موقف: زرعی قوانین کے خلاف سراپا احتجاج کیوں ہیں؟
اہم ترین معاملات پر بحث سے گریز۔ حکومت کے اقدامات سے کارپوریٹس کا فائدہ
زعیم الدین احمد، حیدرآباد
بی جے پی حکومت نےگزشتہ دنوں پارلمنٹ میں 3 زرعی آرڈیننس پیش کرتے ہوئے انہیں منظور کروالیا تھا اور اب یہ قانون کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ پہلے ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ آرڈیننس اور بل میں کیا فرق ہوتا ہے۔ آرڈیننس کسی بھی بل کی وہ شکل ہوتی ہے جسے ناگزیر حالت میں حکومت پارلیمنٹ کے اجلاس سے پہلے صدر جمہوریہ کو پیش کر کے منظور کروالیتی ہے اور اس پر عمل آوری شروع کردیتی ہے۔ چونکہ اس وقت پارلیمنٹ کا کوئی اجلاس نہیں چل رہا ہے تو اُسے قریب میں منعقد ہونے والے پارلیمنٹ کے اجلاس میں پیش کر کے چھ ہفتوں کے اندر منظور کروالینا ضروری ہے اس لیے موجودہ حکومت نے یہی راستہ اختیار کیا ہے ۔
ملک کے مختلف علاقوں بالخصوص پنجاب وغیرہ میں ان قوانین کے خلاف کسان شدید احتجاج کر رہے ہیں۔ کسانوں کا کہنا ہے بلکہ انہوں نے یہ الزام لگایا ہے کہ در حقیقت یہ بل ‘شعبہ زراعت کو کارپوریٹ کمپنیوں کے حوالے کرنے اور کسانوں پر ان کمپنیوں اور سرمایہ داروں کے تسلط کو قائم کرنے کے لیے تیار کیے گئے ہیں’
آخر کسان اس کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں ؟ کیا وجہ ہے کہ ان قوانین کے خلاف ملک کے تقریباً ہر گوشے سے آوازیں اٹھ رہی ہیں اس کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ خاص طور پر پنجاب، ہریانہ اور حیدرآباد بھوبنیشور (اوڈیشہ) میں بڑے پیمانے پر احتجاج منظم کیے جا رہے ہیں۔ 25 ستمبر کو بھارت بند بھی کیا گیا۔ دہلی کے جنتر منتر پر ان قوانین کے خلاف احتجاج منظم کرنے کے لیے یوپی کے کسانوں کا ایک گروپ دہلی گیا تھا جس کو قومی دارالحکومت کی سرحد پر روک لیا گیا اور ان پر لاٹھیاں بھی برسائی گئیں۔
ان تین آرڈیننسوں میں پہلا ہے ‘اشیاء ضروریہ ترمیمی آرڈیننس 2020۔ یہ قانون بنیادی طور پر 1955 میں بنا یا گیا تھا تاکہ کالا بازاری پر روک لگائی جاسکے۔ دوسرا آرڈیننس‘ کاشتکاروں اور کسانوں کی پیداوار اور تجارت سے متعلق (پروموشن اینڈ فیسی لیٹیس آرڈیننس) 2020۔ اس بل کے تحت کوئی بھی فرد کسانوں کی پیداوار خرید سکتا ہے ۔تیسرا آرڈیننس کسانوں کو بااختیار بنانے اور ان کے تحفظ سے متعلق ہے( پرائس اشورنس اور فارم سروسز آرڈیننس 2020)۔ یہ تین آرڈیننس ہیں جنہیں حکومت نے جون کے مہینہ میں صدر جمہوریہ سے منظور کروالیے تھے۔یہ آرڈیننس اتنی عجلت میں منظور ہوئے کہ اس پر کوئی گفتگو ہی نہیں ہوسکی۔ آخر حکومت کو اتنی جلد بازی کی کیا ضرورت تھی کہ انہیں پہلے آرڈیننس کی صورت میں پیش کر کے منظور کیا اور بعد میں اسے پارلیمنٹ کے ذریعے قانون بنادیا جب کہ کوویڈ-19 کی وجہ سے پارلیمنٹ کے مذکورہ اجلاس میں پرائیویٹ ممبر بل اور وقفہ سوالات کے لیے محض آدھے گھنٹہ کا ہی وقت مختص کیا گیا تھا۔ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے کم وقت میں اتنی اہم باتوں پر گفتگو ہو۔ اس جلدبازی کی کسان یونینوں اور کسان رہنماؤں نے شدید مذمت کی ہے۔
