بھارت کو انسانوں کے تحفظ کے قانون کى ضرورت
سخت قانون کے بغير ہجومي تشدد کي روک تھام ممکن نہيں
از : زعیم الدین احمد، حیدرآباد
مدھيہ پرديش کے ضلع سيوني ميں حال ہي ميں دو قبائليوں کو مار ڈالا گيا۔ مبينہ مجرم بجرنگ دل اور رام سينا سے تعلق رکھنے والے گؤ رکھشک تھے۔ دي پرنٹ کي پي ٹي آئي سے لي گئي ايک خبر کے مطابق سي پي آئي (ايم) کي ايک فيکٹ فائنڈنگ ٹيم نے گاوں والوں سے يہ جاننے کے ليے سيوني کا دورہ کيا کہ لنچنگ کيسے اور کيوں ہوئي۔
ٹيم کے نتائج کے مطابق "دو قبائلي افراد سمريا (Simaria) گاؤں کے دھنسرام انوتي اور سيوني کے گاؤں ساگر کے سمپت بٹي کو 2 مئي اور 3 مئي کي درمياني رات تقريباً 2 بجے لاٹھيوں سے بے دردي سے پيٹا گيا جس کے بعد وہ زخموں کي تاب نہ لا کر چند گھنٹوں ميں ہي دم توڑ گئے۔ بجرنگ دل اور رام سينا کے تقريباً 20 کارکن نعرے لگاتے ہوئے اس کے گھر ميں گھس گئے اور سوئے ہوئے دھنسرام کو باہر لے گئے۔ جب اس کي بيوي پھولوتي نے مداخلت کي تو انھوں نے اسے بھي مارا پيٹا اور اس کے کپڑے بھي پھاڑ ڈالے۔ مدھيہ پرديش رام سينا کے سربراہ شوبھن سنگھ بگھيل نے مبينہ طور پر ايک ويڈيو پوسٹ کيا جس ميں دھنسرام اور سمپت کو مارنے کي ذمہ داري قبول کي گئي کيونکہ وہ گائے کے ذبيحہ ميں ملوث تھے۔ تاہم دي کوئنٹ (The Quint) کے ساتھ ايک انٹرويو ميں بگھيل نے اس بات سے انکار کيا کہ ان کے آدميوں کا لنچنگ سے کوئي تعلق ہے۔ انھوں نے دعويٰ کيا کہ رام سينا کے کارکنون نے محض پوليس کو اطلاع دي تھي کہ سمريا گاؤں ميں گائے ذبح کي جا رہي ہے ليکن پوليس نے کوئي کارروائي نہيں کي۔ جس وقت پوليس موقع پر پہنچي اس وقت تک گائے ذبح ہو چکي تھي۔ رام سينا کے کارکنوں نے گائے کے گوشت کے ساتھ ’قصابوں‘ کو پوليس کے حوالے کر ديا۔ وہيں بگھيل نے جواب ديا کہ وہ نہيں جانتے کہ پوليس حراست ميں ان کي موت کيسے ہوئي۔ پوليس نے ان ميں سے 13 ملزموں کو گرفتار کر ليا ہے۔
يہ دو قبائلي افراد پہلے نہيں ہيں جنہيں گائے ذبح کرنے کے جرم ميں قتل کيا گيا تھا۔ مسلم کميونٹي کے افراد کو گائے کي اسمگلنگ اور گائے ذبح کرنے کے الزام ميں مشتعل گائے کے محافظوں کے ذريعہ قتل کيا جاتا رہا ہے۔ ان شرمناک واقعات کے دو انتہائي پريشان کن پہلو ہيں۔ ايک تو ہجومي تشدد کے مسلسل واقعات کو روکنے ميں لا اينڈ آرڈر کي مشينري کي مکمل ناکامي اور دوسرا، مختلف رياستوں کے ذريعہ بنائے گئے گائے کے ذبيحہ سے متعلق سخت قوانين کي انتہائي غير سائنسي نوعيت۔
مزيد يہ کہ بھارت ميں موب لنچنگ صرف ان لوگوں تک محدود نہيں ہے جن پر گائے کا گوشت رکھنے کا الزام ہے (دادري کے اخلاق احمد کو ياد رکھيں) يا گائے ذبح کرنے کا الزام ہے۔ يہ خوں خوار ہجوم بچوں کو اٹھانے، جادو ٹونے، چوري سے لے کر محبت اور خانداني دشمني تک کسي بھي چيز کے شبہ ميں اس ہلاکت خيز کارروائي کو انجام ديتا ہے۔ اسلامو فوبيا سے پيدا ہونے والے نفرت انگيز جرائم بھي موب لنچنگ کي گھناؤني شکل اختيار کر ليتے ہيں۔ محسن شيخ اور حافظ جنيد کے نام ابھي بھي ذہنوں ميں محفوظ ہيں۔
