے این ایم سی پر یہ الزامات لگائے کہ وہ اپنی نقدی کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔ اس نے اپنی جائیداد پر زیادہ لاگت دکھائی ہے اور اپنے اوپر قرضہ جات کو کم کرکے دکھایا ہے ۔ کسی بھی گھپلے کی تیاری میں کام آنے وا لے یہ بہترین اجزائے ترکیبی ہیں ۔ اس سے پتہ چل جاتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ اس کے بعد ابوظبی کمرشیل بنک نے برطانوی عدالت سے رجوع کر کے درخواست کی کہ اسپتال پر ۶۶۰۰ کروڑ ڈالر کا قرض ہے جس کی ادائیگی ناممکن نظر آتی ہے اس لیے اسے کورٹ کے اشتراک میں انتظامات چلانے کی اجازت دی جائے۔ اس رقم کو اگر ہندوستانی روپیہ میں تبدیل کردیا جائے تو ہندوستان سے بھاگے ہوئے سارے بدعنوان سرمایہ داروں سے کہیں زیادہ رقم بنتی ہے ۔ یعنی وجئے ملیا سے لے کر نیرو مودی تک جتنے بھی ہندوستانی بنکوں کو لوٹ کر بیرون ملک فرار ہوئے اس سے زیادہ یہ ایک جیالا باہر کے بنکوں پر ڈاکہ ڈال کر ہندوستان لے آیا۔ اتنے بڑے پیمانے پر غبن چونکہ مودی یگ میں ہوا ہے اس لیے وہ بجا طور پر فخر کرسکتےہیں۔ مڈی واٹرس کے اندیشوں کو تو گدلے پانی کی مانند نظر انداز کردیا گیا لیکن فروری کے اندر این ایم سی اپنے بنک اے ڈی سی بی کو گزشتہ 400 کروڑ ڈالر کے قرضہ جات سے مطلع کیا جسے صیغۂ راز میں رکھا گیا تھا ۔ اے ڈی سی بی نے جب تفتیش شروع کی تو یہ 80 علاقائی و بین الاقوامی اداروں سے حاصل کردہ قرض کی رقم تھی جن میں ایچ ایس بی سی اومان، دبئی اسلامی بنک اور ابوظبی اسلامی بنک شامل ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے بڑے سرمایہ دار کو آخر کس چیز نے اتنا بڑا غبن کرکے اپنے دیش میں واپس آنے کی ترغیب دی۔ اس بابت عربین بزنس نامی جریدے میں ڈاکٹر شیٹی اپنے عزائم بیان کر چکے ہیں ۔ اگست 2019 میں آئین کی دفع 370 کو ختم کردیے جانے کے بعد ستمبر میں انہوں نے بتایا تھا کہ وہ وادی کشمیر میں 3000 ایکڑ زمین پر فلم سٹی بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس خوبصورت مقام پر وہ فلم سٹی بنانا چاہتے ہیں تاکہ لوگ وہاں شوٹنگ اور سیر وسیاحت کی غرض سے آئیں۔ انہیں جموں وکشمیر اور لداخ میں اس زمین کی پیشکش مل چکی ہے ۔ فلموں سے ڈاکٹر شیٹی کی دلچسپی نئی نہیں ہے 2017 میں انہوں نے 1000 کروڑ کی لاگت سے مہا بھارت بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن 2019 میں اسے بند کردیا گیا۔ کشمیر کے مظلومین پر رال ٹپکانے والے ڈاکتر شیٹی کا عبرتناک انجام دنیا بسرو چشم دیکھ رہی ہے۔ لوگ کہتے ہیں اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے لیکن یہاں تو دیر بھی نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر شیٹی نے وزیر اعظم نریندر مودی سے اگست 2019 کے اندر ہندوستان آکر اپنے ملک میں صحت، سیاحت اور فلم سٹی میں 500 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا تھا ۔ کاش کہ وہ انہیں یہ بھی بتاتے کہ یہ رقم مختلف بنکوں سے چرا کر فراہم کی جائے گی۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ آخر اپنی زندگی کے 45 قیمتی سال عرب امارات میں گزارنے کے بعد اچانک ڈاکٹر شیٹی کو گھر واپسی کا خیال کیوں آیا؟ عرب امارات جانے سے قبل انہوں نے جن سنگھ کے ٹکٹ پر اوڑوپی میونسپل کاونسل کا انتخاب لڑا تھا اور وائس چیرمین کے عہدے پر فائز بھی ہوئے تھے لیکن صحرا نوردی میں یہ سیاسی جرثومہ قرنطینہ کے اندر چلا گیا اور 45 سال کے بعد پھر سے دیش بھکتی نے کورونا کی طرح سر ابھارا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ تو ہر ہندوستانی سرمایہ دار فخریہ تصویر کھنچواتا ہے لیکن 2016 میں جب آر ایس ایس نے اپنے عزائم کو مشرق وسطیٰ کے اندر بروئے کار لانے کے لیے ایک بند کمرے کی نشست کا انعقاد کیا تو ڈاکٹر شیٹی نے بھی اس میں شرکت کی ۔ سر سنگھ چالک موہن بھاگوت کے ساتھ ان کی تصویر منظر عام پر آ چکی ہے ۔عرب امارات کے اندر ڈاکٹر شیٹی نے اپنی 45 سالہ پیشہ ورانہ زندگی میں بہت ساری دولت کے ساتھ عزت بھی کمائی لیکن آخری وقت میں اس پر خاک ڈال دی ۔ پندرہ سال قبل 2005 میں انہیں عرب امارات کے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا گیا۔ اس کے چار سال بعد حکومت ہند نے انہیں پدم شری کا خطاب عطا کیا۔ 2014 میں معروف عالمی ادارہ فوربس نے انہیں امارات کے بہترین ہندوستانی لیڈر کا اعزاز دیا اور 2018 میں اسی فوربس نے اپنے اعزاز کا دائرہ امارات سے عرب دنیا تک وسیع کر دیا۔ یعنی اب وہ اب پوری عرب دنیا میں ہندوستان کا سب سے ممتاز چہرہ قرار پائے لیکن اب خود انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اس پر کالک پوت دی ہے ۔ اس دوران ڈاکٹر شیٹی نے ابوظبی کے قومی اخبار ’دی نیشن‘ سے کہا کہ وہ امارات سے فرار نہیں ہیں بلکہ اپنے ۸۲ سالہ بھائی کی عیادت کے لیے ۷ فروری کو ہندوستان آئے تھے۔ اپریل کے اوائل میں بھائی کا کینسر سے انتقال ہوگیا لیکن کیا یہ مناسب نہیں تھا کہ وہ ہندوستان آنے کے بجائے اپنے بھائی کو امارات بلا کر اپنے مایہ ناز اسپتال میں ان کا علاج کرواتے؟
ڈاکٹر شیٹی کا یہ بھی کہنا ہے کورونا وائرس کی پابندیوں کے خاتمہ پر وہ دوبارہ امارات لوٹیں گے ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ موجودہ بحران پر وہ اس لیے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں کہ ان کے پاس حقائق نہیں ہیں ۔ انٹر نیٹ کی اس دنیا میں جو معلومات انہیں اپنے دفتر میں بیٹھ کر مل سکتی ہیں وہی اڑوپی کے اندر بھی مہیا ہوسکتی ہیں ۔ اس لیے معلومات کے فقدان کا بہانہ ناقابلِ یقین ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو حقائق اب سامنے آرہے ہیں اس کی روشنی میں سارے الزامات بے بنیاد اور گمراہ کن ہیں ۔ یہ تو ایک سیاسی بیان ہے۔ ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ بھائی کی عیادت پر ذاتی سفرکے لیے آتے ہی ان کو این ایم سی کی چیرمین شپ اور فن بر کے بورڈ آف ڈائرکٹر سے ہٹایا جانا محض اتفاق تھا یا سازش تھی۔فوربس نے فی الحال ارب پتی لوگوں کی فہرست سے ڈاکٹر شیٹی کو نکال باہر کیا ہے۔ ڈاکٹر شیٹی کو 2015 کا وہ دن یاد ہوگا کہ جب انہیں دنیا امیر ترین لوگوں کی صف میں شامل کیا گیا تھا ۔ 2020 کی ابتداء میں بھی وہ اس فہرست کے اندر 42 ویں مقام پر تھے لیکن اب یہ نام ندارد ہے۔ اتنی عزت و ناموری کے باوجود ھل من مزید کا لالچ اور بری صحبت انسان کو کس عبرت ناک انجام سے دوچار کر دیتی ہے اس کی بہترین مثال ڈاکٹر باوا گٹھو رگھورام شیٹی عرف ڈاکٹر بی آر شیٹی ہے۔ سورہ آل عمران کی آیت 26 میں ارشاد ربانی ہے ’’کہو! خدایا! مُلک کے مالک! تو جسے چاہے حکومت دے اور جسے چاہے چھین لے جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کر دے بھلائی تیرے اختیار میں ہے بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔
***
عرب امارات کے اندر ڈاکٹر شیٹی نے اپنی 45 سالہ پیشہ ورانہ زندگی میں بہت ساری دولت کے ساتھ عزت بھی کمائی لیکن آخری وقت میں اس پر خاک ڈال دی