بیمار معیشت کو تیزی سے پٹری پر لانے کی چہار طرفہ کوششیں

چین سے رخصت ہونے والی غیر ملکی کمپنیوں کو بھارت لانے کی مساعی خوش آئند

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

کورونا وائرس کے قہر نے دنیا بھر میں تقریباً چار لاکھ افراد کی جان لے لی ہے۔ ۷۰ لاکھ سے زائد افراد متاثر ہیں۔ عالمی معیشت کو برباد کر دیا ہے جبکہ کروڑوں لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں۔ ملک عزیز کا بھی بے حال ہے۔ یہاں بھی ساڑھے چھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں دو لاکھ افراد سے زیادہ متاثر ہیں طبی نظام دباؤ میں ہے۔ معیشت بد حال ہے ملک میں معاشی بحران بری طرح حاوی ہے۔ کپڑے، آٹو موبائل، ایرلائنز، ہوٹل انڈسٹریز ، سیاحت، رئیل اسٹیٹ، چھوٹی بڑی صنعتیں لاک ڈاؤن کی وجہ سے بالکل برباد ہو چکی ہیں۔ غیر رسمی شعبوں میں کام کرنے والے کروڑوں مزدوروں، کاریگروں، تعمیری کام کرنے والوں کی روزی روٹی ختم ہو گئی ہے۔ بہت سارے تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ معیشت میں زبردست کساد بازاری اور سکڑاو پیدا ہوگا۔ گولڈ مین سچ اور نومو رانے نے اپنے جائزہ میں بھارتی معیشت کے شرح نمو میں بالترتیب 5.0 فیصد اور 6.2 فیصد کے سکڑاؤ کا امکان ظاہر کیا ہے۔ آر بی آئی نے اپنے حالیہ جائزہ میں اسے منفی زون ہی میں رکھا ہے۔ آر بی آئی کی مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے کہا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے معیشت کو پٹری پر لانے میں کئی برس لگیں گے۔ عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز انوسٹر سرویسز نے نومبر ۲۰۱۷ میں ملک کی کریڈٹ ریٹنگ کو BAA-3 سے ایک درجہ اوپر اٹھا کر BAA-2 کر دیا تھا مگر اس ایجنسی نے بھارت کی سورن ریٹنگ کو BAA-2 سے گھٹا کر BAA-3 کر دیا ہے۔ ایجنسی نے کہا کہ لمبے عرصہ تک ممکنہ معاشی سستی اور خراب ہوتی ہوئی مالی حالت سے نمٹنے کے اصولوں کو نافذ کرنا حکومت کے لیے چیلنجنگ ہوگیا ہے۔ اس لیے بھارتی حکومت کی غیر ملکی کرنسی اور مقامی کرنسی کے لانگ ٹرم ایشو ریٹنگ کو BAA-2 سے گھٹا کر BAA-3 کر دیا ہے۔ اس طرح بھارت کی شارٹ ٹرم لوکل کرنسی ریٹنگ کو P2 سے گھٹا کر P3 کر دیا ہے۔ اس سے بھارت کی آوٹ لک منفی حیثیت میں آگئی ہے۔ موڈیز نے کہا کہ منفی آؤٹ لوک کا مطلب یہ ہے کہ معیشت اور مالی نظام میں شدید دباؤ کی وجہ سے گراوٹ کا خطرہ بنا ہوا ہے۔ اس سے موڈیز کے موجودہ اندازہ کے مطبق ملک کی مالی طاقت میں بڑے لمبے عرصے تک گراوٹ باقی رہ سکتی ہے۔ BAA-3 سرمایہ کاری کے لحاظ سے سب سے خراب ریٹنگ ہے۔ موڈیز نے بہت ساری بھارتی کمپنیوں کے ریٹنگ کو بھی نیچے کر کے منفی کر دیا ہے۔ مثلاً آئیل اینڈ نیچرل گیس کارپوریشن (ONGC)،TCS, PIL,IPCL , OICL, OIL, HICL انفوسس لمٹیٹیڈ، RIL وغیرہ۔