صرف مسلم نظر آنے کي وجہ کے علاوہ کوئي اور غلطي نہ ہونے کے باوجود وحشيانہ انداز ميں دو جوان جانوں کو بے رحمي سے قتل کيا گيا۔ موب لنچنگ کي اس لعنت کا حل کيا ہے؟ ايک طريقہ يہ ہے کہ لنچنگ مخالف قانون کا نفاذ اور اس پر سختي سے عمل درآمد کيا جائے۔ دوسرا يقيناً عوام کي تعليم ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ ميں نہ ليں۔
گاؤ ذبيحہ قانون سازي
گائے بھارت کي اکثريتي ہندو برادري کے ليے ايک مقدس جانور ہے۔ تاہم، اس کا مطلب يہ نہيں ہے کہ ہندو گائے کا گوشت نہيں کھاتے ہيں۔ گائے کا گوشت مختلف برادريوں جيسے دلت، نچلي ذاتوں اور ہندو عقيدے کے ماننے والے قبائل کے ليے پروٹين حاصل کرنے کي سب سے سستي شکل ہے۔ گائے کا گوشت ان کميونٹيوں کي خوراک کا ايک وسيع حصہ ہے۔ مسلمان بھي روايتي طور پر گائے کا گوشت کھاتے رہے ہيں اور بھارت ميں گوشت کي تجارت اور مذبح خانے چلانے ميں شامل رہے ہيں۔
ايک طويل سماجي-سياسي جدوجہد کے بعد، دائيں بازو ہندوستان ميں سياسي اقتدار پر قبضہ کرنے ميں کامياب ہو گيا اور اس نے فوري طور پر مختلف رياستوں ميں گائے کے ذبيحہ کے خلاف سخت قوانين متعارف کرائے۔ يہ قوانين ہر رياست ميں مختلف ہيں۔ آئين کے ساتويں شيڈول کي رياستي فہرست کے اندراج 15 ميں ’’ذخيرہ کے تحفظ، تحفظ اور بہتري اور جانوروں کي بيماريوں کي روک تھام، ويٹرنري تربيت اور مشق” کے بارے ميں بات کہي گئي ہے۔
اس کا مطلب يہ ہے کہ ہندوستان کي مختلف رياستوں کے قانون سازوں کو ايسے قوانين لانے کا پورا اختيار ہے جو مويشيوں کے ذبيحہ پر پابندي عائد کرتے ہيں اور ان کے تحفظ کو يقيني بناتے ہيں۔ تاہم کچھ رياستيں بعض پابنديوں کے ساتھ مويشيوں کو ذبح کرنے کي اجازت ديتي ہيں جيسے کہ ‘ذبح کے ليے موزوں’ سرٹيفکيٹ جو جانور کي عمر اور جنس اور اس کي تجارتي افاديت جيسي چيزوں کي بنياد پر ديا جاتا ہے۔ کچھ رياستوں نے مويشيوں کے ذبيحہ پر مکمل پابندي عائد کر رکھي ہے۔ 2017 ميں، وزارت ماحوليات نے جانوروں پر ظلم کي روک تھام کے قانون کے تحت ملک بھر ميں جانوروں کي منڈيوں ميں ذبح کرنے کے ليے مويشيوں کي خريد و فروخت پر پابندي عائد کرنے کي کوشش کي۔ تاہم عدالت عظميٰ نے جولائي 2017 ميں اپنے فيصلے ميں اس پابندي کو کالعدم قرار ديتے ہوئے ہماري بيف اور چمڑے کي صنعتوں کو بڑي راحت دي تھي۔
گائے کي نگراني
قانون کو طاق پر رکھتے ہوئے، دائيں بازو کي فورسيز نے ہندو عقيدے کے محافظ ہونے کے اپنے دعوے پر زور دينے کے ليے ايک اور حکمت عملي تيار کي۔ ہر وہ رياست جس ميں ان کي حکم راني ہے وہاں انھوں نے انتہائي جارحانہ گائے کي نگراني کرنے والے گينگ قائم کيے اور جہاں انھوں نے کسي بھي مشتبہ گائے کے ذبيحہ يا گائے کي اسمگلنگ کے بارے ميں خبر سني پوليس کو مطلع کيا اور بعض گروپوں نے اپني طاقت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے گائے کي تجارت ميں پکڑے جانے والوں کو مارنا بھي شروع کر ديا۔