ان میں سب سے زیادہ مخالفت کاشتکاروں اور کسانوں کی پیداوار اور تجارت سے متعلق APMC اگریکلچر پروڈیز مارکٹ کمیٹی (پروموشن اینڈ فیسی لیٹیس آرڈیننس) 2020 بل کیہو رہی ہے۔ 1950 میں مختلف ریاستوں نے APMC ایکٹ لاگو کیا تھا۔ اس وقت یہ ایکٹ اس لیے لاگو کیا گیا تھا کہ زیادہ تر کسان ساہوکاروں کے قرض میں ڈوبے ہوئے تھے اور اگر کسان قرض واپس نہیں کر پاتے تو یہ ساہوکار ان کسانوں کی پیداوار کھیت سے ہی لے کر چلے جاتے یا انہیں اپنے من مانی قیمت پر خرید لیتے اس صورت میں کسانوں کو اپنی پیداوار کی حقیقی قیمت نہیں ملتی۔ اس تکلیف دہ صورت حال سے کسانوں کو بچانے کے لیے ریاستوں نے APMC ایکٹ لاگو کیا تاکہ کسان استحصال کا شکار نہ ہوں ۔ APMC ایکٹ کے تحت فصل صرف منڈی ہی میں بیچ سکتے ہیں اور اس منڈی میں کسان سے پیداوار صرف وہی فرد خرید سکتا ہے جس کے پاس اجازت نامہ (لائسنس) موجود ہو ۔ لائسنس یافتہ خریدار بھی فصل کو ہراج (آکشن) کے ذریعہ ہی خرید سکتے ہیں تاکہ کسان کو زیادہ سے زیادہ قیمت ملے۔ کسان اپنی پیداوار کو ان منڈیوں لے جاکر وہاں آڑھتی یعنی کمیشن ایجنٹ کو دے دیتے ہیں اور یہ کمیشن ایجنٹ بولی لگا کر قیمت طے کرتے ہیں اور تاجر ان ایجنٹوں کے ذریعہ کسان کو قیمت ادا کرتے ہیں جس میں ان ایجنٹس کا ڈھائی فیصد کا کمیشن بھی ہوتا ہے ۔
حکومت APMC کے اختیار یعنی کو ایکٹ کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ ان بلوں کو آرڈیننس کی شکل میں پیش کرنے سے کسانوں اور اپوزیشن کی جماعتوں کے ذہنوں میں بہت سے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں انہیں اس میں حکومت کی نیت پر شک نظر آتا ہے ۔ حزب مخالف جماعتوں اور متعدد کسان یونینوں نے دھمکی دی ہے کہ جب تک یہ متنازعہ آرڈیننس واپس نہیں لیے جاتے ہیں وہ اپنے احتجاج کو جاری رکھیں گے ۔مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ قوانین کسانوں کے حق میں ہیں۔ یہ قوانین کسانوں کو اس بات کی موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ اپنی پیداوار کو اناج منڈیوں سے باہر کسی کو بھی فروخت کریں۔ انہیں اس بات کی بھی اجازت ہوگی کہ وہ اپنی فصل کاشتکاری سے پہلے کسی کو بھی فروخت کرنے کا معاہدہ کرسکتے ہیں۔ جب کہ کسان یونینوں اور اپوزیشن جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ یہ قوانین نہ صرف ایم ایس پی (اقل ترین ل قیمتِ خرید) اور اناج منڈیوں کے نظام کو ختم کر دیں گے بلکہ چھوٹے اور متوسط کسانوں کو بھی کچل کر رکھ دیں گے۔
کسانوں کے علاوہ کمیشن ایجنٹس بھی ان قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں۔ انہیں یہ خوف لاحق ہوگیا ہے کہ نئے قوانین کی وجہ سے ان کا کاروبار ختم ہوجائے گا اور وہ بے روزگار ہوجائیں گے۔ان میں ایک اور قابل تشویش بات یہ ہے کہ حکومت نے”اشیاء ضروریہ ایکٹ“ میں ترمیم کی ہے جس میں ذخیرہ کرنے کی حد ختم کردی گئی ہے، اشیائے خوردونوش کی خرید و فرخت کی حد کو بھی ہٹادیا گیا ہے جس کے تحت کارپوریٹس کو یہ موقع مل گیا ہے کہ وہ لامحدود مقدار میں کھانے پینے کی اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کرسکیں گے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ کارپوریٹس ان اشیاء کو بعد میں اپنی من مانی قیمت پر فروخت کریں گے. ساتھ ہی ساتھ انہیں اس کے ذریعہ سے زرعی منڈیوں پر قبضہ حاصل کرنے کا موقع بھی مل گیا ہے۔ حکومت کا یہ کہنا غلط ہے کہ اس بل کے ذریعہ سے کسان اپنی پیداوار کسی کو بھی فرخت کرسکتے ہیں اور اسے ذخیرہ بھی کرسکتے ہیں، حالاں کہ انہیں یہ حق اس بل سے پہلے بھی حاصل تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس بل کی وجہ سے کارپوریٹس کو اور سرمایہ داروں کو یہ موقع مل گیا ہے کہ وہ لامحدود مقدار میں کسی روک ٹوک بغیر ذخیرہ اندوزی کرسکیں گے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کسان خود بھی یہی چاہتے ہیں کہ اب تک جو نظام ہے وہی برقرار رہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ ان ہی کمیشن ایجنٹوں سے فصل کی بوائیکے لیے مالی اعانت حاصل کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنی دیگر ضروریات جیسے اپنی بیٹیوں کی شادی بیاہ یا بچوں کی تعلیم یا علاج و معالجہ کے لیے جب بھی انہیں پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے وہ انہیں کمیشن ایجنٹوں سے حاصل کرتے ہیں اور جب اناج بازار میں پہنچتا ہے تو یہی ایجنٹ اسے خرید بھی لیتے ہیں۔ چھوٹے اور متوسط یا غریب کسانوں کا انحصار انہی ایجنٹوں پر ہوتا ہے کیونکہ ہر بینک انہیں قرض نہیں دیتا اسی لیے ان کا سارا انحصار انہی خانگی قرض دینے والے اداروں یاکمیشن ایجنٹوں پر ہے۔
مرکزی حکومت ان تین نئے قوانین کو نافذ کر کے کمیشن ایجنٹوں کے نظام کو پوری طرح ختم کرنا چاہتی ہے۔ حکومت کسانوں کو اس بات کا یقین دلا رہی ہے کہ وہ ایم ایس پی کو ختم نہیں کرے گی اور وہ اپنی پیداوار کسی کو بھی فروخت کرسکتے ہیں ۔ لیکن حکومت کی اس یقین دہانی پر کسانوں کی تنظیموں کو اعتماد نہیں ہے انہیں اس بات کا بھی یقین نہیں ہے کہ حکومت اپنی بات پر قائم رہے گی۔ اگر حکومت اپنی بات میں مخلص ہے تو اسے چاہیے کہ یم ایس پی کو ختم نہ کرنے پر قانون سازی کرے۔ اکھل بھارتیہ کسان سبھا کے ضلعی صدر پریت سنگھ نے کہا ”ہمیں حکومت کی باتوں پر اعتماد نہیں ہے ہمیں یقین نہیں ہے کہ حکومت ایم ایس پی نہیں ختم کرے گی“ یہاں تک کہ اس کی حلیف اکالی دل کو بھی حکومت پر اعتماد باقی نہیں رہا چنانچہ اس نے این ڈی اے سے اپنا رشتہ توڑ لیا ہے۔
سینئر صحافی اور زرعی امور کے ماہرجی سائی ناتھ نے ان زرعی قوانین کی منظوری پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگرحکومت کا یہ کہنا ہےکہ وہ یم ایس پی کے نظام کو ختم نہیں کر رہی ہے تو اسے چاہیے کہ اس سے متعلق قانون سازی کرے ایسا کرنے سے حکومت کو کس نے روکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس بل کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ یم ایس پی (سوامی ناتھن فارمولہ پر مبنی ہونا چاہیے جس کا 2014 میں بی جے پی نے وعدہ کیا تھا) تاکہ یم ایس پی مذاق نہ بن جائے۔ انہوں نے کہا کہ قرض معافی کے بغیر کسانوں کی آمدنی 2022 تو کیا 2032 تک بھی دوگنی نہیں پائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان بلوں کے لاگو ہونے کہ بعد APMC کا نظام اسی طرح رہ جائے کا جیسے سرکاری اسکول۔ کہنے کو تو سرکاری اسکول ہوتے ہیں لیکن ان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی کیونکہ ان کی جگہ پرائیویٹ اسکولوں نے لے لی ہے۔کسانوں کا کہنا یہ ہے کہ زراعت اب کوئی منافع بخش پیشہ نہیں رہا۔ انہیں اس بات کا خوف ستا رہا ہے کہ کہیں حکومت ایم ایس پی کے نظام کو ختم نہ کردے کیوں کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو کسان کسی صورت زندہ نہیں رہ پائیں گے۔ اس لیے کہ جب خانگی ادارے یا سرمایہ دار ان پیداواروں کو خریدیں گے تو حکومت کے پاس اس بات کا جواز پیدا ہو جائے گا کہ وہ کسی بھی قیمت پرانہیں خرید سکتے ہیں۔ اس صورت میں ایم ایس پی کو جاری رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا اور جس کاشت میں منافع زیادہ ہوگا اسی کو وہ خریدیں گے یعنی وہ کپاس جیسے” کمرشل کراپ“ ہی کو زیادہ ترجیح دیں گے۔ اس صورت میں اشیائے خورد ونوش جیسے چاول اور دالوں وغیرہ کی کاشتکاری کم ہو جائے گی اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اشیاء خورد ونوش کی کمی ہو جائے گی جس کی وجہ سے ان کی قیمتیں بڑھ جائیں گی اور جو کسان نان کمرشیل کاشتکاری کرتے ہیں اس صورت میں یہ خانگی ادارے یا سرمایہ دار لوگ ان کا استحصال کریں گے ان سے کم قیمت پر خرید کر ذخیرہ اندوزی کریں گے اور جب ان کی قیمتیں بڑھ جائیں گی تب ہی ان کو بازار میں بیچیں گے۔ کسان یونینوں نے اس خدشےکا بھی اظہار کیا کہ حکومت نے خانگی اداروں یا افراد کو کاشتکاری معاہدوں کی اجازت دے کر دراصل بڑی کمپنیوں اور سرمایہ داروں کو شعبہ زراعت و شتکاری پر قبضہ کرنے کی راہیں کھول دی ہیں۔ جس کی وجہ سے چھوٹے، متوسط اور غریب کسان و کاشتکاروں کو شدید نقصان ہوگا۔ کسانوں کو یہ بھی خوف لاحق ہے کہ خانگی غلہ منڈیوں کے قیام کی اجازت کے بعد حکومت کی اناج منڈیاں تاریخ کا حصہ بن جائیں گی جس کی وجہ سے کسانوں اور کاشتکاروں کو کارپوریٹس اور خانگی سرمایہ داروں پر ہی انحصار کرنا پڑے گا۔28؍ اگسٹ 2020 کو پنجاب اسمبلی میں اس”آرڈیننس کو واپس لینے اوراقل ترین قیمت خرید ( ایم ایس پی) کے نظام کی برقراری کو یقینی بنانے کے لیے ایک قرار داد منظوربھی کی گئی“۔ اسمبلی میں کہا گیا کہ یہ آرڈیننس ریاست میں شعبہ زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائیں گے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے کہا یہ ”کسانوں کا قانونی اور بنیادی حق ہے کہ وہ اقل ترین قیمت خرید (ایم ایس پی) کے نظام کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کریں اور اس آرڈیننس کی مخالفت کریں“ تلنگانہ کے احتجاجی کسان یونینوں نے یہ مطالبہ کیا کہ تلنگانہ ریاستی اسمبلی میں ان تین بلوں کی مخالفت کے ساتھ ساتھ بجلی ترمیمی ایکٹ بل کی بھی مخالفت کریں اور اس کے خلاف اسمبلی میں قراردادیں بھی منظور کریں۔حکومت چاہتی ہے کہ ان احتجاجوں کو بزور قوت ختم کردیا جائے۔ اس کا غرور اس حد کو پہنچا ہوا ہے کہ وہ حزب مخالف جماعتیں تو کجا اپنی حلیف جماعتوں کو بھی خاطر میں نہیں لا رہی ہے۔ ان قوانین کی مخالفت میں شرومنی اکالی دل کی رکن پارلیمان اور مرکزی حکومت کی وزیر ہرسمرت کور نے استعفیٰ دے دیا ہے اور حکومت مخالف احتجاج میں شامل ہوگئی ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ قوانین صرف اور صرف اپنے سرمایہ دار آقاؤں کی خواہش پر اور ان کی خاطر ہی بنائے گئے ہیں۔ ملک کے باشعور اور خاص طور پر کسانوں سے متعلق آواز اٹھانے والے شہریوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس موقع پر سامنے آئیں، ان احتجاجی کسانوں سے اظہار یگانگت کریں، ان کی دادرسی کریں اور ان کالے قوانین کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔
حکومت کا یہ کہنا غلط ہے کہ اس بل کے ذریعہ سے کسان اپنی پیداوار کسی کو بھی فرخت کر سکتے ہیں اور اسے ذخیرہ کر سکتے ہیں۔ انہیں یہ حق اس بل سے پہلے بھی حاصل تھا بلکہ اس کے برعکس اس بل سے کارپوریٹس کو اور سرمایہ داروں کو یہ موقع مل گیا ہے کہ وہ لا محدود مقدار میں کسی روک ٹوک کے بغیر ذخیرہ اندوزی کر سکتے ہیں۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4-10 اکتوبر، 2020