موڈیز کے نچلے درجے پر رکھنے کا اثر بونڈ پر ہوگا نہ ہی ایکسچینج ریٹ پر اور نہ ہی ملک کی آف شور بونڈس پر۔ موڈیز کی طرف سے بھارت کی ریٹنگ کم کیے جانے کو نظر انداز کرتے ہوئے حصص بازاروں میں پورے ہفتے اچھال دیکھا گیا۔ معاشی تگ ودو کے کھلنے اور وزیر اعظم کی طرف سے صنعت کاروں کو بھرپور بھروسہ دینے سے ہی گھریلو شیئر بازاروں میں تیزی آئی۔ مودی جی نے سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کو بھروسہ دلایا ہے کہ ملک معاشی ترقی کی پٹری پر جلد لوٹ آئے گا۔ لاک ڈاؤن کے درمیان اٹھائے گئے اصلاحی اقدام سے معیشت کی بہتری میں مدد ملے گی۔ جیو جیت فائنانشیل سروسز کے ریسرچ ہیڈ ونود نائر نے کہا کہ بھارتی بازاروں میں موڈیز کی طرف سے ریٹنگ گھٹانے کے عمل کو نظر انداز کردیا اور معاشی تگ ودود کے پھر شروع ہونے سے بھی توقع نے بازار کو تحریک دی۔ انہوں نے کہا کہ کئی منفی اشاروں کے باوجود مثبت ماحول نے بازار کو آگے بڑھایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمعہ کو کاروبار کے آخری دن بی ایس ای اور نفٹی بڑھوتری کے ساتھ بند ہوا۔ جمعہ کو صبح بی ایس ای 217.85 پوائنٹس کے اوپر نفٹی 64.7 پوائنٹ کی بڑھوتری کے ساتھ کھلا۔ دن بھر کی تجارت کے دوران بی ایس ای 424.73 پوائنٹ اور نفٹی 130.8پوائنٹ تک جانے میں کامیاب رہا۔ بی ایس ای میں شامل 25 کمپنیوں کے شیئروں میں بڑھت رہی یہی حال این ایس ای کا رہا۔
واضح رہے کہ کورونا وائرس کے قہر سے گزر رہی معیشت کو آگے بڑھانے کے لیے حکومت کی طرف سے حالیہ دنوں میں لگاتار کوشش کی جارہی ہے۔ اس سلسلہ میں بروز منگل وزیر اعظم نے اپنے مخصوص انداز میں بھارتی صنعتی تنظیم (سی آئی آئی) کے سالانہ اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری حکومت پرائیویٹ سیکٹر کو ملک کی ترقی میں شراکت دار سمجھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کو پھر تیزی سے ترقی کی راہ پر لانے اور خود کفیل بھارت بنانے کے لیے پانچ باتیں بہت ضروری ہیں جو 5 Is کی شکل میں ہے۔ پہلی بات ہے ارادہ (intent) ساجھے داری (انکلوزن)، سرمایہ کاری (انوسٹمنٹ)، بنیادی ڈھانچہ (انفراسٹرکچر) اور نئی جستجو (انوویشن)۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سبھی حصہ داروں (اسٹیک ہولڈرس) سے لگاتار مکالمہ کرتا رہوں گا اور یہ آگے بھی جاری رہے گا۔ دیہی معیشت میں سرمایہ کاری اور کسانوں کے ساتھ حصہ داری کی راہداری کا بھی فائدہ اٹھائیں۔ مودی جی نے کہا کہ اب گاؤں کے پاس ہی مقامی زرعی پیداوار کے کلسٹرس کے لیے ضروری بنیادی ڈھانچہ تیار کیا جا رہا ہے۔ اسکیمیں سی آئی آئی کے تمام اراکین کے لیے اچھے مواقع ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میٹرو کوچ برآمد کر رہا ہے۔ ملک میں وندے بھارتی جیسی ٹرینیں تیار ہو رہی ہیں۔ پچھلے تین ماہ میں ہی پی پی ای کی کروڑوں کی صنعت بھارتی صنعت کاروں نے کھڑی کی ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں اب ایک ایسی مضبوط مقامی ضرورت کی زنجیر کی تعمیر میں سرمایہ کاری کرنی ہے جو عالمی ضرورت کی زنجیر میں بھارت کی حصہ داری کو مضبوط کرے۔ اس کوشش میں سی آئی آئی جیسی مضبوط تنظیم کو بھی کورونا وبا کے بعد نئی صورت میں آگے قدم بڑھانا ہوگا۔