گائے کے خود ساختہ محافظ اپنے کيے ہوئے گھناؤنے جرائم پر فخر جتاتے ہوئے ويڈيوز نشر کرتے ہيں اور بلا تکلف لنچنگ کي ذمہ داري قبول کر ليتے ہيں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انہيں يقين ہوتا ہے کہ انہيں ان ’’کارناموں‘‘ کا بدلہ ان طاقتوں سے ملے گا جو ان کے پشت پر ہيں۔ پوليس نے بہت سے معاملات ميں موب لنچنگ ميں ملوث افراد کا پکڑنے کے بجائے جانوروں کي اسمگلنگ يا ذبح کرنے کے ملزموں کو گرفتار کيا۔ سوشل ميڈيا پر يہ ايک طرح کا مذاق بن گيا کہ گائے ہندوستان کا سب سے محفوظ جانور ہے اور اس کي زندگي انساني جان سے زيادہ مقدس ہے۔
انساني تحفظ قانون (MASUKA )
جولائي 2017 ميں "موب لنچنگ کے خلاف قومي مہم” (The National Campaign Against Mob Lynching) کے بينر تلے سول سوسائٹي نے انساني تحفظ قانون (MASUKA) کے نام سے ايک مجوزہ قانون تجويز کيا۔ مجوزہ قانون ‘ہجوم’ اور ‘لنچنگ’ کي قانوني تعريف پيش کرتا ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ لنچنگ کو ناقابل ضمانت جرم بنايا جائے۔ متعلقہ ايس ايچ او کو فوري طور پر معطل کيا جائے اور وقتي عدالتي تحقيقات کي جائيں۔ ماب لنچنگ کے مجرموں کو عمر قيد کي سزا دي جائے۔ متاثرہ خاندانوں کو بھرپور معاوضہ ديا جائے۔ ملک ميں سياسي ماحول ايسا ہے کہ لنچنگ کے خلاف مجوزہ قانون کو کسي بھي سياسي جماعت نے سنجيدگي سے نہيں ليا ہے۔
اس دوران موب لنچنگ کے واقعات مستقل بنيادوں پر ہوتے رہتے ہيں۔ قرآن کہتا ہے:
بني اسرائيل پر ہم نے يہ فرمان لکھ ديا تھا کہ ”جس نے کسي انسان کو خون کے بدلے يا زمين ميں فساد پھيلانے کے سوا کسي اور وجہ سے قتل کيا اس نے گويا تمام انسانون کو قتل کر ديا اور جس نے کسي کي جان بچائي اس نے گويا تمام انسانوں کو زندگي بخش دي“۔ (سورہ مائدہ، آيت 32)
کسي بھي تہذيب کے ليے انساني زندگي کا تقدس سب سے اہم ہونا چاہيے جس کا مقصد اپنے آپ کو شان و شوکت سے آراستہ اور پيراستہ کرنا ہو۔ اگر ہم اب بھي ہجومي تشدد کو ختم نہيں کر سکتے ہيں، تو ’’امرت کال‘‘ ميں جس کا بہت زيادہ ڈھنڈورا پيٹا جا رہا ہے ہمارے داخلے کا تصور محض خام خيالي ہو گي۔
***
***
ہمارے ملک ميں جاري ہجومي تشدد کے مسلسل واقعات کو ختم کرنے کے ليے ايک سخت انسداد لنچنگ قانون کي ضرورت ہے۔ يہ واقعات مختلف رياستوں ميں مويشيوں کے ذبيحہ قوانين سے جڑے ہوئے ہيں۔ يہ حقيقت ہے کہ زيادہ تر ہجومي تشدد کے واقعات مذہب کے نام پر گؤ رکھشکوں کے ذريعہ انجام ديے جاتے ہيں جو کہ انتہائي پريشان کن ہيں۔ سول سوسائٹي کے کچھ اراکين نے انسانوں کي حفاظت کے ليے قانون ‘Manav Suraksha Kanoon’ (MASUKA کا خيال پيش کيا ہے، جو کہ ہجومي تشدد کے خلاف قانون ہے۔ اسے سياسي جماعتوں اور انصاف پسند لوگوں کي حمايت کي ضرورت ہے۔ ماب لنچنگ کو معمولي سمجھنے کا مطلب ’جنگل راج‘ کو قبول کرنا ہے جو کسي بھي تہذيب کے سنہري دور ميں داخل ہونے کے بلند بانگ دعوے کو نگل ليتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 29 مئی تا 04 جون 2022