مودی جی نے کہا کہ بھارتی صنعت کاروں کے پاس بالکل ہی راستہ صاف ہے اور وہ ہے خود کفیل ہونے کا راستہ۔ یہ خود کفیل بھارت عالمی معیشت کے ساتھ پوری طرح مربوط اور مددگار بھی ہوگا۔ ہمیشہ ایک ایسی مقامی سپلائی زنجیر کو تعمیر کرنا ہے جو عالمی سپلائی زنجیر میں بڑی حصہ داری ادا کرے اور ممد ومعاون بنے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا ایماندار شراکت دار کی تلاش میں ہے۔ بھارت میں اس کی صلاحیت اور قوت موجود ہے۔ اس لیے جہاں میں بھارت کا اعتماد بحال ہوا ہے جس سے آپ سبھوں کو اور بھارتی صنعتوں کو پورا فائدہ اٹھانا ہے۔ خود کفیل بھارت کا معنی ہے ہمیں مضبوط بن کر دنیا کی رہنمائی کرنا ہے۔ مودی جی نے کہاکہ بھارت نے اس وبا کے وقت 150 ملکوں کو دوائیں بھیج کر انسانیت کو فلاح وبہبود کا راستہ دکھایا ہے۔ آج دنیا میں بھارت کے تعلق سے جو اعتماد ویقین پیدا ہوا ہے اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ محنت کشوں کے فلاح وبہبود کو نظر رکھتے ہوئے روزگار کے مواقع کو بڑھانے کے لیے لیبر قانون میں اصلاحات کی جا رہی ہیں۔ پی ایم نے کہاکہ ہمیں ایک طرف اس وائرس سے لڑنے کے لیے سخت اقدام کرنے ہیں تو دوسری طرف یہاں کے باشندوں بھی آگے بڑھانا ہے۔ ایک طرف شہریوں کا خیال رکھنا ہے تو دوسری طرف معیشت کو بھی رفتار دینا ہے۔ مودی نے کہا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں میرے اعتماد کی کئی وجوہات ہیں۔ مجھے بھارت کی صلاحیت، تکنیک ٹیلنٹ، انوویشن، کرائسس مینجمنٹ اور اس کے صنعت کاروں پر پورا بھروسہ ہے۔
معیشت کو مہمیز دینے کے لیے نئی منصوبہ بندی کے ساتھ نئے محاذ پر نئی جہت میں کام کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ سی آئی آئی نے حکومت کے ساتھ تال میل بناتے ہوئے شہروں اور دیہی علاقوں میں صنعتوں کو توازن کے ساتھ آگے لے جانے کا روڈ میپ تیار کیا ہے کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے لاکھوں بے کس، بے سہارا، مہاجر مزدوروں کو ان کے گاؤں اور گھر کی طرف لوٹنے پر مجبور کرنا ہے۔ اس سے ملک کی صنعتوں پر بہت برا اثر پڑا ہے۔ ویسے انہیں مخالفت سمت میں ہجرت (ریورس مائیگریشن) یعنی شہروں سے نکل کر گاؤں کی طرف جانے سے کل کارخانوں میں فوری طور پر محنت کشوں کی قلت پیدا ہو سکتی ہے لیکن صنعت کاروں کا خیال ہے کہ اس سے موجودہ معیشت میں بدلاؤ کا ایک موقع مل گیا ہے۔ ملک کے سب سے اہم صنعت چیمبر، سی آئی آئی کے نئے صدر ادے کوٹک نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ صنعت کاروں کے ساتھ مل کر ایک ضابط بنائے جو کل کارخانوں اور دوسری معاشی تگ ودو کو کچھ بڑے شہروں تک مرتکز رکھنے کے بجائے دیہی علاقوں میں جانے کی ہمت افزائی کرے تاکہ دیہی علاقوں کی بہتری اور تقی کے ساتھ ملکی معیشت کے بنیادی ڈھانچوں کو مستحکم اور مضبوط بنایا جا سکے۔ سی آئی آئی نے اپنے روڈ میپ میں سماجی ڈھانچوں پر بہتری کے لیے زیادہ ہی زور دیا ہے اور اشارہ دیا ہے کہ وہ بڑی سماجی معاشی تبدیلی کے لیے قدم بقدم چلنے کو تیار ہے۔ ملک کے خاص بینکروں میں کوٹک مہندرا بینک کے چیف ادے کوٹک نے چار روز قبل ہی سی آئی آئی کے صدر کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالی اور دو دن بعد ہی پہلی کانفرنس بلائی اور کہا کہ یہ کورونا وبا کی وجہ سے ملک کی جو حالت بنی ہوئی ہے اس میں سب کچھ غیر واضح ہے۔ ایسے میں شرح نمو کے نتھی رہنے کا امکان ہے۔ یہاں معیشت میں اضافہ کے بجائے گراوٹ ہی کا اندیشہ ہے۔ اس کے قبل آر بی آئی نے بھی اسی وجہ سے کوئی ٹارگیٹ نہیں رکھا ہے۔ سی آئی آئی کے صدر نے حکومت اور اراکین کے لئے ۱۰ نکات پر مشتمل ایک لائحہ عمل دیا ہے جو موجدہ چیلنجز سے نبرد آزما ہونے میں کار گر ہو سکتا ہے۔ سی آئی آئی کا یہ زمینی نقشہ یعنی انڈیا ایک ہی متبدل تصویر کو سامنے لاتا ہے جس میں حکومت سے ملی تعاون لینے سے زیادہ صحت تعلیم، غرباء کے لیے بہتر سہولت پر زیادہ زور دیا گیا ہے تاکہ وہ وہ اپنے خورد ونوش کے لیے بہتر کوشش کر سکیں۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ ۸۰ فیصد روزگار غیر منظم سیکٹر میں ہے۔ جہاں کسی طرح کی سماجی سلامتی نہیں ہے۔ غیر منظم سیکٹر کو منظم سیکٹر میں تبدیل کرنے کے لیے لیبر اصلاحات کو بہتر طریقے سے لاگو کرنا ہوگا۔ سی آئی آئی کے مطابق بھارت جیسے ترقی پذیر ملک میں معاشی ترقی کا اقل ترین شرح ناقابل برداشت ہے۔ اس روڈ میپ میں چین سے نکلنے والی کمپنیوں کو بڑھ چڑھ کر ہمت افزائی کی بات کی گئی ہے تاکہ یہاں ہنر مندر اور غیر ہنر مند نوجوانوں کو روزگار مہیا ہوسکے۔ سی آئی آئی کے صدر نے غربا کو نقد رقم دینے کی وکالت بھی کی۔
کورونا وبا کے بعد چین سے منہ موڑ کر رخصت ہونے والی غیر ملکی کمپنیوں کو بھارت لانے کی کوششیں حکومتی سطح پر بوریا بستر باندھ کر دوسرے ملکوں میں صنعت لگانے کا ارادہ کر رہی ہیں۔ اس لیے مرکزی وزارت صنعت وتجارت نے ریاستوں سے بھی رابطہ کیا ہے تاکہ جو ریاستیں سب سے کفایتی سطح پر اور کم وقت میں پلانٹ لگانے کی سہولت دیں گی ان کے یہاں غیر ملکی کمپنیوں کو جانے کی چھوٹ ملے گی۔ اس سلسلہ میں ریاستوں کی بھی الگ سے ہمت افزائی کی جائے گی۔ یہ تمام تر اطلاعات وزیر صنعت وتجارت پیوش گوئل نے دی ہیں۔ وزیر نے بتایا کہ ہمارا مقصد ہے بھارت کو اب فینشڈ پیداوار کا عالمی ہب بنایا جائے۔ کچے مال کے لیے ان ممالک سے رابطہ کیا جا رہا ہے جہاں اس کی بہتات ہے۔ فی الوقت بارہ طرح کے فینشڈ پیداوار کا عالمی سپلائر بننے کی تیاری چل رہی ہے۔ اس میں آٹو پارٹس، لیدر اور لیدر شوز ٹکسٹائلس، فوڈ پروسیسنگ، الکٹرانکس، المونیم، لوہا، اسپت، پی پی ای جیسے اشیا کے ساتھ کیمیکلس وغیرہ شامل ہیں۔ گوئل نے بتایا کہ کورونا وائرس نے اگر چیلنج دیا ہے تو کئی طرح کے مواقع کے اشارے بھی مل رہے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت صنعتی دنیا کے سابقہ مل کر طریقہ کار طے کرنے میں تیزی سے لگ گئی ہے۔ الگ الگ صنعت کے لیے مختلف طریقہ کار بنائے جارہے ہیں۔ مثلاً فرنیچر کو ہم درآمد کرتے ہیں ہمارے یہاں ٹمبر کی کمی ہے۔ اس کمی کو دور کرنے کے لیے فاریسٹ پالیسی پر کام کیا جا رہا ہے تاکہ ملک میں تجارتی غرض سے جنگل لگایا جا سکے۔ وزیر موصوف نے بتایا کہ غیر ملکی کمپنیوں کو لانے میں ریاستوں کی بڑی اہمیت ہے۔ سرکار کی ایسی کوشش ہے کہ ریاستوں کے درمیان غیر ملکی کمپنیوں کو بلانے کے لیے بھی مقابلہ ہو۔ فی الوقت غیر ملکی کمپنیوں کو یونٹ لگانے میں زمین کے حصول اور مقامی طور سے منظوری لینے میں بڑی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریاستوں کو تیار کیا جا رہا ہے کہ وہ زمین دلوانے میں سب سے زیادہ دھیان دیں۔ گوئل نے بتایا کہ سودیشی کا مطلب دنیا سے کٹنا نہیں ہے نہ ہی غیر ملکی کمپنیوں کے لیے اپنے دروازے بند کرنا ہے۔ غیر ملکی کے لیے مطلوب ہے اعتماد سے بھرا ہوا خود کفیل بھارت۔ بھارت میں کافی صلاحیت ہے اور ہماری صنعتی دنیا بھی غیر ملکی مسابقت کا مقابلہ کرنے میں ماہر ہے۔ ہمارے لیے یہ قابل اطمینان ہے کہ چین کو پیچھے چھوڑ کر بھارت سرمایہ کاری کو پرکشش ٹھکانہ بن چکا ہے۔ دنیا بھر کی کمپنیاں بھارت میں سرمایہ کاری کے لیے خواہش مند ہیں۔ چین نے بھی اسے تسلیم کیا ہے، چین کی سرکاری میڈیا میں چھپے ایک آرٹیکل میں اقرار کیا گیا ہے کہ چین کی معاشی سستی وہاں کی کمپنیوں کو ملک چھوڑ کر بھارت کی طرف رخ کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔
ہماری معیشت کی جان ہمیشہ سے ہی زارعت رہی ہے۔ لیکن اس شعبہ میں بد عنوانی اور کسانوں کے ساتھ ہونے والی حق تلفی نے کسانوں کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔ مرکزی حکومت نے خود کفیل بھارت مہم کے تحت کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے لیے زرعی شعبے میں اصلاحات کے سلسلے میں دو آرڈیننس جاری کیے ہیں۔ صدر جمہوریہ نے زرعی پیداوار اور تجارت اور کامرس (فروغ اور سہولت) آرڈیننس ۲۰۲۰ اور قیمت گارنٹی کسان معاہدہ (حق فراہم کرنا اور سیکوریٹی) اور زرعی سرویس آرڈیننس ۲۰۲۰ کی تجویز کو منظوری دے دی ہے۔ حکومت کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے مقصد سے زرعی مارکٹنگ میں بہتر کار کردگی کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کر رہی ہے۔ ساتھ ہی مرکز زرعی پیداوار کی مارکٹنگ کی مجموعی ترقی کے سامنے آنے والی رکاوٹوں کو پہچان کر ماڈل زرعی مصنوعات اور مویشیوں کی مارکٹنگ (اے اے ایل ایم) قانون ۲۰۱۷ اور ماڈل زرعی مارکٹنگ میں بہتر کار کردگی کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کر رہی ہے۔ ساتھ ہی مرکز نے زرعی پیداوار کی مارکٹنگ کی مجموعی ترقی کے سامنے آنے والی رکاوٹوں کو پہچان کر ماڈل زرعی مصنوعات اور مویشیوں کی مارکٹنگ (اے اے ایل ایم) قانون ۲۰۱۷ اور ماڈل زرعی مصنوعات اور مویشی قانون ۲۰۱۸کا مسودہ تیار کیا جنہیں تمام ریاستوں کو لاگو کرنا ہے۔ ہماری حکومت کی تمام تر کوششیں معیشت کی بہتری کے لیے قابل قدر ہیں۔ بہتر حکم رانی، اچھے قوانین، حالات میں نظم ونسق، انتظامیہ میں ایمانداری، سرمایہ دوست ماحول، خوف ودہشت سے دوری، باہمی محبت واحترام، ملک میں پائیدار امن وسکون کا موسم بہار، عالمی اور ملکی سرمایہ کاروں کے لیے کشش کا باعث ہوتا ہے۔ اس لیے ہمارے وزیر اعظم کو چاہیے کہ خود کفیل بھارت کے لیے اور معیشت کی بہتری کے لیے ملک میں گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دیتے ہوئے امن وامان کو ترجیحات میں رکھیں۔
***


 

سی آئی آئی کے صدر نے حکومت اور اراکین کے لیے ۱۰ نکات پر مشتمل ایک لائحہ عمل دیا ہے جو موجدہ چیلنجز سے نبرد آزما ہونے میں کار گر ہوسکتا ہے۔ سی آئی آئی کا یہ زمینی نقشہ یعنی انڈیا ایک ہی متبدل تصویر کو سامنے لاتا ہے جس میں حکومت سے ملی تعاون لینے سے زیادہ صحت تعلیم، غرباء کے لیے بہتر سہولت پر زیادہ زور دیا گیا ہے تاکہ وہ وہ اپنے خورد نوش کے لیے بہتر کوشش کرسکیں۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ ۸۰ فیصد روزگار غیر منظم سیکٹر میں ہے جہاں کسی طرح کی سماجی سلامتی نہیں ہے۔ غیر منظم سیکٹر کو منظم سیکٹر میں تبدیل کرنے کے لیے لیبر اصلاحات کو بہتر طریقے سے لاگو کرنا ہوگا۔